ستائیسویں آئینی ترمیم پر پارلیمنٹ میں حکمران اتحاد کو مولانا مدظلہ علیہ کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے اور مجھے یہ بھی علم نہیں کہ اس موضوع پر مولانا کی حتمی رائے کیا ہے مگر مجھے اتنا ضرور علم ہے کہ مولانا نہ جذباتی فیصلے کرتے ہیں اور نہ ہی گھاٹے کے سیاسی سودے۔ وہ بہت عقل مند، سیانے، کائیاں اور محب وطن ہیں۔ ان کے فیصلوں نے ہمیشہ تہتر کے آئین کے تناظر میں سیاسی اور جمہوری استحکام میں اہم کردارادا کیا ہے۔
پی ٹی آئی والے جو مرضی کہتے رہیں مگر میرا کہنا ہے کہ مولانا محب وطن ہیں اور انہوں نے ہمیشہ عقل اورمنطق کو راہ دی ہے۔ میں نے آئین، جمہوریت، سیاست اور صحافت کے طالب علم کے طور پر مولانا کی سیاسی حکمت عملیوں کا جتنا مطالعہ کیا ہے میں قائل ہوا ہوں کہ انہوں نے کبھی دیوار سے ٹکر نہیں ماری اور جب بھی ٹکر ماری ہے تواس میں کوئی کھڑکی کوئی دروازہ نکالا ہے۔
بدخواہ جو مرضی کہتے رہیں، جو مرضی الزام لگاتے رہیں مگر مولانا دائیں اور بائیں بازو میں ایک مضبوط پُل ہیں۔ وہ دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور جہاں ان پر طالبان جیسی قوتیں اعتماد کرتی ہیں وہاں ان کی لبرل ازم اور سوشل ازم کی داعی پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی ایسی رسم و راہ ہے جس کی نظیر نہیں ملتی، یہ یقینی طور پر مولانا کی اعلیٰ ظرفی اور روشن خیالی ہے کہ اگر مولانا مفتی محمود کی ذوالفقار علی بھٹو شہید کے ساتھ شدید مخاصمت رہی مگر جب مولانا میدان میں آئے تو بی بی شہید کی 1988ء کی حکومت تھی یا 1993ء کی، مولانا ہمیشہ حکومت میں ان کے ساتھ رہے یا اس کے بعد جب جناب زرداری نے حکومت بنائی تو تب بھی، مولانا این ایف سی ایوارڈ کی تشکیل اور آئینی ترامیم کے موقعے پر ساتھ تھے۔
اس بار نہ کسی پرمٹ کا الزام تھا اور نہ ہی عورت کی سربراہی کا شرعی سوال، جوناقدین کی طرف سے کیا جاتا رہا۔ ابھی حال ہی میں وہ پی ڈی ایم کے سربراہ تھے، جی ہاں، وہی پی ڈی ایم جس نے عمران خان کو گھر بھیجا مگر اس کے باوجود ان کی عمران خان کے ساتھیوں کے ساتھ بھی بہت اچھی گپ شپ ہے۔ حد تو یہ ہے کہ محمود اچکزئی ان کی مدد سے لیڈر آف دی اپوزیشن بننے کا خواب دیکھ رہا ہے، چلیں دیکھتا رہے، تہتر کے آئین کا تناظر اپنی جگہ مگر یہ ان کی ذاتی خوبی اور کمال ہے کہ سب کے ساتھ بنا کے رکھتے ہیں۔
بدخواہ جو مرضی کہتے رہیں، مولانا نے پرویز مشرف کی آمریت میں بھی جو کردارادا کیا وہ تاریخی نوعیت کا ہے۔ وہ 2002ء کے حیرت انگیز الیکشن کے نتیجے میں، مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کو پچھاڑتے ہوئے، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنے اور خیبرپختونخواکی وزار ت اعلیٰ بھی اپنے ایک کارکن کو لے کر دی مگر اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے ایم ایم اے کے سربراہ کے طور پر ستارہویں آئینی ترمیم کی راہ ہموار کی جس نے مشرف آمریت کو آئینی جوازہی عطا نہیں کیا بلکہ انہیں ایک مرتبہ پھر اسمبلی توڑنے اور وردی میں صدر رہنے کا اختیار دے دیا۔
