Sunday, 07 December 2025
  1. Home/
  2. Najam Wali Khan/
  3. Jang Shuru Kis Ne Ki Thi

Jang Shuru Kis Ne Ki Thi

پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس پر پی ٹی آئی برہم ہے اوراس کا اصل ردعمل سوشل میڈیا پر آ رہا ہے کیونکہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک میڈیا وہ ان لغویات کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا جو پی ٹی آئی کے کارکنوں ا ور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کا خاصہ ہیں۔ مواد او ر مقصد پر آئیں، ان کا سب سے اہم اعتراض یہ ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے سیاست کی کیونکہ ان کی پریس کانفرنس کے مواد کا مرکز پاکستان تحریک انصاف کا بانی تھا۔

اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ پریس کانفرنس ہرگز سیاست نہیں تھی بلکہ سو فیصد نیشنل سیکورٹی کے تقاضوں کا نتیجہ تھی۔ یہ پریس کانفرنس اس فیلڈ مارشل (اور اب چیف آف ڈیفنس فورسز) کی عزت اور حرمت کا تقاضا تھی جس نے معرکہ حق میں پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں تاریخی اور شاندار فتح لے کر دی۔ یہ پریس کانفرنس ہرگز ایک عمل نہ تھا بلکہ یہ ایک ردعمل تھا۔

کئی دوستوں کی رائے یہ ہے کہ فوج کو بولنا نہیں چاہئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اب جنگ ہائبرڈ، ہوچکی، توپوں اور طیاروں کی جنگ سے پہلے بیانیے کی جنگ ہوتی ہے اور اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان تیزی کے ساتھ شیخ مجیب اور پی ٹی آئی، عوامی لیگ بننے کی طرف بھاگی جا رہی ہے۔ فوج بیانیے کی جنگ کی اہمیت کو سمجھ گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب آئی ایس پی آر کو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے کا افسر کمانڈ کرتا ہے۔

ہم یہ فقرہ بھارت کے حوالے سے کہتے تھے، اب اس کا استعمال پی ٹی آئی کے حوالے سے بھی ہو سکتا ہے کہ جنگ شروع دشمن نے کی اوراس کا اختتام پاکستان کی فوج کرے گی۔ کم و بیش بھارت جیسی ہی جنگی صورتحال کا سامنا پی ٹی آئی کے ساتھ ہے فرق صرف یہ ہے کہ توپوں، ٹینکوں اور طیاروں کی جنگ میں دشمن جغرافیائی حدود کے باہر تھا مگر بیانئے کی اس جنگ میں دشمن سرحد کے اندر ہے۔

یہ بات درست ہے کہ ففتھ کالمسٹس اور گھُس بیٹھیوں کو بیرونی مدد بھی حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب کوئی بیانیہ اڈیالہ جیل میں کرپشن کے مقدمے میں سزا یافتہ مجرم شروع کرتا ہے اس کو بینڈ باجے بھارت سے مل جاتے ہیں۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں کسی بھی سیاسی جماعت کے فوج سے ٹکراؤ کے حق میں نہیں ہوں اور اسی طرح فوج کے کسی بھی سیاسی جماعت بارے پریس کانفرنس کرنے کے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا لڑائی کا آغاز فوج نے کیا تھا تو جواب ہے ہرگز نہیں۔

یہ لڑائی اس وقت شروع ہوئی تھی جب فوج نے عمران خان جیسے تجربے کی ناکامی کا بوجھ محسوس کرتے ہوئے بریگیڈئیر لیول پر مشاورت کے بعد فیصلہ کیا کہ اب ہم کسی سیاسی جماعت کو اپنے کندھے پیش نہیں کریں گے کہ وہ اس کو استعمال کرتے ہوئے ایوان اقتدار میں پہنچے یا وہاں براجمان رہے۔ جب یہ پیغام ایم کیو ایم سمیت ان تمام جماعتوں تک گیا جو پی ٹی آئی کے ساتھ بغیر کسی نظریاتی، سیاسی یا مقاصد کی ہم آہنگی کے ساتھ جوڑی گئی تھیں، جب انہیں پتا چلا کہ اب ان پر ڈنڈا نہیں ہے تو انہوں نے پی ٹی آئی کاپٹا تڑوا کے بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔

