سیلاب سے آدھا پاکستان ڈوبا ہوا ہے مگر نفرت، تعصب اور جھوٹ کے بیوپاری پارک ویو کے تین سے چار بلاکس کے نان ایشو کو ایشو بنا کے بیچ رہے ہیں۔ ایک خاتون اینکر جن کے ڈاکٹر ہونے پر بھی سوال ہے جھوٹ پر جھوٹ بول رہی ہیں اور میری تشویش جھوٹ بولنے پر نہیں بلکہ جھوٹ کی پذیرائی پر ہے۔ انہیں پوڈ کاسٹس میں بلایا جا رہا ہے حالانکہ وہ اپنی پہلی ویڈیو ریکارڈنگ میں جس گھر کے باہر کھڑی تھیں پانی اس کے گیراج میں بھی نہیں تھا مگر وہ کہہ رہی تھیں کہ ان کے لاکھوں روپے کے کپڑے، الیکٹرانکس کا سامان اور کروڑوں روپے کا گھر تباہ ہوگیا ہے، کیا صاف نظر نہیں آ رہا تھا کہ وہ جھوٹ بو ل رہی ہیں۔ جب سچ سامنے آیا تو کہاوت سچ ثابت ہوگئی کہ جھوٹ دنیا کا چکر لگا کے واپس آ رہا ہوتا ہے سچ اپنے بوٹوں کے تسمے باندھ رہا ہوتا ہے۔ وہ گھر کی مالک بھی نہیں تھیں۔
پارک ویو کے خلاف مقدمہ یہ ہے کہ اسے دریائی زمین پر بنایا گیا ہے لہٰذا جب دریائے راوی میں پانی آیا تو پارک ویو کے سترہ میں سے چار بلاک ڈوب گئے۔ اس بنیاد پر اس کے خلاف سوشل میڈیا کی عدالت سے فیصلہ ہے کہ اس کا این او سی ختم ہونا چاہئے، پارک ویو کو وہاں ہونا ہی نہیں چاہئے، اگر یہ دلیل ہے تو اس پر سوال ہے کہ سیلاب تو سیکڑوں شہروں اور ہزاروں دیہات میں بھی آیا ہے تو کیا ان سب کو بھی ختم کر دینا چاہئے کیونکہ شرط سیلاب کا آنا ہے۔
پارک ویو کے خلاف یہ مقدمہ اس لئے بنایا جا رہا ہے کیونکہ اس کے مالک نے ایک سیاستدان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا یا اس سیاستدان نے پارک ویو کے مالک کا ساتھ چھوڑ دیا تھا حالانکہ اس سے پہلے وہ ان کے فنانسر کے طور پر مشہور تھے اور سابق وزیراعظم، ان کے سیلف میڈ ہونے اور ترقی کرنے کو مثال کے طور پر بیان کیا کرتے تھے مگر معذرت کے ساتھ، میں سابق وزیراعظم کی تعریف یا تنقید کو کوئی پیمانہ نہیں بنا سکتا کہ وہ جس سیاستدان کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا کرتے تھے اسے انہوں نے اپنی پارٹی کا صدر بنا دیا اور جسے کہتے تھے کہ میں چپڑاسی بھی نہ رکھوں، اسے اپنا وزیر طاقتور وزیر بنائے رکھا۔ سچ تو یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی ہمیشہ تاریخ، حب الوطنی اور سچ کی مخالف سمت میں کھڑے ہوتے ہیں کبھی مودی کے ساتھ، کبھی شیخ مجیب کے ساتھ۔ حق آپ کو ادھر ہی ملے گا جدھر وہ نہیں ملیں گے۔
یہ سچ ہے کہ دریائے راوی میں سینتیس برس کے بعد اتنا شدید سیلاب آیا تو کیا آپ کوئی بھی زمین صرف اس لئے بے آباد چھوڑ سکتے ہیں کہ وہاں تیس چالیس برس کے بعد سیلاب آ سکتا ہے یا آپ وہاں پر بند بنائیں گے کیونکہ وہ زمین شہر کے ساتھ ہے، اس کی کمرشل ویلیو ہے۔ پارک ویو کے بننے کے مخالف وہی ہیں جو اس شہر میں موٹرویز اور میٹروز کے مخالف تھے یعنی تعمیر اور ترقی کے مخالف۔ کیا کہا، دریائوں کے ساتھ آبادیاں نہیں بن سکتیں تو اس کے ایک سے زیادہ جواب ہیں، پہلا سوشل میڈیا سے باہر نکل کر حقیقت کی دنیا کا جواب ہے کہ لاہور کا پورا شہر ہی راوی کنارے آباد تھا اور ہے، شاہدرہ اور بادامی باغ تو تاریخی آبادیاں ہیں۔
