یاماہا موٹرسائیکلوں کے بن قاسم انڈسٹریل ایریا کراچی سے پلانٹ کے بند ہونے کی خبر آئی تو مجھے اپنا پہلا رومانس یاد آ گیا، یہ ستاسی ماڈل کی یاماہا ہنڈرڈ تھی جو میں نے اس وقت سیکنڈ ہینڈ خریدی تھی جب ہماری بیس پچیس ہزار کی کمیٹی نکلی تھی۔ اس وقت بہت سارے لوگ ہونڈا سیونٹی لے رہے تھے مگر میں نے یاماہا کا چناؤ کیا کیونکہ مجھے یہ بہت مضبوط لگتی تھی اور میرے ایک دوست نے مجھے بتایا اور دکھایا کہ گجر برادری کئی من دودھ لاد کے یاماہا ہنڈرڈ پر ہی پورے شہر میں سپلائی کرتی ہے جس سے اس کے انجن، شاکس اور فریم کی مضبوطی کا پتا چلتا ہے۔
یہ ہمارے گھر کی پہلی سواری تھی کیونکہ والد اس وقت فوت ہو گئے تھے جب میں صرف ساڑھے تین برس کا تھا، وہ ہوتے تو ان کے پاس گاڑی ہوتی، بہرحال، اسی یاماہا ہنڈرڈ پر میں نے یونیورسٹی جانا شروع کیا۔ اس دوران یوں ہوا کہ یہ موٹرسائیکل میرے گھر سے چوری ہوگئی۔ یہ میرے لیے بہت بڑا نقصان تھا کہ میں ایک مرتبہ پھر ویگنوں اور بسوں پر سفر کرنے پر مجبور ہوگیا تھا مگر کہتے ہیں کہ حق حلال کی کمائی کبھی ڈوبتی نہیں۔ موٹرسائیکل گیارہ ماہ کے بعد دوبارہ مل گئی اور وہ بھی پہلے سے بہتر حالت میں۔
معاملہ یوں ہوا کہ اس زمانے میں ناکے بہت لگتے تھے لہٰذا میں نے اس کی رجسٹریشن بک اس کے ٹاپے، میں ہی رکھی ہوتی تھی۔ جس نے چوری کی اس نے اسی کی بنیاد پر فیصل آباد لے جا کے فروخت کر دی جسے سی آئی اے کے اینٹی کار لفٹنگ سٹاف نے کچھ لوگوں کو گرفتار کرنے کے بعد برآمد کر لیا۔ مجھے تھانہ وحدت کالونی والوں نے فون کرکے بتایا کہ سی آئی اے نے ایف آئی آر منگوائی ہے لگتا ہے کہ موٹرسائیکل برآمد ہوگئی ہے، چُونا منڈی جا کے پتا کر لو۔ جب پتا کیا تو اللہ بھلا کرے متعلقہ اہلکار نے مجھے ایک پرچی دی کہ یہ ریل گاڑی پر بک کرائی گئی ہے، جا کے اس کا کرایہ دو اور گھر لے جائو، سپردداری بعد میں ہو جائے گی۔
میں نے کہا یہ میرا پہلا رومانس تھا تو اس میں کچھ غلط نہیں۔ میں اسے بہت دھو دھا کے صاف ستھری رکھتا تھا۔ اس کے رِموں پر لال ٹیپ بھی لگا رکھی تھی۔ یہی وہ موٹرسائیکل تھی جس پر میں نے پڑھائی کے بعد کم و بیش دس برس تک لاہور کی سڑکوں پر صبح سے لے کر رات گئے تک رپورٹنگ بھی کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مجھے جو پہلی نوکری ملی وہ روزنامہ خبریں کے صبح کے اخبار میرا پاکستان، کی تھی جس میں میرا کام رات دو بجے کے بعد ہسپتالوں کے شعبہ حادثات کے چکر لگانا اور وہاں نئے آنے والے مریضوں کی خبریں جمع کرکے صبح سویرے پنج محل روڈ پر دفتر پہنچ جانا تھا۔ جب میں نے ڈیوٹی شروع کی تو یہ دسمبر، جنوری کے دن تھے اور آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان اوقات میں کتنی سردی ہوتی ہوگی۔
بہرحال یہ سلسلہ ایک ڈیڑھ ماہ ہی چلا اس کے بعد کارکردگی کی بنیاد پر مجھ سمیت کچھ دوسرے رپورٹرز کو روزنامہ خبریں کی رپورٹنگ میں ٹرانسفر کر دیا گیا اور یوں اس پروفیشن کا آغاز ہوگیا۔ ویسے آج میں سوچتا ہوں کہ میں نے یاماہا ہنڈرڈ لے کر غلطی کی تھی، مجھے سی ڈی سیونٹی یا ون ٹو فائیو ہی لینا چاہیے تھا کیونکہ ایک تو یاماہا کی ایوریج اچھی نہیں تھی، دعویٰ چالیس کلومیٹر فی لیٹر کا تھا مگر کرتی بیس پچیس کلومیٹر کے لگ بھگ ہی تھی دوسرے اس کا انجن ٹو سٹروک تھا جس میں پٹرول کے ساتھ موبل آئل بھی پڑتا تھا۔
