پنجاب کے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے، جو کہ گاڑیوں کی رجسٹریشن، ان کی ٹیکس کلیکشن اور نمبر پلیٹیں لگانے کے فرائض ادا کرتا ہے، وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کو ایک تجویز بھیجی ہے جس میں گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی نمبر پلیٹوں کا موجودہ طریقہ کاربدلتے ہوئے اسے گاڑی کی بجائے شہری کے ساتھ رجسٹرڈ کرنے کی تجویز دی گئی ہے یعنی گاڑی کا مالک بدلے گا تواس کا نمبربھی بدل جائے گا۔
دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ اس سے جرائم میں کمی، گاڑیوں کی ملکیت واضح اور اوپن لیٹر پر گاڑی چلانے کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ گاڑیاں اس وقت بھی شناختی کارڈ پر ہی رجسٹرڈ ہوتی ہیں اور میں نہیں جانتا کہ گاڑی کا مالک بدلنے سے نمبر بھی بدل جائے تو اس سے یہ تینوں مقاصد کیسے حاصل ہوں گے بلکہ اس کے بعد جرائم بڑھ جائیں گے اور اوپن لیٹر گاڑیوں کے ساتھ ساتھ جعلی یا پرانے نمبر کے ساتھ گاڑیاں بھی۔
ہم نے پچھلے کچھ عشروں میں گاڑیوں کی نمبر پلیٹوں کے ساتھ بہت سارے تجربات کئے ہیں جیسے گاڑی کی رجسٹریشن اس کے مینوفیکچرنگ کے سال کے ساتھ۔ اس وقت کی ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی بیوروکریسی نے وزیراعلیٰ کے سامنے اس کے بہت سارے فائدے بیان کئے تھے مگر نتیجہ یہ نکلا کہ سال کے عدد کے فرق سے ایک ایک نمبر کے ساتھ کئی کئی گاڑیاں ہوگئیں بلکہ یہ بھی ہوا کہ سیریز محدود رکھی گئی تھی تو ایک ہی برس میں اسی نمبر کو دوبارہ ساتھ اے لکھ کے بھی جاری کرنا پڑا۔
رجسٹریشن نمبر کے اس طریقے کی سب سے بری بات یہ تھی کہ اس میں گاڑی کا ماڈل فوراََ پتا چل جاتا تھا یعنی اگر کسی نے اپنی گاڑی بہت سنبھال کے بھی رکھی ہوئی ہے تو نمبر پلیٹ سے پتا چل جاتا تھا اور پتاچل جاتا ہے کہ یہ کتنے سال پرانی ہے۔ مجھ سمیت بہت سارے لوگوں کو یہ بات اچھی نہیں لگی اور خدا کا شکر ہے اس بے وقوفانہ طریقے کو بدل لیا گیا اور اب پنجاب بھر میں ایک ہی نمبر الاٹ کیا جا رہا ہے۔
یہ درست ہے کہ کئی جدید ریاستوں میں گاڑی کا نمبر مالک کے ساتھ ہی ہوتا ہے اور جب نیا مالک آتا ہے تواس گاڑی کو نیا نمبر بھی لگ جاتا ہے مگر میں نے کہا کہ یہ کام جدید ریاستوں میں ہوتا ہے اور ہمارے مسائل یہ ہیں کہ ہم گاڑی خریدنے کے بعد دنوں او ر ہفتوں نہیں مہینوں اور سالوں تک نمبر پلیٹ کا انتظار اور اس دوران اوریجنل نمبر پلیٹ ایشو نہ ہونے کی مجبوری کی وجہ سے مارکیٹ کی بنی ہوئی جعلی نمبر پلیٹیں بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔
برطانیہ میں گاڑی کا نمبر نہیں بدلتا جب تک کہ نیا مالک خود نہ بدلے مگر امریکہ ریاست کے حساب سے نمبر پلیٹ کا بدلاو ہوسکتا ہے جیسے کیلی فورنیا میں پلیٹ گاڑی کے ساتھ رہتی ہے جبکہ فلوریڈا میں مالک کے ساتھ۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ محکمہ ایکسائز جو نئی گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں دینے میں بہت زیادہ سست اور ناکام رہا ہے کیا اتنا متحرک اور جلدباز ہوگیا ہے کہ نئی کے ساتھ ساتھ ٹرانسفر شدہ گاڑیوں کی بھی نئی نمبر پلیٹیں ساتھ ساتھ جاری کرتا رہے گا۔
مجھے یہ سو فیصد مال بناو طریقہ کار لگ رہا ہے یعنی پہلے ایکسائز والا مال بنائے گا اور پھر ٹریفک پولیس والا، عوام کو پریشانی اور خواری الگ ہوگی اور جب عوام کو پریشانی اور خواری ہوتی ہے تو وہ پھر ان بیوروکریٹوں کو نہیں بلکہ حکومت کو یاد کرتے ہیں اور اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرتے۔ آپ اسے چھٹی یا ساتویں حس کہہ لیجئے جو بتا رہی ہے کہ نئے نظام سے جرائم بڑھ جائیں گے۔ ہر دوسرے گھر میں اوریجنل نمبر پلیٹ اضافی پڑی ہوگی جو کہیں بھی استعمال ہو سکے گی۔
دوسری طرف حالات تو یہ ہیں کہ ابھی تک ہماری ٹریفک پولیس ہماری موٹرسائیکلوں پر نمبر پلیٹیں پوری نہیں کروا سکی، نئی کیسے لگوا سکے گی مجھے علم نہیں۔ بتایا جا رہا تھا کہ ای چالاننگ کا سسٹم بہاولپور بھی پہنچ گیا ہے مگر میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے موٹرسائیکلوں پر نمبر پلیٹس لگوا لی ہیں کہ اب بھی کم از کم ایک چوتھائی موٹرسائیکلیں کم از کم پچھلی نمبر پلیٹ کے بغیر ہیں اوراس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ دھڑلے سے ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور کوئی ای چالان نہیں ہوتا، ای چالان انہی کا ہوتا ہے جن کا نمبر لگا ہوتا ہے۔ ایک بار یوں بھی رپورٹ ہوا کہ کسی نے کسی دوسرے کی نمبر پلیٹ لگائی، ساتھ کوئی خاتون بیٹھی تھیں، چالان ہوا تو چالان کی تصویر اس کے گھر آ گئی جس کے نام پر وہ نمبر رجسٹرڈ تھا اور گھر میں نیا جھگڑا شروع ہوگیا کہ تمہارے ساتھ یہ عورت کون تھی؟
حکومتوں کو عوام کو زیادہ سے زیادہ آسانی دینی چاہئے مگر بار بار نئی نمبر پلیٹیں بہت ساری مشکلات کا باعث بنیں گی جیسے ملکیت ٹرانسفر کے ساتھ عوام سے نئی رجسٹریشن اور نئی نمبر پلیٹوں کا خرچہ بھی اینٹھا جائے گا یعنی خواہ مخواہ کا مزید خرچہ اور عوامی ناراضی کا مزید مصالحہ۔ چلیں یہ بتائیں کہ ایک گاڑی سے قتل ہوا، ڈکیتی ہوئی یا حادثہ، پھر وہ گاڑی بک گئی اور نیا نمبر لگ گیا۔ اب اس گاڑی کو تلاش کرنے کا طریقہ بتا دیں کہ سڑک پروہ کیسے ٹریس ہوگی کیونکہ وہ نمبر پلیٹ تو کسی کی الماری یا سٹور میں پہنچ گئی اور اس جیسی ہزاروں گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی پھر ہوں گی۔
مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ جب ہم سب کچھ ایک فنگر ٹپ پر لا رہے ہیں یعنی سنٹرلائزڈ اور کمپیوٹرائزڈ تو پھر یہ نیا لفڑا کیوں۔ جیسے اب ٹریفک پولیس، ڈرائیونگ لائسنس کی ہارڈ کاپی نہیں مانگتی اسی طرح ہر گاڑی کی اونر شپ بھی آن لائن ہوگی، ہر گاڑی کے نئے اور پرانے مالک کا نام درج ہوگا تو پھر نئی نمبر پلیٹ کی ضرورت نہیں رہ جاتی، صرف آپ بروقت ٹرانسفر یقینی بنا لیں۔
جب پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف تھے تو وہ بیوروکریسی کے سننے کے ساتھ ساتھ دوسرے پوائنٹ آف ویو کے لئے اکثر مثبت صحافیوں، متعلقہ ماہرین اور سٹیک ہولڈرز کو بھی اپنے اجلاسوں میں دعوت دیتے تھے مگر اب کہا جا رہا ہے کہ بیوروکریسی کی بریفنگزپر انحصار زیادہ ہے۔ مجھے اب اپنے کالم کے ذریعے یہی تجویز دینی ہے کہ اگر کوئی نیا تجربہ کرنا بھی ہے تو یہ کیا جائے گا کہ پورے پاکستان میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کا نمبر ایک ہی ہو کہ جب ہم شہروں کو سیف سٹیز بنا رہے ہیں اور پنجاب کا یہ منصوبہ وفاق اور سندھ کے ساتھ کے پی میں بھی آ رہا ہے تولاہور، پشاور کی گاڑی اگر کراچی میں بھی قانون کی خلاف ورزی کرے تو کراچی میں اس کا سنٹر لائزڈیٹادستیاب ہو نہ کہ پنجاب یا خیبرپختونخوا میں محدود۔
سوال ہوگا کہ یہ توصوبائی ریونیو کا معاملہ ہے تو جواب ہے کہ اس کا ریونیو متعلقہ صوبوں کو ہی دیں، نمبر پلیٹ کا رنگ یا ڈیزائن صوبے مختلف کر لیں مگر نمبر پورے ملک میں ایک ہی طرح کا اور ایک ہی قطار میں لگے۔ یہ نان رجسٹرڈ یا سمگلڈ گاڑیوں کے مسئلے کا بھی حل ہوگا۔