کبھی ہمارے بریلوی بھائی میٹھے میٹھے اور پیارے پیارے ہوا کرتے تھے، حلوے کی طرح میٹھے، سبز گنبد کی طرح ٹھنڈے اور پیارے، فقیر اور درویش مگر نجانے چند برسوں سے انہیں کیا ہوگیا ہے، ان کے اندر اتنا غصہ کیوں اور کیسے بھر گیا ہے کہ سلام اور درود والے پتھر اور بارُود والے ہوئے پھرتے ہیں۔ میں نے اپنی صحافتی زندگی میں طویل عرصہ اہلسنت میں دیوبند اور اہل تشیع مکتبہ فکر کو اس طرح غصے میں دیکھا ہے مگر اس سے ان دونوں کو کیا ملا سوائے اپنے پیاروں اور عالموں کے جنازوں کے، دکھوں اور غموں کے۔
میں ان دنوں روزنامہ خبریں میں ہوا کرتا تھا جب سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد خوف اور دہشت کی علامت ہوا کرتی تھیں۔ میں اکثرٹھوکر نیاز بیگ کے پاس سے گزرتے ہوئے ان دنوں کو یاد کرتا ہوں جب وہ علاقہ نوگو ایریا ہوا کرتا تھا۔ مجھے دینی جماعتوں کے رپورٹر کے طور پر جب وہاں جانے کا موقع ملا یہی دیکھا کہ بنکر بنے ہوئے ہیں مگر نہ پھر وہ بنکر رہے اور نہ وہ نو گوایریاز۔
مجھے یاد ہے کہ جب داتا گنج بخش علیہ رحمہ کے دربار شریف پر حملہ ہوا تھا تو اس وقت بھی میرے بریلوی بھائی بہت غصے میں آئے تھے۔ وہ مہربان اورشاندار عالم دین تھے جن سے دوست بلکہ بھائی ہونے کا دعویٰ ہے، وہ میرے پاس تشریف لائے تھے اور کہا تھا کہ نجم بھائی، بہت ہوگئی، اب ہم بھی اپنے مدرسے کے نیچے تہہ خانے بنائیں گے، ہم بھی اسلحہ رکھیں گے اور مجاہد ہمارے پاس بھی بہت ہیں جو اپنے دین پر کٹ مرنے کے لئے تیار ہیں۔
میرا ان کو جواب تھا کہ ہمارے گلی محلوں نے شیعہ دیوبندی لڑائی کو تو برداشت کر لیا لیکن اگر یہ بریلوی دیوبندی لڑائی میں بدلی تو پورے معاشرے کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا، ہر گلی ہر محلے میں ایسی لڑائی ہوگی کہ سنبھالی نہیں جائے گی۔ میں نے کہا، میں جانتا ہوں کہ آپ شدید دکھ اور غم کی حالت میں ہیں مگر اللہ تعالیٰ تو صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں، انشاء اللہ، حالات بہتر ہوجائیں گے اور پھر یہی ہوا، وہ تلخ دور گزر گیا۔ میرے لئے بریلویوں میں یہ غصہ بھی حیران کن تھا جب جامعہ نعیمیہ میں سالانہ مجلس کے دوران سابق وزیراعظم پر ایک بریلوی طالب علم کی طرف سے جوتا پھینکا گیا تھا اور میں حیران ہوا تھا کہ بریلوی ایسے کب ہوتے تھے۔
دینی جماعتوں کی رپورٹنگ کے اسی دور میں، میری بریلوی مکتبہ فکر میں، علامہ شاہ احمد نورانی اور مولانا عبدالستار نیازی سے بھی نیاز مندی رہی۔ دونوں کے دفاتر مال روڈ پر نہر کراس کرکے کینٹ ایریا میں ایک دوسرے کے بہت قریب ہوتے تھے۔ علامہ شاہ احمد نورانی کا کراچی کی اردووالانستعلیق لہجہ مجھے بہت پسند تھا۔ ایک مرتبہ یوں ہوا کہ وہ لاہور سے کراچی جانے کے لئے ائیرپورٹ پہنچے تو پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے ان کی گاڑی پر حملہ کر دیا۔ وہ جان بچا کے واپس اپنے دفتر آگئے۔ مجھے اس کی اطلاع مساوات اخبار کے چیف رپورٹر افتخار علی آغا (اپنے بہت پیارے دوست کو مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے) نے دی اور ہم دونوں اپنی اپنی موٹرسائیکلوں پر ان کے دفتر پہنچ گئے اور ایک بڑی خبر کی تفصیلات معلوم کیں۔