عمران خان ایک غیر سیاسی بلکہ آمرانہ طبیعت کا شخص ہے جو ہرگز ہرگز آصف علی زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان (جو اس وقت پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھے تھے) کی سیاسی بصیرت اور حکمت عملیوں کامقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا تھا سو فوج کے غیر جانبدار ہوتے ہی وہ ناک آوٹ ہوا، ملکی تاریخ کا پہلا وزیراعظم بنا جسے باقاعدہ آئینی طریقے سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجا گیا (یاد رکھیں کہ اس موقعے پر اسے گرفتار نہیں کیا گیا تھا اور میرے خیال میں اس کو تھپڑ مارنے والی باتیں بھی غلو میں آتی ہیں) ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ سیاست کا جواب سیاست سے دیتا مگر اس نے خود کو پھنے خان سمجھتے ہوئے طاقت سے دینا چاہا اور یوں یہ جنگ شروع ہوئی۔

فوج کے اپنے آئینی اور قومی کردار کے آنے پر اس نے (یعنی عمران خان نے) مطالبہ کیا کہ ایم کیو ایم سمیت بلوچستان کی تمام پارٹیوں کو اس کے ساتھ رکھنے میں فوج اپنا وہی کردارادا کرے جو فیض حمید کیا کرتا تھا مگر فوج نے معذرت کر لی۔ اس بارے مشہور ہے کہ اس وقت کے آرمی چیف (جنرل قمر جاوید باجوہ) سے ایک ہی دن میں صدر علوی اور وزیراعظم عمران نے ملاقاتیں کیں۔

عارف علوی نے تو عمران خان کے گھر جانے کے بعد بھی ایوان صدر کا سیاسی کردار جاری رکھا اور بطور سپریم کمانڈر افواج پاکستان، آرمی چیف کو مجبور کیا کہ وہ ایوان صدر میں عمران خان سے ایک غیر آئینی ملاقات کریں۔ جب فوج نے دوبارہ سیاسی ہونے سے انکار کیا تو اس نے نیوٹرل ہونے پر فوج کو جانور کہا اور فوج کے سربراہ کومیر جعفر اور میر صادق۔ اس سیاستدان نے جنرل فیض حمید کی مشاورت سے آرمی چیف کی تقرری کے موقعے پر نومبر 2022 میں ایک لانگ مارچ کیا تاکہ جنرل عاصم منیر کا راستہ روک سکے مگر اس میں مکمل ناکام رہا۔ یہ اس کے قومی اور ریاستی ادارے پر براہ راست حملے تھے جنہیں بہت تحمل کے ساتھ برداشت کیا جا رہا تھا۔

مجھ سے کل پروگرام بیانیہ، میں پوچھا گیا کہ انتہا کس بات پر ہوئی تو میرا جواب تھا کہ نو مئی پر۔ میں پھر کہوں گا کہ اس نے اپنے پسندیدہ جرنیل کے مشورے سے نومئی برپا کیا تاکہ فوج میں بغاوت کر سکے، جی ایچ کیو پر قبضہ کر سکے، آرمی چیف کو ہٹا سکے اور اس کے نتیجے میں پوری حکومت رخصت کر سکے۔ یہ اس کا بدترین حملہ تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کی سوشل میڈیا ٹیم نے فوج کی قیادت ہی نہیں اس قیادت کے خاندانوں پر بھی حملے جاری رکھے۔ یہ ایسے ہی رکیک حملے تھے جو بھارت اور اسرائیل کی ایجنسیاں کر سکتی تھیں۔ جب اپریل سے مئی کے دوران معرکہ حق ہوا اور دس مئی کو آپریشن بنیان مرصوص تو یہ ثابت ہوگیا کہ پی ٹی آئی پاکستان کی بجائے بھارت کے ساتھ کھڑی ہوئی ہے۔

بات صرف فوج کی نہیں بلکہ اس ریاست کی بھی ہے جس کی حفاظت کے لئے فوج کے جوان جانیں قربان کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی نے اس ریاست کے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے بیل آوٹ پیکجز روکنے کی سازشیں کیں، بیرون ملک شہریوں کوکہا کہ وہ ریمی ٹینسز نہ بھیجیں تاکہ خدانخواستہ ریاست معاشی موت مر سکے۔ یہ ایک مسلسل جنگ تھی جو پی ٹی آئی نے شروع کر رکھی تھی اوراب ایک اور انتہا ہوگئی تھی کہ بھارت کو شکست دینے والے عظیم سپہ سالار کی مسلسل توہین کی جا رہی تھی تو کیا جواب نہ دیا جاتا۔ یہ ڈی جی آئی ایس پی آر کا بنیادی فرض تھا جو انہوں نے ادا کیا۔ ایک فوجی نے اس جنگ میں اپنے سپہ سالار کا دفاع کیا جو مخالف مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran