ویسے اگلے تین لمحموں کا بھی اللہ رب العزت کی ذات کو ہی علم ہے اور میں اگلے تین برس کی بات کرنے جا رہا ہوں مگر سیاسی تجزیوں اور پیشین گوئیوں کی بنیاد موجود حالات اور اقدامات ہی ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سیاسی اور سماجی ہی نہیں بلکہ بہت سارے سائنسی فارمولوں کو بناتے ہوئے بھی ساتھ لکھ دیا جاتا ہے بشرطیکہ حالات جوں کے توں رہیں۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ مجھے اگلے تین برس میں حالات میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آ رہی جس تبدیلی کا سب سے بڑا واویلا پی ٹی آئی کے دوست مچاتے ہیں۔
گرفتار ہونے پر بچوں کی طرح رو نے والا ایک تجزیہ کار ایک طویل عرصے تک عمران خان کے بارے لکھتا رہا وہ آ رہا ہے اور خم ٹھونک کے آ رہا ہے، اب اس نے بھی یہ لکھنا چھوڑ دیا ہے۔ کئی ایسے ہیں جو ہمیں بتاتے رہے کہ جیلوں کے دروازے کھولے اور عمران خان کے پاؤں پکڑ کر درخواستیں کی جاتی ہیں کہ باہر نکل آو، دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان تو باہر نہیں نکلا بلکہ باہر والوں سے اس کی ملاقاتیں بھی وہ نہیں رہیں جو کبھی گڈ ٹو سی یو، والی عدلیہ کی موجودگی میں ہوا کرتی تھیں، ہوا یوں کہ عمران کو روز باہر نکالنے والے سب کے سب خود باہر نکل گئے، کوئی دوبئی، کوئی برطانیہ اور کوئی امریکا۔
اس چودہ اگست نے مجھے اس کالم کے لکھنے کی تحریک دی۔ یہ چھبیس نومبر والی فائنل کال کے بعد عمران خان کی احتجاج کی دوسری یا تیسری بڑی کال تھی۔ ایک ابھی پانچ اگست کو گزری جب بانی پی ٹی آئی کے جیل میں دو سال مکمل ہوئے اور انہوں نے اپنے پارٹی اور کارکنوں کو احتجاج کرنے کی کال دی۔ پانچ اگست کو یوں ہوا کہ پی ٹی آئی کی وہ تنظیم جو ملک بھر میں سب سے زیادہ مقبول قرار دی جاتی ہے کسی ایک بھی احتجاج کی جگہ اور طریقہ فائنل نہ کر سکی سوائے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی ایک سرکاری ریلی کے جس میں خود وزیراعلیٰ کی سنجیدگی کا یہ عالم تھا کہ وہ بغیر خطاب کیے ہی گھر واپس چلے گئے۔
بہرحال وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا جس طرح عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کے اعتماد پر پورا اتر رہے ہیں اس سے میں ان کی صلاحیتوں کا قائل ہوگیا ہوں، یہ کسی عام انسان یا سیاستدان کے بس کی بات نہیں ہے۔ چودہ اگست کو احتجاج کے نام پر چڑیا تک نے پر نہیں مارا۔ اس سے گیارہ برس پہلے بھی پی ٹی آئی نے چودہ اگست کو ہی اپنے دھرنوں کا آغاز کیا تھا اور لاہور کے مال روڈ پر جشن آزادی مناتے ہوئے لاہوریوں کے درمیان گھس کے اپنی مقبولیت ثابت کی تھی، عمران خان نے پرانا فارمولہ اس بار بھی لگانے کی ہدایت کی مگر بہت سارے خفیہ ہاتھ اب اس کے سہولت کار نہیں ہیں سو یوم آزادی پر احتجاج کے نام پر کوئی اچھا فوٹوشوٹ تک نہیں ہو سکا۔
چند جگہوں پر چند لونڈوں لپاڑوں نے پی ٹی آئی کے جھنڈے اٹھا کے ویڈیوز ضرور بنوائیں مگر بڑی ناکامی یہ ہوئی کہ پی ٹی آئی اس مرتبہ ایکس یعنی ٹوئٹر پر بھی احتجاج نہ کر سکی حالانکہ اب بھی اپنے فیک اور بے نامی اکاونٹس کے ذریعے وہ اس سوشل میڈیا ایپ کی حکمران سمجھی جاتی ہے۔ میں اس سے پہلے متعدد بار کہہ چکا کہ چھبیس نومبر کی فائنل کال سے علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کے فرار نے ان کے احتجاج والا ڈنک ہمیشہ کے لیے نکال دیا ہے۔ عمران خان کے پاس واحد امید ڈونلڈٹرمپ کے صدر بننے کے بعد ان کی طرف سے رہائی کے لیے دباو تھا مگر ہوا یوں کہ گولڈ سمتھ فیملی کے پاس موجود (یا یرغمال) اس کے بچے بھی اس کے لیے کچھ نہیں کر سکے۔ پی ٹی آئی والے عمران خان کو امت مسلمہ کا لیڈر کہتے ہیں مگر کسی ایک مسلم ملک کے کسی ایک رہنما کی طرف سے عمران خان کو یاد نہیں کیا گیا۔
سچی بات ہے کہ عمران خان کی حکومت ختم ہونے سے اب تک، سوا بارہ سو دنوں میں، پی ٹی آئی کمزور اور حکومت مضبوط ہوئی ہے۔ اب یہ دعوے سوشل میڈیا کی کچھ پوسٹس میں رہ گئے ہیں کہ موجودہ حکومت فارم سینتالیس کی پیداوار ہے اور زمینی حقیقت یہ ہے کہ حکومت اپنی سیاسی و انتظامی گرفت مضبوط کرتی جا رہی ہے۔
ہمارے ملک میں حکومتوں کے گرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ مقتدر حلقوں کی ناراضی ہے مگر تادم تحریر ہمیں یہ یک جان دو قالب سے بڑھ کے اب یک جان یک قالب نظر آ رہے ہیں یعنی یہ فرق ختم ہوتا جا رہا ہے کہ کہاں مقتدر حلقے ختم ہو رہے ہیں اور کہاں سیاسی حکومت شروع ہو رہی ہے۔ آپ اسے ہائبرڈ پلس نظام بھی کہہ سکتے ہیں اوراس پر تنقید بھی کر سکتے ہیں مگر میرے خیال میں یہ اس سے کہیں بہتر ہے جس میں وزیراعظم، آرمی چیف پر تسلط حاصل کرنا چاہتا ہو اور آرمی چیف اپنی ڈکٹیشن پر عمل نہ ہونے پر نالاں ہو اور اس میں چیف جسٹس بھی اپنا حصہ ڈال رہا ہو یعنی سب آپس میں دست و گریباں۔
شِیر و شکر ہو جانے والی ایسی ایک صورتحال عمران خان کو بھی بطور وزیراعظم ملی تھی مگر یہاں ایک اضافی شرط بھی ہے کہ آپ میں اہلیت بھی ہونی چاہیے یعنی گفتگو کرنے سے زیادہ کام اور ڈلیور کرنے کی اہلیت۔ میں نے چودہ اگست پر حکومت اور فوج میں کوارڈی نیشن کی ایک انتہا دیکھی ہے جیسے ایوارڈز کی تقسیم۔ بہت سارے کہتے ہیں کہ ہر انتہا کے بعد ایک زوال ہوتا ہے مگر میرا خیال ہے کہ شہباز شریف اپنی پارٹی، اپنے اتحادیوں کے ساتھ فوج اور عدلیہ جیسے اداروں میں توازن رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ یہ فارمولہ مانا اور اپنایا جا چکا ہے کہ کیک کا سائز بڑا ہونے پر ہی سب کا حصہ بڑھے گا۔ عمران خان کے بعد ساڑھے تین برس میں اقتصادی اور سفارتی ایک بڑے زوال کے بعد اب ایک بڑے عروج کا آغاز ہو چکا ہے۔
حکومت کے سامنے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ میکرو لیول پرملنے والی بڑی بڑی کامیابیوں کو مائیکرو لیول پر منتقل کر سکے۔ امیر پہلے سے زیادہ امیر، طاقتور مزید طاقتور ہو رہے ہیں اور اب اسی امارت اور خوشحالی کی شیئرنگ کرنی ہے۔ ڈالر، پٹرول اور بجلی سستے کرنے ہیں اور اس کام کے لیے ان کے پاس تین برس موجود ہیں۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر یہ نظام اسی طرح چلتا رہا تو پاکستان اقتصادی، سماجی اور سیاسی ماڈل میں چین اور ایران کی طرح ہو جائے گا۔ اس کا ایک اپنا نظام ہوگا جو مغربی نظام سے بہت مختلف ہوگا۔ اسے کریڈٹ سمجھیں یا ڈس کریڈٹ، اس نظام کو لانے میں عمران خان کا بہت بڑا کردار ہے جس نے پہلے مقتدر حلقوں کی مدد سے ناجائز اقتدار لیا اور پھر اقتدار سے نکلنے کے بعد تباہ کن نو مئی برپا کیا۔ اس نے پاکستان کے ایران، چین اور افغانستان بننے کی راہ ہموار کر دی۔ پہلے سارے نظام ناکام رہے، اب شائد اسی اتفاق و اتحاد سے ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کا راستہ نکلے، اللہ کرے۔