یہ تو ایوب خان کے دور میں جب دریائوں کا سودا ہوا تو اس میں راوی کا پانی بھارت کو بیچ دیا گیا اور دوسرے آپ تاریخ کا شہری اور سماجی ارتقا ہی دیکھیں، آبادی ہوا ہی وہاں کرتی تھی، شہر بنا ہی وہاں کرتے تھے جہاں پانی ہوا کرتا تھا کیونکہ پانی ہی زندگی ہے۔ ہم نے اس میں صرف یہ کرنا ہے پانی کے بہائو کو کنٹرول کر لیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پارک ویو سمیت بہت ساری سوسائٹیوں کو آباد کرنے والی اتھارٹی ہی روڈا ہے اور اس راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سب سے بڑے وکیل اس گروہ کے سرغنہ خود تھے جب لاہور ہائیکورٹ نے اس کے خلاف فیصلہ دیا تھا تو وہ بطور وزیراعظم لاہور پہنچے تھے، راوی کنارے کھڑے ہو کے اس کے حق میں اپنا ویڈیو بیان جاری کیا تھا اور اب سوال ہے کہ وہ عمران خان سچا تھا یا آج اس کے پیروکار سچے ہیں؟ اس کا فیصلہ وہ خود کرلیں۔
آپ کو ایک دلچسپ رخ دکھائوں، درجنوں بلکہ بیسیوں آبادیوں اور ہاوسنگ سوسائٹیوں میں پانی آیا مگر آپ نے کسی بھی دوسری آبادی کے مالک یا ایڈمنسٹریٹر کا وہ ردعمل دیکھا جو پارک ویو کی ایڈمنسٹریشن کا تھا۔ یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اس کے اوورسیز بلاک کی طرف سے سیلابی پانی سوسائٹی کے اندر داخل ہو سکتا ہے، پارک ویو کی ایڈمنسٹریشن نے راتوں رات وہاں ایک عارضی بند بنا دیا مگر ہوا یوں کہ ساتھ ہی محکمہ جنگلات کی زمین سے پانی اس طرف سے آ گیا جس کی طرف کسی کا دھیان بھی نہیں تھا اور اس طرح اوورسیز بلاک تو بچ گیا مگر دوسرے بلاک ڈوب گئے۔
دوسرے یہ واحد سوسائٹی تھی جس نے مکینوں کو سیلاب آنے پر سامان شفٹ کرنے کے لئے سٹاف دیا۔ ان کے لئے ہیلپ کاؤنٹر بنائے۔ ان کے کروڑوں روپوں کے بجلی کے بل اور دیگر واجبات معاف کئے۔ گھروں کی صفائی تک کرائی اور اب اس کی طرف سے اعلان کیا جا رہا ہے کہ ایک طرف گھروں کے نقصانات کا ازالہ ہوگا بلکہ سوسائٹی اپنا بند بھی خود ہی تعمیر کرے گی مگر دوسری طرف روڈا کو بھی ہوش آگیا ہے۔ روڈا اس سے پہلے راوی کے ایک حصے میں بند بنا چکی ہے اور رپورٹس ہیں کہ اس کی وجہ سے اس علاقے کے تمام دیہات سیلاب سے بچ گئے۔ اب دو کھرب چودہ ارب روپے سے راوی کے دونوں اطراف ایک بند بنے گا جس کے بعد لاہور سائفر سے موہلنوال تک مستقبل کے کسی بھی ممکنہ سیلاب سے بچ جائے گا۔ پارک ویو کی ایڈمنسٹریشن کہہ رہی ہے کہ یہ پارک ویو کی تاریخ کا پہلا اور آخری سیلاب تھا۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے ہر معاملے کو سیاسی تعصب کی عینک سے دیکھنا ہے اور سب سے بڑا مسئلہ پارک ویو کے چند بلاکس میں سیلابی پانی کا آنا نہیں ہے بلکہ آدھے پاکستان کا ڈوبنا ہے۔ ہمارے کسانوں کی فصلوں کا تباہ ہونا، ڈھور ڈنگر کا مرنا اور کھاتے پیتے لوگوں کا کیمپوں میں پہنچ کے مشکل اور تکلیف کی زندگی گزارنا ہے۔ خریف کی فصلیں تباہ ہو چکیں، گوشت اور دودھ کی سپلائی لائن بھی ٹوٹ چکی، اب مہنگائی کا ایک نیا طوفان آنے والا ہے مگر ایک طبقہ پارک ویو کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ جو لاہور کی تعمیر و ترقی کے خلاف ہے اسے بتانا ہے کہ تعمیر و ترقی تو ہوگی اور پورے پنجاب کی ہوگی۔ میری پیشین گوئی ہے کہ ایک طبقے کی مخالفت کے بعد بہت کامیاب ہوگی کیونکہ اس طبقے پر خدا کی مار ہے، وہ نحوست کا شکار ہے، وہ جس کی مخالفت کرتا ہے اسے چار چاند لگ جاتے ہیں جیسے قاضی فائز عیسیٰ، عاصم منیر، شہباز شریف اور بہت سارے دوسرے۔