Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Najam Wali Khan/
  3. Khud Kashi Aur Main

Khud Kashi Aur Main

میرے سامنے اسلام آباد میں خود کشی کرنے والے خوبصورت، نوجوان ایس ایس پی عدیل اکبر کے بارے تحقیقاتی کمیٹی کی خبر کھلی ہوئی ہے جس کی فائنڈنگز میں خود کشی کے شواہد نہیں ملے۔ میری دُعا ہے کہ یہ ناگہانی موت ہرگز خود کشی ثابت نہ ہو۔ اگر چہرے پر لگنے والی گولی سے ہونے والی موت خود کشی نہیں توپھر دو ہی آپشن بچتے ہیں، ایک حادثاتی طور پر گولی کا لگ جانا اور دوسرے قتل۔

میرا کہنا ہے اگر یہ قتل تھا تو قاتل کو ٹریس کرکے فوری سماعت کی عدالت کے ذریعے عبرتناک سزا ملنی چاہئے کہ اس نے خاندان ہی نہیں قوم کو ایک قیمتی فرد سے محروم کر دیا، ریاست کا نقصان کیایقینی طور پر امتحانات میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت میں ایس ایس پی تعینات ہوجانے والا نوجوان عام اور معمولی نہیں ہوسکتا۔ میں سازشی تھیوریوں کے ساتھ ہرگز نہیں جاؤں گا بلکہ انتظارکروں گا کہ جدید ترین طریقہ تفتیش سے حقائق تک پہنچا جائے جس کی اہلیت ہمارے تحقیقاتی اداروں میں موجود ہے۔

یہ وقت ہے کہ میں خود کشی کے حوالے سے اپنے موقف کی بھی وضاحت کروں جسے سوشل میڈیا پر ایک بہت بڑا ایشو بنا دیا گیا۔ میری یہ وضاحت ان کے لئے ہرگز نہیں ہے جو مجھ سے محض سیاسی و نظریاتی اختلاف کی وجہ سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے ہر بات کی تشریح غلط ہی کرنی ہے چاہے وہ بات یہ ہو کہ ایک باپ کو اپنی بیٹی کے جسم پر کسی محفل میں ایسے ہاتھ نہیں پھیرنا چاہئے جو کسی ویڈیو میں قابل اعتراض لگے بلکہ عمومی طور پر باپ اپنی بیٹیوں کے بدنوں کو ایسے ہاتھ ہی نہیں لگاتے یا وہ بات یہ ہو کہ کسی سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ بالخصوص کسی خاتون کو ایسی پوسٹ نہیں کرنی چاہئے جو ذو معنی ہو۔

میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ میں ایک کلٹ کے نشانے پر ہوں کیونکہ میں اس ملک میں امن، تعمیر اور ترقی کی بات کرتا ہوں، میں اس گروہ کے خلاف ہوں جس کو دیا گیا مکمل شعور یہ ہے کہ جب پاکستان کا جھگڑا ایران سے ہو تو وہ ایرانی بن جاتے ہیں، جب بھارت سے ہوتو ہندوستانی اور جب افغانستان سے ہوا ہے تو افغانی بنے پھرتے ہیں۔ میری وضاحت میرے ان ہزاروں فالوورز کے لئے ہے جو مجھ پر اعتماد کرتے ہیں، جو مجھ سے محبت کرتے ہیں ۔ ان کے ذہنوں میں کوئی غلط فہمی ہے تو میرا فرض ہے کہ میں اسے رفع کروں۔

میں اوپر بیان کیا ہوا فقرہ دوہراوں گا کہ خدا کرے، ایس ایس پی صاحب کی موت خود کشی نہ ہوتاکہ اس کے نام کے ساتھ جو کچھ جوڑا جا رہا ہے وہ نہ جوڑا جائے۔ میری اس خواہش کے پیچھے میرا کوئی فائدہ ہے نہ نقصان اور اگرکچھ ہے تو ان والدین کا خیال ہے جنہوں نے اس قابل بچے کو پروان چڑھایا، ایسی تعلیم و تربیت فراہم کی کہ وہ نمایاں ترین عہدے پر جا پہنچا، ایک ایسا عہدہ جس کے بارے میں کروڑوں نوجوان محض خواب دیکھتے ہیں، جی ہاں، عام نوجوان تو خواب دیکھتا ہے کہ وہ پولیس کا سپاہی یا چھوٹا تھانے دار ہی ہو جائے اور وہ تو وفاقی دارالحکومت کابہت وڈا تھانے دار تھا۔

