مولانا فضل الرحمان کائیاں سیاستدان ہیں مگر کچھ عرصے سے وہ غصے میں ہیں۔ اسلام میں غصہ اسی لئے حرام کہا گیا ہے کہ اس میں انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ وہ غلط فیصلے کر جاتا ہے جس کی قیمت اسے عملی زندگی میں ادا کرنی پڑتی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی طرف سے پنجاب کے امام مساجد کو پچیس ہزار روپے مہینہ اعزازیہ دینے کا اعلان کیا تو مولانا نے اس کی پروا کئے بغیر کہ ان کی مخاطب ان کے لئے بیٹی کی طرح محترم ایک خاتون ہیں، ان کو ہمیشہ بہت عزت دینے والے نواز شریف کی بیٹی اور شہباز شریف کی بھتیجی ہیں، کہا، وہ اس وظیفے کو ان کے منہ پر مارتے ہیں۔
مولانا کو حق حاصل ہے کہ وہ حکومت کی جس پالیسی سے چاہیں اختلاف کریں مگر انہیں یہ حق بہرحال حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی عمر، مقام اور شخصیت کے منافی ایسے الفاظ کا استعمال کریں جو ان کے نئے سیاسی حلیفوں کا خاصہ سمجھے جاتے ہیں۔ میں اختلاف کا قائل ہوں مگر اختلاف ایسا ہونا چاہیے کہ آپ دوبارہ ملنے کے قابل ہوں۔ وہ اقتدار کی کئی بہاریں دیکھ چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ اقتدار کا کھیل سی سا، جیسا ہے۔
بہرحال مولانا نے یہ بیان دے کر کئی طرح سے گھاٹے کا سودا کیا۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ پنجاب میں سواد اعظم بریلوی مکتبہ فکر کی بھاری اکثریت ہے اور مولانا کی جہاں پنجاب میں پولیٹیکل فالوونگ ایک فیصد کے لگ بھگ ہے وہاں دیوبندی امام مساجد کی تعداد بھی بہت بڑی نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ امام مساجد خود ا س وقت رابطے کر رہے ہیں کہ یہ وظیفہ کب اور کیسے ملے گا۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر ایک ضابطہ اخلاق زیر گردش ہے جس کی دوشقوں پر اعتراض کیا جا رہا ہے اگرچہ میری نظر میں وہ بھی قابل اعتراض نہیں کہ اگر آپ پر مسجد میں سیاسی جماعتوں، شخصیات اور ریاستی اداروں پر تنقید پر پابندی لگائی جاتی ہے تو یہ عین منطقی بھی ہے اور وقت کی ضرورت بھی، کہ بھلا کوئی جمعہ پڑھاتے ہوئے نواز شریف، عمران خان، آصف زرداری یا خود مولانا فضل الرحمان پر تنقید کیوں کرے۔ مساجد سب کی ہوتی ہیں اور ان موضوعات کے لئے سیاسی جلسے موجود ہیں۔
دوسرے کس امام مسجد کو اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ حکومت او ر انتظامیہ کے احکامات ماننے سے انکار کرے، ہاں، ایک بات ضرور ہے کہ اس شے کو تحریری ضابطے میں لانا کوئی ضروری نہیں، یہ انڈرسٹینڈنگ ہے جسے بغیر تحریر کے بھی واضح کیا جا سکتا ہے۔ میں کہہ رہا تھا کہ امام مساجد خود اس وقت رابطے کر رہے ہیں کہ یہ وظیفہ کب اور کیسے ملے گا کیونکہ اس وقت بھی گلی محلے کے بہت سارے امام حضرات کی تنخواہیں دس سے پندرہ ہزار کے درمیان ہیں اور وہ اس وجہ سے ٹکے ہوئے ہیں کہ انہیں رہائش اور بجلی وغیرہ بھی مل رہی ہے اور ان کے پاس کوئی دوسری مہارت بھی نہیں ہے کہ اس سے کما سکیں۔ یقینی طور پر یہ پچیس ہزار روپے ان کے راشن، بزرگوں کی ادویات اور بچوں کی تعلیم سمیت کئی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وظیفے پر تنقید کرنے والے مولانا فضل الرحمان کے علاوہ مفتی تقی عثمانی ہیں جن کی کروڑوں کی گاڑیوں میں آمدورفت سوشل میڈیا کی رونق بنی رہتی ہے۔ یہ دونوں دیوبندی ہیں اور یہ لات بریلوی مولوی کی تنخواہ پر ما ر رہے ہیں ورنہ ان دونوں صاحبان کو خیبرپختونخوا میں پانچ برس سے ملنے والے ان دس ہزار روپوں پر اعتراض نہیں ہوا جو سولہ ہزار سے زائد امام مساجد کو دیا جا رہا ہے۔ جہاں تک پیسے سے ضمیر خریدنے کی بات ہے تو خود مولانا فضل الرحمان رکن قومی اسمبلی رہے، قائد حزب اختلاف رہے، کشمیر کمیٹی کے چئیرمین رہے اور موخرالذکر دونوں عہدے وفاقی وزیر کی مراعات والے تھے۔ ان کے بھائی اور بیٹے وفاقی وزیر رہے۔ ان کے داماد مئیر پشاور رہے اور ان میں سے ایک وزارت تو بہت زیادہ مال والی تھی۔
