کیا وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز بات سُنیں گی کہ بسنت ایک خونی کھیل ہے، اس کے فائدے کم اور نقصان زیادہ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ کچھ لونڈوں لپاڈوں اور شوخے نو دولتیوں کی حمایت اس سے حاصل ہوجائے مگر کس قیمت پر، اپنے بچوں کی زندگیوں کی قیمت پر، ان کے سامنے جس نے بھی یہ سودا رکھا ہے بہت مہنگا رکھا ہے کیونکہ اس کا حساب دُنیا میں ہی نہیں آخرت میں بھی ہوگا۔ میں نے اس پر بہت سوچا کہ میں اس پر کالم لکھوں یا نہیں مگر جب میں صرف بسنت کی اجازت کی مبینہ اطلاعات پر قتل شروع ہوتے دیکھے تو میرا دل دہل گیا اور مجھے وہ بہت سارے برس یاد آ گئے جب ہم کچھ عیاشوں کی عیاشی کی قیمت میں اپنے بچوں اور نوجوانوں کے جنازے اٹھاتے رہے۔ اس پر کچھ دوستوں کا یہ سوال الگ ہے کہ وزیراعلیٰ جو کرنے کی ٹھان لیتی ہیں وہ کرکے رہتی ہیں، کیا وہ بات سنیں گی تو میرا جواب تھا کہ میرا فرض ہے کہ اپنے تجربے، ایمان اور ضمیر کی روشنی میں بہترین مشورہ دے دوں، اس کے بعد اپنی رعیت کے بارے وہ خود جوابدہ ہیں۔
یہ وہ دوست تھے جنہوں نے بتایا تھا کہ پنجاب حکومت گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں، گاڑیوں کی بجائے مالکان کو جاری کرنے جا رہی ہے۔ اب ہر مرتبہ گاڑی کی ملکیت بدلنے کے ساتھ اس کا نمبربھی بدل جائے گا۔ ان کا سوال تھا کہ کیا ہم نے اپنے گاڑیوں کے نمبر لگانے والے محکمے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو اتنا ایفیشنٹ اور کرپشن فری کر لیا ہے کہ ہر ٹرانسفر پر نئی نمبر پلیٹ جاری ہوجائے کیونکہ اب تک نئی گاڑیوں کی دو دو برس تک نمبر پلیٹیں نہ ملنے کی شکایت رہی ہے جس سے ایکسائز سے ٹریفک پولیس تک کی چاندی ہوتی رہی ہے۔ اب صرف نئی گاڑی نہیں بلکہ ہر ٹرانسفر پر پنجاب کے عوام کو ایک نئی خواری کا سامنا کرنا پڑے گا، نمبر پلیٹ کی خواری۔
بہرحال بات بسنت کے حوالے سے ہو رہی ہے اوردعویٰ ہے کہ اسے محفوظ بنایا جا سکتا ہے مگرمیں دو سو فیصد کنوینس ہوں کہ بسنت محفوظ ہو ہی نہیں ہوسکتی، یہ بہرصورت جان لیوا ہوگی۔ پنجاب میں آخری باقاعدہ بسنت پرویز مشرف نے چوہدری پرویز الٰہی کو حکم دے کر منوائی تھی اور اس بسنت نے بھی ایک درجن سے زائد نوجوانوں کی جان لے لی تھی۔ میں بطور رپورٹرا س وقت ایوان وزیراعلیٰ میں موجود تھا جب چوہدری پرویز الٰہی ہر مرنے والے بچے کے والدین کو کچھ لاکھ کے چیک دے رہے ہیں اور وہ ماں باپ وزیراعلیٰ سے روتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ انہیں یہ چند لاکھ نہیں چاہئیں، انہیں ان کے بچے واپس کر دیں جو ایک حکمران کی رنگین مزاجی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
کہا جا رہا ہے کہ محفوظ ڈور اور پتنگوں کویقینی بنایا جائے گا اور میں آپ کو یقین سے کہہ سکتا ہوں اب کوئی بھی ڈور محفوظ نہیں ہے چاہے اس میں کیمیکل کا استعمال ہو یا نہ ہو اور اگر کسی کو یقین نہ ہو تو حکومت کی کوئی بھی سرٹیفائیڈ ڈور اپنے بچے کے گلے پر، چاہے سائیکل پربٹھا کے ہی سہی، پھیر کے دیکھ لے اور اگر وہ نرم و نازک گلا ایسے نہ کٹ جائے جیسے چھری کے ساتھ کیک کا ٹکڑا کا مکھن کا ڈلا کٹ جاتا ہے تو میں اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائوں گا۔
