ہو سکتا ہے آپ مجھ سے اتفاق نہ کریں مگر معاشی کامیابیوں اور عوامی ریلیف میں اصل تعلق پرسیپشن، کا ہے۔ میں آپ کو2016ءکے پاکستان سے پہلے عراق، لیبیا لے جانا چاہتا ہوں جہاں غریبوں کو معمر قذافی کے دور میں بہت ساری سہولیات حاصل تھیں حتیٰ کہ بہت ساری ضروریات زندگی مفت مگر وہاں ایک تاثر بنا کے حکومت مخالف مہم شروع کی گئی اور جب وہاں انقلاب، آیا تو لوگ کھانے اور کپڑے تک کے محتاج ہوگئے اور یہی کھیل آج سے دس برس پہلے پاکستان میں کھیلا گیا جب پرویز مشرف اور آصف زرداری کے دور میں بے لگام ہوجانے والے دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ کے عفریتوں پر قابو پایا گیا۔
جب ڈالر کو نتھ ڈالی گئی اور پٹرول کی قیمت کو قابو کیا گیا توا س وقت بھی پاکستان کے خلاف وہی سازش ہوئی اور اس سازش میں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ پوری طرح شامل تھی۔ عمران خان کی بدترین گورننس کے ساتھ کورونا نے بھی معاشی تباہی میں اپنا کردار ادا کیا اور پاکستان دیوالیہ ہونے کے کنارے تک پہنچ گیا۔ مجھے یہ نتیجہ دینے میں عار نہیں کہ اگر پاکستان کو عمران خان سے نہ بچایا جاتا تو کچھ بھی نہ بچتا۔
ہمارے سامنے اس وقت شاندار معاشی اعداد وشمار موجود ہیں۔ ہم اقتصادی ہی نہیں خارجہ محاذ پر بھی بے مثال کامیابیاں حاصل کرتے جا رہے ہیں مگر سوال ہو رہاہے کہ ان سے غریب کو کیا مل رہا ہے۔ جب ہم شہروں کے گرد بڑھتی ہوئی جدید آبادیاں، سڑکوں پر دوڑتی نئی نئی کاریں دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ امیر، امیر ترین ہو رہا ہے اور غریب، غریب ترین۔ شائد یہ بات اتنی درست نہیں ہے کیونکہ اکانومی کا ہمیشہ ٹریکل ڈاؤن امپیکٹ، ہوتا ہے۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک سیٹھ کا کاروبار نہ چل رہا ہو تو وہ اپنے ملازمین کی تنخواہیں بھی کم کرے گا، ان کی چھانٹی بھی کرے گا اور مزید ملازمتیں بھی نہیں دے گا لیکن اگر اس کا کام اور کاروبار بڑھ رہا ہوں تو تینوں کام اس کے برعکس ہوں گے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اگر ہمارے کھاتے پیتے لوگوں کے پاس پیسے ہوں گے تو وہ ایم ایم عالم روڈ کے ان ریسٹورنٹس میں فرینڈز اینڈ فیملی کے ساتھ جا کے لنچ اور ڈنر کریں گے جن کا پرہیڈ ہی پانچ، پانچ اور سات، سات ہزار روپوں تک پہنچا ہوا ہے۔
یقینی طور پر یہ عیاشی بیس، تیس یا پچاس ہزار روپے ماہانہ کمانے والا نہیں کرسکتا مگر انہی ریسٹورنٹس میں بیس، تیس اور پچاس ہزار کمانے والے ہزاروں ایسے ہوں گے جن کے روزگار انہی امیر لوگوں کے کھانوں کے ساتھ جڑے ہوں گے، ان میں کچھ وہاں ویٹر ہوں گے اور کچھ کک، کچھ صفائی کے ذمے دار ہوں گے اور کچھ سامان کی سپلائی کے۔ یہ امیر وہاں آنے بند ہوجائیں گے تو شائد وہ امیر تو بھوکے نہ مریں مگر ان غریبوں کے گھروں میں بھوک ضرور بھنگڑے ڈال سکتی ہے۔ ہمارے بہت سارے دوست کہتے ہیں کہ یہ ٹریکل ڈاؤن امپیکٹ والی تھیوری ناکام ہوچکی مگر میں ان سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ میں ایسے اداروں میں رہ چکا اور اب بھی ہوں جن میں کاروباری فائدے نے لوگوں کے روزگار بچائے ہیں۔ میں آپ سے کتابی نہیں عملی بات کر رہا ہوں۔