میں احتیاطاً اس کی ٹینکی میں بھی موبل آئل ڈلوا لیتا تھا تاکہ انجن رواں رہے اور موٹرسائیکل اچھا دھواں دے۔ اس وقت کسی سیانے نے کہا تھا کہ اگر یاماہا دھواں نہ دے تو مالک کا دھواں نکلوا دیتی ہے یعنی اس کے رنگ پسٹن ڈلوانا پڑ جاتے ہیں مگر اس کا نقصان یہ ہوتا تھا کہ اس کے پلگ میں کچرا بہت آتا تھا۔ مجھے اپنا یونیورسٹی کا ایک دوست یاد ہے جس کے پاس پرانی سی سی ڈی سیونٹی تھی جس کا میں نے ایک روز یونیورسٹی لائبریری میں مذاق اڑایا تو اس کی دوست نے، جو بعد میں بھابھی بن گئیں، نے مجھے طعنہ دیا کہ تمہارے پاس کون سی اچھی موٹرسائیکل ہے، ہر دوسرے روز سڑک کنارے مکینک بن کے بیٹھے ہوتے ہو۔ ان کی یہ بات میرے دل میں تیر کی طرح لگی۔
بات شروع کی تھی کہ یاماہا نے پاکستان میں اپنا پلانٹ بند کر دیا ہے اور اس پر بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ حکومتی پالیسیوں کی ناکامی ہے مگر چونکہ میں یاماہا کو یاماہا سے اسی طرح بہتر جانتا ہوں جس طرح عمران خان مغرب کو انگریزوں سے بہتر جانتا تھا تو کہنا ہے کہ اس پلانٹ نے بند ہو ہی جانا تھا۔ اس برینڈ کی سب سے مقبول موٹرسائیکل ہاما ہنڈرڈ ہی تھی مگر جب پرویز مشرف دور میں ٹوسٹروک گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ پر پابندی لگی تو یاماہا نے اس کی اسمبلنگ بند کر دی۔ میں کوئی پندرہ برس سے زائد پرانی بات کر رہا ہوں۔ اس وقت اسے وائے بی ہنڈرڈ کا نام دیا گیا تھا۔
یاماہا نے اپنی توجہ ون ٹو فائیو موٹر سائیکلوں پر مرکوز کر لی جس میں ان کا وائے بی تو نہیں مگر وائے بی آر ماڈل نوجوانوں میں کافی مقبول رہا کہ اس کی لُک زیادہ سپورٹس موٹرسائیکل کی تھی مگر ہوا یوں کہ یا ماہا ون ٹو فائیو کے مختلف ماڈلز کی قیمت سوا چار لاکھ سے پانچ لاکھ تک پہنچ گئی جبکہ ہونڈا ون ٹو فائیو جس کی آواز بہت ساروں کو مسحور کرتی تھی اس کے ماڈلز اڑھائی لاکھ سے تین لاکھ کے درمیان مقابلے میں موجود رہے۔ اسی دوران روڈ پرنس سمیت دیگر نے بھی چائنیز موٹرسائیکلیں متعارف کرا دیں جو سیونٹی سی سی میں بہت سستی اور ون ٹوفائیو میں یاماہا اور ہنڈا سے کم قیمت تھیں۔
اس دوران کرونا آیا اور لوگوں کی قوت خرید بہت ہی کم ہوگئی اور دوسری طرف مارکیٹ پر چائنیز موٹرسائیکلوں نے قبضہ کر لیا تو یاماہا کی سیل بہت ہی نیچے آ گئی۔ یہ ان کی ناکامی تھی کہ وہ پاکستان میں نئے ماڈل متعارف نہیں کرا سکے جیسے آر ایکس ہنڈرڈ بھی انڈیا میں تو ملتی ہے مگر پاکستان میں نہیں۔ یوں بھی اب ٹرینڈ پٹرول فری الیکٹرک بائیکس کا آ رہا ہے۔
یہاں مزید دو نکات اہم ہیں، پہلا یہ کہ کراچی میں بھی یاماہا کا مینوفیکچرنگ نہیں بلکہ اسمبلنگ پلانٹ تھا یعنی انجن سمیت تمام اہم پرزے جاپان سے آتے تھے اور یہاں جوڑ دیتے تھے لہٰذا اس سے سرمایہ کاری یا صنعتکاری کو بڑا نقصان نہیں پہنچا اور اس حوالے سے تو بالکل نہیں پہنچا کہ جب یایاہا کی بندش کی خبر آ رہی تھی تو اسی دوران رواں مالی سال کے پہلے دو مہینوں میں دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کے بارے اعداد و شمار پاما، نے دئیے کہ گذشتہ برس کے مقابلے میں بیالیس فیصد زیادہ فروخت ہوئی ہیں یعنی موٹرسائیکلوں کی فروخت تو بڑھ رہی ہے مگر اس میں گجروں کی پسندیدہ موٹرسائیکل یاماہا نہیں ہے۔