دوسری بات یہ کی جا رہی ہے کہ بسنت کو مخصوص علاقوں تک محدود رکھا جائے گا جو دیوانے کا خواب ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ سولہ سترہ برس سے پتنگ بازی پر پابندی ہونے کے باوجود آج بھی ڈور لگ رہی ہے اور گڈی بن رہی ہے اور اگر ایک مرتبہ اس کی اجازت مل گئی تو پھر گلی گلی محلے محلے اس کے پھیلائو پر قابو پانا ممکن ہی نہیں رہے گا۔ یہ پولیس کے بس کی بات ہی نہیں ہے کہ وہ پتنگ بازی کو کسی ایک علاقے تک محدود رکھ سکے۔ رہ گئی بات کہ بسنت والے علاقوں میں موٹرسائیکلوں کاچلنا ممنوع کر دیا جائے گا تو اس پروہی شعر کہا جا سکتا ہے کہ سگ آزاد ہوں گے اور سنگ قید۔
آپ موٹرسائیکلوں پر گلے کٹنے سے بچا لیں گے مگر جو دیواریں پھلانگتے، سڑکوں پر گڈیا ں لوٹتے اور چھتوں سے گر کے ہلاک ہوں گے یا جنہیں دھاتی تاروں کے گرنے سے کرنٹ لگنے سے مرنے کا سامنا ہوگا، ان کے بارے کیا خیال ہے۔ ایک وقت تک یہ دلیل دی جاتی رہی کہ ڈور اور پتنگوں کی تیاری سے کئی خاندانوں کا روزگار جڑا ہوا ہے مگر اب ڈیڑھ عشرہ سے زائد کی پابندی کے بعد یہ دلیل بھی موثر نہیں رہی کیونکہ ان تمام خاندانوں نے متبادل کاروبار ڈھونڈ لئے ہیں اور یوں بھی یہ کیا دلیل ہوئی کہ کسی کا روزگار قتل سے جڑا ہے یا منشیات سے۔ منشیات سے یاد آیا کہ بسنت کتنا اچھا تہوار ہے اس کا اسی سے اندازہ لگا لیں کہ اس کی آمد پر ہلڑ بازی ہی نہیں، شراب کی فروخت بھی کتنی بڑھ جاتی تھی۔
میڈیا پر بہت سارے لوگ بسنت کو رنگوں اور خوشیوں سے جوڑ رہے ہیں، مثالیں دی جا رہی ہیں کہ اس سے معیشت کو بہت فائدہ ہوگا، ہوٹل بھر جائیں گے، پکوان بکیں گے مگر مجھے کہنے دیجئے کہ رنگوں اور خوشیوں سے زیادہ، معززین اور شرفاء کی بجائے لوفروں اور لفنگوں لوگوں کا تہوار ہے جس میں گھروں کی چھتوں پر کھڑے ہو کے دوسروں کے گھروں میں جھانکا جاتا ہے اور بہنوں بیٹیوں کوتاڑتے ہوئے گانے گائے جاتے ہیں کہ دل ہوا بو کاٹا۔ اس بسنت کے بعد وزیراعلیٰ کی سی سی ڈی کتنے لوگوں کے نیفوں میں پستول چلا سکے گی مجھے تواس بارے صحیح طورپر اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں لگ رہا، یہ کئی ہزار بھی ہوسکتے ہیںاور کئی لاکھ بھی۔ حکومت لیسکو سے ہی پوچھ لے کہ اس کا اس طوفان بدتمیزی سے کتنا نقصان ہوگا۔
میں آپ کو پورے یقین سے کہتا ہوں کہ ہم سب جو میڈیا پر بیٹھ کے بسنت منانے کے فیصلے کو عین ثقافتی اور معاشی انقلاب کہتے ہوئے اس کے حق میں دلائل رہے ہوں گے انہی سکرینوں پر ایک بھی بچہ مرنے پر ہم سب ہی جو ماتم کر رہے ہوں گے وہ اس سے کہیں زیادہ بلند اور شور والا ہوگا جس میں بسنتی قتلوں کی ذمے داری حکومت پر ہی عائد کی جا ری ہوگی۔ مان لیجئے کہ ہم سب اتنے مہذب اور اتنے اچھے نہیں ہوئے کہ قانون کی پابندی کریں۔ ابھی تک ہم اسی اشارے پر رکتے ہیں جس پر حکومت نے کیمرے لگا رکھے ہیں ورنہ قانون ہماری پائوں کی ٹھوکر میں ہوتا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز ایک مہذب اورجدید پنجاب بنانے کے لئے کوشاں ہیں مگر بسنت ہمارے معاشرے کی ایک ایسی تصویر پیش کرے گی جس میں بہت سارے معصوم بچوں کے چہرے لہو میں ڈوبے ہوں گے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کو اچھا لگتا ہے کہ انہیں اپنے عوام کی ماں کہا جائے مگر کیا ایک ماں اپنے بچوں کو اس راستے پر چلنے کی اجازت دے سکتی ہے جس پر وہ زخمی ہو رہے ہوں یا ان کے مرنے کا خدشہ ہو؟