اب بدخواہ جو مرضی کہتے رہیں مگر میں کہوں گاکہ اس ترمیم نے پرویز مشرف کو مضبوط نہیں کمزور کیا تھا اور ایک ڈکٹیٹر کے دور کے خاتمے کی راہ اسی سے نکلی تھی چاہے وہ اس ترمیم کے بہت سارے برسوں کے بعد نکلی۔ میں نے کہا کہ مولانا نے کبھی دیوار کو ٹکر نہیں ماری، ہمیشہ اس دیوار میں کھڑکی اور دروازے نکالے ہیں ۔ وہ ہمیشہ تہتر کے آئین کے تناظر میں بات کرتے ہیں اوراگر ہم جیسے کم علم آئین کی اصل روح کو نہیں سمجھ پاتے تو یہ مولانا کی حکمت عملی کی نہیں ہمارے علم اور فہم کی کمی اور کوتاہی ہو تی ہے۔ میں آج کل مولانا کا فین ہونے کے باوجود ان کے سوشل میڈیا ایکٹیویسٹس کی محبتوں کا نشانہ بن رہا ہوں۔ جس طرح مولانا تہتر کے آئین میں ستارہویں ترمیم نکال سکتے ہیں اور اسی طرح ان کے فالوورز دین کی تعلیم سے جو زبان نکال رہے ہیں وہ بھی اپنی جگہ ایک حیرت کدہ ہے، اللہ انہیں جزا دے۔
بدخواہ جو مرضی کہتے رہیں مگر مولانا پچھلے انتخابات میں خود سے ہونے والی زیادتی پر غصے میں ہیں مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ کبھی ذاتی، کاروباری اور سیاسی نقصان کی بنیاد پر آئینی، قومی اور جمہوری فیصلوں میں ڈنڈی نہیں ماریں گے کہ اگر ایسا ہوتا تو وہ چھبیسویں آئینی ترمیم پر بھی حکومت کی بالکل مدد نہ کرتے۔ ایک بڑا انسان اور عظیم رہنما ایسا ہی ہوتا ہے جو قومی مفاد پر ذاتی رنجشوں کو بھلا دیتا ہے۔
وہ ایک مرد مومن ہیں، اقبال کے شاہین ہیں۔ ان کا کامل یقین ہے کہ انہیں عزت، دولت، طاقت اور اقتدار سب اوپر والا دیتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ اگر کوئی ان سے ان کے ذریعہ معاش یا دولت وغیرہ بارے پوچھے تو وہ انتہائی بردباری کے ساتھ ہنس دیتے ہیں جیسے کوئی بزرگ کسی بچے کے نادانی بھرے سوال پر ہنس دے، بے شک رزق دینے والی ذات اللہ ہی کی ہے اور ہم دنیا دار عارضی وسیلوں اور ظاہری اسباب کے بارے پوچھتے پھرتے ہیں جو ایمان کی کمی اور توکل کی نفی ہے۔ اقبال نے کہا تھا، نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں اور یہ کہ نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ ان کو، یدبیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں۔ یدبیضا جب نکلتا ہے تو آنکھیں چندھیا دیتا ہے۔
بدخواہ جو مرضی کہتے رہیں مگر میں پورا بھروسہ اور یقین رکھتا ہوں کہ مولانا ستائیسویں ترمیم کے موقعے پر بھی وہی فیصلہ کریں گے جو ایک محب وطن اور باشعور رہنما کو کرنا چاہئے جیسے انہوں نے چھبیسویں ترمیم کے موقعے پر کیا۔ پچھلی ترمیم کی دفعات چھوڑیں کہ ان میں کیا لایا گیا، کیا نہیں لایا گیا مگر مولانا کی مدد سے ان کی عدالتی سربراہی ضرور رک گئی جن کے بارے تاثر تھا کہ وہ حکومت ختم کر سکتے ہیں یا اسٹیبلشمنٹ کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں۔ یہ مولانا کا بڑا ویژن، بڑا احسان تھا ورنہ پی ٹی آئی والے توامیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ ان کے من پسند جج ایک اور وزیراعظم کھا جائیں گے۔
سچ بتائوں مجھے مولانا کے سخت گیر بیانات سے کبھی غلط فہمی نہیں ہوتی کہ وہ اس کی وجہ سے کوئی سخت اقدام بھی کر سکتے ہیں کیونکہ میں ان کے تاریخی سیاسی کردارکے مطالعے کے بعد اتنا تو سمجھ گیا ہوں کہ مولانا اوپر سے بہت سخت نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں ان کا دل بہت نرم ہے۔ وہ دوستوں کی مدد کے لئے تھوڑی بہت ردوکد کے بعد تیار ہوجاتے ہیں۔ ستائیسویں آئینی ترمیم پر معاملہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت موجود ہے، زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ سینیٹ میں ایک دوارکان کی ضرورت پڑے اور مولانا اس وقت تک ہرگز حکومت کی مدد نہیں کریں گے جب تک حکومت (یا اسٹیبلشمنٹ) واقعی مشکل میں نہ پھنس جائے۔ اللہ ہمارے سروں پر اُن کا سایہ ہمیشہ سلامت رکھے!