یہ بے ایمانی ہوگی اگر میں یہ کہوں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے جیسے بجلی کی قیمتیں۔ میں پٹرول کی حد تک حکومت کو مارجن دیتا ہوں کہ ہم اس وقت پاکستانی روپوں (یا ڈالر ریٹ میں) موازنہ کرتے ہوئے اپنے ہمسایہ ملک سے کہیں سستا پٹرول دے رہے ہیں لیکن وہ ہمارے عوام کے لئے اس لئے مہنگا پڑ جاتا ہے کہ ان کی فی کس آمدن کم ہے یعنی ان کی جیب میں کم پیسے ہیں جس کی وجہ سے ان کے لئے سستی چیز بھی مہنگی ہے۔
پٹرول کے نرخوں کے بڑھنے پر شور شرابے میں اصل کردار سیاسی پروپیگنڈہ کرنے والوں کا ہے ورنہ اگر دو، چار یا پانچ روپے لیٹر قیمت بڑھ جائے تو یہ اضافہ ایک، دو فیصد ہی بنتا ہے اور ہم نے دیکھا ہے کہ پٹرول کی قیمت تین سو پینتیس روپوں تک جا کے واپس اڑھائی سو سے بھی نیچے آئی ہے۔ ابھی پچھلے دنوں جب پٹرول پانچ روپے بتیس پیسے بڑھا تو بہت شور مچا، گالیاں دی گئیں اوراس میں مسلم لیگ نون کے حامیوں کو بھی ذہنی طور پر ورغلا لیا گیا لیکن جب پندرہ دن بعد ساڑھے سات روپے کم ہوا تو کسی نے سراہا نہیں، اپنی دی ہوئی گالیوں پر شرمندگی اورمعذرت کا اظہار نہیں کیا کیونکہ انہوں نے حکومت کی مخالفت کے لئے مزید جواز گھڑ لئے۔ یہاں اصل مسئلہ قیمت نہیں تھی بلکہ بدنیتی پر مشتمل ایجنڈا تھا، کچھ مقاصد تھے جو حاصل کئے گئے۔
اس وقت اصل اور بڑا مسئلہ بجلی کے نرخوں کا ہے۔ جن کے پاس اپنے گھر ہیں یا جن کے پاس کچھ لاکھ اضافی موجود ہیں وہ تیزی کے ساتھ سولر پر شفٹ ہو رہے ہیں اور یوں پاکستان، دنیا بھر میں سولرائزیشن کی طرف جاتا ہوا سب سے تیز رفتار ملک بن رہا ہے مگر جن کے گھر اپنے نہیں یا جن کے پاس سولر پر لگانے کے لئے سرمایہ نہیں وہ شدید مشکلات کا شکار ہیں۔
دیانتداری یہی ہے کہ اگر میں پٹرول کے نرخوں میں ہمسایہ ملک سے موازنہ کر رہا ہوں تو بجلی کے نرخوں میں بھی کروں۔ وہاں کئی ریاستوں میں بجلی کے تین سو یونٹس تک مفت ہیں اور اس کے وعدے ہمارے ہاں بھی کئے گئے تھے مگر ہمارے ہاں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کی کوششوں میں بہت ساری گرہیں ایسی لگیں جو ہم نے ہاتھ سے لگائیں اور اب دانتوں سے کھولنا پڑ رہی ہیں۔
بجلی کے نرخ کم کرنے میں بجلی چوری بھی بڑی رکاوٹ ہے جس پر ہم قابو پانے میں مسلسل ناکام ہورہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف بھی۔ گرمیوں کے مئی سے اگست تک چار مہینوں میں بجلی کے بل سارا بجٹ آپ سیٹ کر دیتے ہیں، لوگوں کو یہ بل ادا کرنے کے لئے قرض تک لینا پڑتے ہیں۔ جب یہ بل آتا ہے تو بہت سارے لوگوں کو معاشی ترقی اوراقتصادی کامیابیوں کے دعوے جھوٹے لگنے لگتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ساہنوں کیہ؟
میں نے بہت پہلے کہا تھا کہ ہماری تنخواہ یا آمدن جتنی بھی ہوجائے ہمیں لگتا ہے کہ یہ 33 فیصد کم ہے، اس میں ایک تہائی اضافہ ہوجائے تو ہم اپنے بہت سارے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ میں ہمیشہ سے مشورہ دیتا آیا ہوں کہ ہمارے مسائل حل کرنے میں حکومتوں کا کردار بہت کم ہے اور ہمارا اپنا بہت زیادہ۔
حکومت کی طرف سے کوئی بھی رعایت عوام کو امیر نہیں بنا سکتی مگر وہ خود اس وقت امیر ہوسکتے جب وہ اپنی آمدن کو بڑھائیں چاہے وہ نوکری کی تبدیلی کی صورت ہو، ایک وقت میں دو کام کرنے یا کسی کاروبار کو شروع کرنے کی صورت۔ اگر آپ اپنی نسلوں کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں زمانے کی ضرورت کے مطابق اچھی تعلیم دے دیں، انہیں سکلز سکھا دیں۔ سہولت، آسانی اور تبدیلی کا یہی راستہ ہے، د وسروں کو گالیاں دینا نہیں۔