مجھے کہنے میں عار نہیں کہ اگر مولانا فضل الرحمان، ان کے بھائیوں، بیٹے اور داماد نے اب تک مجموعی طور پر کروڑوں روپوں کی تنخواہوںا ور مراعات کے باوجود ضمیر نہیں بیچا تو ایک بیچارہ مولوی پچیس ہزا ر روپے ماہانہ پربھی نہیں بیچے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ مسجد ریاست (حکومت یا انتظامیہ) کے کنٹرول میں کیوں ہو تو سوال ہے کہ پھر کس کے کنٹرول میں ہو۔ کیا پاکستان میں کوئی الگ اسلام اترا ہے جو سعودی عرب سے ایران، ترکی سے ملائشیا، یو اے ای سے افریقی ممالک کے اسلام سے مختلف ہے جس میں مسجد ریاست کے کنٹرول میں نہیں ہوسکتی، فتنہ الخوارج، فتنہ الہندوستان جیسے گروہوں کی موجودگی میں یہ تصور قابل پذیرائی نہیں۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں اور کئی برس پہلے جامعہ نعیمیہ میں ایک لیکچر کے دوران کہا تھا کہ دین کی خدمت کرنے والوں کا روزگار اس سے الگ ہونا چاہیے جیسے مشہور قول ہے کہ اگر دینی لوگوں کے پاس کمانے کے لئے کوئی دوسرا ہنر نہیں ہوگا تو وہ دین بیچیں گے۔ میری خواہش ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز امام مساجد کو کاروبار کرنے کے لئے بلاسود آسان قرض کی سکیم کا اعلان کریں جس سے وہ کوئی دکان وغیرہ کھول سکیں چاہے وہ کریانے یا سبزی ہی کی کیوں نہ ہو۔ نماز کے اوقات میں شٹر گرائیں اور جماعت کروائیں اور جہاں تک ان پچیس ہزار کی بات ہے تو یہ امام مساجد کو گائوں کے چودھری کا کاما بننے اور گلی محلوں میں چندوں سے تنخواہیں جمع کرنے سے بچائیں گے۔
میں تو خواہاں ہوں کہ اسے تین درجوں میں تقسیم کیا جائے جو امام مساجد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ان کا اعزازیہ زیادہ ہو۔ میرا نہیں خیال کہ اس بیان کے بعد مولانا فضل الرحمان کا پاور بینک مضبوط ہوا ہے بلکہ یقین ہے کہ کمزور ہوا ہے۔ میرے تجزیئے کے مطابق ان کے بیانات ان کے غصے کو ظاہر کر رہے ہیں وہی غصہ جو انہیں انتخابات کے بعد آیا تھا اور اب اس وجہ سے عروج پر پہنچ گیا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم ہونے والی ہے لیکن موجودہ اسمبلی میں حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت آچکی ہے جو کہ چھبیسویں ترمیم کے موقعے پر نہیں تھی اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کو آئینی عدالت کی بجائے آئینی بینچ پر آنا پڑا تھا حالانکہ حکومت (اور اسٹیبلشمنٹ) کو یہ شکست دینے میں مولانا کا کوئی فائدہ نہیں تھا اور اب وہ اس کا مزا چکھ رہے ہیں۔
حکومت کے پاس پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت آچکی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ حکومت انہیں آن بورڈ لے گی، ان سے تجاویز مانگی جائیں گی مگر وہ بہرحال حکومت کو اس طرح بلیک میل کر سکیں گے نہ ڈکٹیٹ جو انہوں نے پچھلی آئینی ترمیم میں کیا۔ میرا اندازہ ہے کہ جوں جوں آئینی ترمیم کا معاملہ آگے بڑھے گا توں توں مولانا کا غصہ بھی بڑھے گا۔ یہ عین ممکن ہے کہ وہ اسلام آباد کی طرف چڑھائی کا بھی اعلان کر دیں۔۔ ان کی مرضی، ان کے نصیب!