نورانی صاحب کے مقابلے نیازی صاحب بہت غصے والے ہوا کرتے تھے اور ایک مرتبہ ایک پریس کانفرنس میں میرے دوست صحافی نے انہیں تنگ کرنے کے لئے ایک سوال بار بار پوچھا تو انہوں نے قریب پڑا ڈنڈا اٹھا لیا اور غصے میں بولے بند کرتا ہے اپنی بک بک یا دوں تجھے ڈنڈا۔ میٹھے میٹھے مدنی بھائیوں کی اصطلاح تو الیاس قادری صاحب کی دعوت اسلامی سے آئی، زمانہ طالب علمی میں اپنے علاقے کی مسجد دربار حضرت بابا شاہ کمال میں، میں نے بہت عرصہ فیضان سنت سے درس دیا اور کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ ہفتہ وار بعد نماز عشا سوڈیوال والی مسجد میں اجتماع میں پوری جیب ہی مرکزالمدینہ کی تعمیر کے لئے خالی کر دی۔
بریلویو ں کی نمائندہ سیاسی تنظیم جمعیت العلمائے پاکستان ہوا کرتی تھی (اور اب بھی ہے) مگر اب وہ اتنی مقبول نہیں رہی بلکہ ایم کیو ایم کے آنے سے پہلے کراچی سے بھی جے یو پی سیٹیں نکالا کرتی تھی مگر پھر کراچی ہی کچھ اور بن گیا۔ مجھے اس وقت بھی حیرت ہوئی تھی جب بریلوی نوجوانوں کی طلبا تنظیم انجمن طلبا اسلام، سٹوڈنٹس یونینز کے انتخابات میں صوبے کی دوسری بڑی منتخب تنظیم کے طور پر سامنے آئی۔ اس نے چھوٹے شہروں میں ریکارڈ کامیابی حاصل کی تھی مگر اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔ جے یو پی کے زوال کے بعد بریلوی مکتبہ فکرکے علما، امام اور خطیب تحریک لبیک پاکستان کے پلیٹ فارم سے منظم اور متحرک ہوچکے ہیں۔ یقینی طور پر جب انہیں ان کی تنظیم کی طرف سے کال ملتی ہے تو وہ اس پر لبیک کہتے ہیں اور ان کے نزدیک اپنی تنظیم کا ساتھ دینا ناموس رسالت اور یارسول اللہ کے نعرے کا تحفظ بھی ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس میں سختی اور زبردستی کہاں سے آ گئی۔
اب بھی عشق رسول ﷺ میں ڈوبے بھائیوں سے کہنا ہے کہ ہمارے اور ان کے سرکار نے تو شعب ابی طالب میں بہت مظالم برداشت کر لئے، طائف والوں کے پتھر کھالئے مگر وہ سراپا رحمت اور برکت ہی رہے۔ جب میں اپنے ان بھائیوں کو ڈنڈوں اور پتھروں کے ساتھ دیکھتا ہوں تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔ اس دلیل میں بھی وزن موجود ہے کہ اگر کسی تنظیم نے احتجاج کرنا تھا تو اس وقت کرتی جب اسرائیل، غزہ میں نسل کشی اور قتل عام کر رہا تھا۔ جب اس نے دو برسوں میں ستر ہزار کے قریب بے گناہ شہید کر دئیے جن میں سے ایک تہائی بچے تھے۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ جب امن معاہدہ ہونے لگا جس میں پاکستان سمیت آٹھ مسلم ممالک نے بھی اہم کردارادا کیا تو ہم نے احتجاج شروع کر دیا۔ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ امن معاہدہ نہ ہو، حماس اور اسرائیل کی جنگ جاری رہے، ہم یہ چاہنے والے کون ہوتے ہیں جب خود فلسطین کے لوگ اس پر خوشیاں منا رہے ہیں۔
میری پختہ رائے ہے کہ میرے بریلوی بھائیوں کو اس موقعے پر میلاد اور درود کی محفلیں کرنی چاہئیں، حلوے اور کھیر کی دیگیں پکانی چاہئیں، شکرانے کے نوافل ادا کرنے چاہئیں کہ کچھ بہتر ہونے لگا ہے نہ کہ ہم اپنے شہروں کو لڑائی، تصادم اور فساد کا مرکز بنا دیں۔ ہماری وجہ سے خلق خدا پریشانی کا شکار ہو۔ بچے سکول اور بیمار ہسپتال تک نہ پہنچ سکیں۔ حکومت کو بھی دیکھنا ہوگا کہ ہرمسئلے کا حل کیا صرف طاقت ہے۔ یقینی طور پر لییک والے ٹی ٹی پی والے نہیں ہیں۔ دونوں فریقوں کو پر امن طریقے سے اختلاف کی راہ نکالنی چاہئے۔ تحریک لبیک کے پاس پوٹینشل موجود ہے کہ وہ اس سے بڑی سیاسی قوت بن سکے مگر وہ تصادم سے نہیں بن سکے گی، جیسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر آ رہی ہیں اس سے عوام ان سے خوفزدہ ہوجائیں گے، دور بھاگ جائیں گے۔