مجھے اس کی تین چاربرس کی بیٹی کا خیال ہے کہ وہ ساری عمر اس بوجھ تلے نہ دبی رہے کہ اس کاقابل ترین باپ اس کی سرپرستی کرنے کی بجائے اسے ظالم دنیا میں دانستہ دوسروں کے سہارے تنہا چھوڑ کے چلا گیا۔ ویسے مجھے یقین بھی نہیں کہ عدیل اکبر جیسا کامیاب شخص خود کشی کر سکتا ہے اور وہ بھی اس بنا پر کہ اسے دو برس سے ترقی نہ ملی ہو۔ اگر اس کی حمایت کی جائے اوراسے گلوریفائی کیا جائے تو کیا وہ لاکھوں سرکاری ملازمین خود کشی کر لیں جو پنجاب کے محکمہ تعلیم یا صحت کے ملازمین ہیں او ر ایک گریڈ میں دس، دس اور پندرہ، پندرہ برس گزار دیتے ہیں، نہیں، جب ہم صحافی، اینکر، سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ ہیں، لوگ ہماری بات سنتے ہیں تو ہم اس تصور اور فرار کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتے۔

اللہ کے احکامات کے تحت اور میری نظر میں زندگی ایک امانت ہے اور ہمارے وجود پر ہم سے زیادہ ہمارے پیاروں کا حق ہے جیسے ہمارے والدین، جیسے ہمارے بچے۔ ہم خود کشی کرکے خود تو چلے جاتے ہیں مگرانہیں ان کے حقوق سے محروم کر دیتے ہیں۔ مجھے افسوس ہوا کہ کچھ دوستوں اور بہت سارے دشمنوں نے محض جذباتی ہو کے اللہ اور نبی ﷺ کے واضح احکامات کی نفی کرنا شروع کر دی، ا گر بات صرف خود کشی کی ہے تو وہ سو فیصد حرام موت ہے۔

یہ متفق علیہ حدیث ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے کس طریقے سے خود کو ہلاک کیا یعنی خود کشی کی وہ قیامت تک خود کو اسی طریقے سے ایذا پہنچاتا رہے گا۔ کتاب الایمان میں ہے کہ جو شخص خود کشی کرے گااسے آگ کا عذاب دیا جائے گا۔ کچھ کا کہنا تھا کہ ایسا کہنا اخلاقیات کے منافی ہے اور میرا کہنا ہے کہ میری اخلاقیات اللہ اور رسول کے حکم سے آگے نہیں۔ ان لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ موت یا خود کشی کا مذہب سے کیا تعلق اور میرا کہنا ہے کہ ہر وہ بات جس کا حکم قرآن وحدیث میں آ گیا اس کا تعلق ہے اور سوفیصد ہے۔

آج آپ زندگی اور موت کو دین سے نکالیں گے اور کل کہیں کہ معیشت اور روزگار کا دین سے کیا تعلق، اس کے بعد آپ دین کومسجد میں بند کر دیں گے، یہ سوچ درست نہیں ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ دین کا نہیں ذہنی صحت کا معاملہ ہے، آپ مانیں نہ مانیں، میرا ایمان ہے کہ اللہ کو ماننااور سجدے میں مانگنا، اُمید کو بڑھاتا، فرسٹریشن اور ڈپریشن کو کم کرتا ہے۔ میں ادویات کے استعمال کا حامی ہوںمگر آزما لیجئے، یہ نفسیاتی علاج ساتھ ساتھ کام کرتا ہے۔

کچھ نے یہ بھی کہا کہ تم دین کی بات کرتے ہو، تم خود کتنا دین پرعمل کرتے ہو تو میرا جواب ہے کہ جتنا زیادہ سے زیادہ ہوسکے اور جب دین کی حمایت اور مخالفت کی بات آئے گی تو میری دعا ہے کہ میرا رب مجھے اپنے دین اور احکامات کے ساتھ رکھے چاہے اس کی قیمت خود یہ زندگی ہی کیوں نہ ہو جسے میں سب سے قیمتی کہہ رہا ہوں۔

یہ موت کا معاملہ بہت عجیب ہے، خود کشی پردوزخ کی وعید ہے کہ آگ کا عذاب ہوگا، اسی طرح بار بار مرنا ہوگا لیکن اگر وہی موت شہادت کی مل جائے تو ہمیشہ کی زندگی ہے، سعادت ہے، جنت ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں عدیل اکبر کی موت کے ساتھ خود کشی کو جوڑنے اور اسے جواز دینے کی مزاحمت کرتا ہوں کیونکہ وہ اس فیلڈ میں تھا جس میں اسے شہادت کی موت بھی مل سکتی تھی، ہاں، ایک بات ضرور کہوں گا کہ سوشل میڈیا کی پوسٹس تندو تیز ہوتی ہیں، میرے الفاظ سے اگرمرحوم کا کوئی پیارا ہرٹ ہوا تواس سے دلی معذرت، کسی کو مجھ سے دُکھ پہنچے، میرااس میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran