ریلوے کی کہانی پاکستان کی کہانی ہے، یہ اکٹھے ڈوبتے اور ابھرتے ہیں۔ جب کبھی آپ کو یہ خبر ملے کہ ریلوے ابھر رہا ہے تو آپ خود بخود ہی جان لیں کہ پاکستان ابھر رہا ہے اور جب کبھی ریلوے کے ڈوبنے کی باتیں ہوں تو جان لیں کہ خدانخواستہ پاکستان اچھے ہاتھوں میں نہیں ہے۔
میں گذشتہ روز لاہور ریلوے سٹیشن کی اس تقریب میں موجود تھا جس میں وزیراعظم شہباز شریف لاہور اور کراچی کے درمیان چلنے والی بزنس ایکسپریس کا افتتاح کر رہے تھے۔ بزنس ایکسپریس کی جس طرح بحالی کی گئی ہے اورا سے ایک سٹیٹ آف دی آرٹ ٹرین بنایا گیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ قابل تعریف تو ریلوے سٹیشنوں پر لگنے والے برقی زینے بھی ہیں اور بہترین کشادہ ویٹنگ رومز بھی۔
وزیر ریلوے حنیف عباسی بتا رہے تھے کہ اس برس ریلویز نے ترانوے ارب روپوں کی کمائی کی ہے جو ایک نیا ریکارڈ ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ بہت جلد یہ آمدن سو ارب سے بڑھ جائے گی۔ وزیراعظم شہباز شریف کہہ رہے تھے کہ ریلوے کی ترقی کا یہ سفر جاری رہا تو وزیر ریلویز کو یوم آزادی پر سول ایوارڈ سے نوازا جائے گا۔ جدید اور مہذب ملکوں نے اپنی اپنی ریلوے کو بہت ترقی دی ہے اور یہ ہر ملک میں منافع بخش ادارہ بھی نہیں ہے، اسے سب سڈی دی جاتی ہے کیونکہ سڑک کے مقابلے میں یہ سفر کا ایک بہت ہی محفوظ اور آرام دہ ذریعہ ہے۔
میں ریلوے کی ترقی کو پاکستان کی ترقی کا بیرومیٹر کیوں کہتا ہوں، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے میں اس بحالی، ترقی اور خوشحالی کے سفر کا حصہ رہا ہوں۔ میں نے قریب سے ریلوے کو نجکاری اور فروخت سے بچتے ہوئے دیکھا ہے ورنہ کچھ ایسے وزیر بھی رہے جنہوں نے اس ادارے کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ ریلوے کی بحالی مسلم لیگ ن کے اس صدی میں پہلے دور سے شروع ہوئی اور اس کا کریڈٹ خواجہ سعد رفیق کو جاتا ہے جنہوں نے اس کی بحالی اور ترقی کے لئے ایسے کام کیا جیسے کوئی اپنے ذاتی کاروبار کے لئے کرتاہے۔ انہوں نے جب ریلوے کا چارج سنبھالا تو اس وقت اس کی آمدن نو ارب روپے سالانہ تھی اور جب پہلے دور کا اختتام ہوا تو وہ پچاس ارب پر پہنچ چکی تھی۔
پی ڈی ایم کے مختصر دور میں اسے ساٹھ سے ستر ارب کے درمیان پہنچایا گیا۔ اسی دوران امریکی انجن امپورٹ کئے گئے جنہیں خواجہ سعد رفیق ریلوے کے کماؤ پوت کہا کرتے تھے۔ مسافر ٹرینوں پر کام ہوا، فریٹ کا بزنس کئی گنا بڑھا اور یوں ریلوے بچ گیا۔ اس دور میں سی پیک اورایم ایل ون کی آپ گریڈیشن کا بہت شہرہ تھا نجانے وہ منصوبہ کہاں گیا۔ مجھے لگتا ہے کہ جس حکومت نے مجموعی طور پر سی پیک کو تباہ کیا وہ ریلوے کے شاندار مستقبل کو بھی کھا گئی۔ شیخ رشید احمد سیاسی ٹرینیں چلاتے رہے جو سراسر گھاٹے کا سودا تھا، جی ہاں، دوسری طرف وہ لوگ تھے جنہوں نے ریلوے کو بھی تباہ کیا اور پاکستان کو بھی تباہ کیا۔
مجھے ایک بات بہت اچھی لگی، ایک بڑا سا بورڈ ایک سائیڈ پر لگا ہوا تھا جس پر لاہور اور پنڈی کے درمیان ہائی سپیڈ ٹرین کا ذکر تھا۔ حنیف عباسی نے بھی اپنی تقریر میں پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کے ریلوے سے تعاون کا ذکر کیا جیسے سندھ اوربلوچستان میں پٹڑی کی بہتری مگر پنجاب حکومت تو کمال کر رہی ہے۔ اگر میں اعداد وشمار کی غلطی نہیں کر رہا تو وزیر ریلویز کے مطابق پنجاب حکومت نے دو برس میں ساڑھے تین سو ارب روپے لاہور اور پنڈی کے درمیان ہائی سپیڈ ٹرین کے لئے رکھے ہیں۔
حنیف عباسی بتا رہے تھے کہ اب تجدید کے بعد آنے والی بزنس ایکسپریس بھی ایک سو ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگ سکتی ہے مگر مسئلہ ٹریک کا ہے جو انیسویں صدی کا بچھا ہوا ہے۔ مجھے یہاں ریلوے کے ان مزدوروں اور انجینئروں کو بھی خراج تحسین پیش کرنا ہے جو اس پرانے نظام کو کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ حادثے بھی ہوجاتے ہیں مگر اتنے پرانے نظام کا چلنا بھی ایک کمال ہے۔ پنجاب حکومت اس امر کویقینی بنائے گی کہ لاہور اور پنڈی کے درمیان ٹریک بہتر ہو، اس پر ہائی سپیڈ ٹرین چلے اور یہ فاصلہ دو، سوا دوگھنٹوں میں طے ہوجائے۔ اگر ایسا ہوگیا جو کہ ناممکن نہیں ہے تو یہ پاکستان کی ریلوے میں ایک انقلاب ہوگا۔
خوش آئند امر یہ ہے کہ موٹرویز اور ہائی ویز کو بہت زیادہ اہمیت دینے والی مسلم لیگ ن کی قیادت ریلوے کو اہمیت دے رہی ہے او ر اگر یہ کام ہمسایہ ممالک کی طرح پچاس برس پہلے کر لیا جاتا تو بہت کچھ بدل چکا ہوتا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان ریلویز کو گائیڈ لائنز دی ہیں کہ وہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی طرف جائے کہ حکومتوں کا کام بزنس کرنے سے زیادہ مینجمنٹ کا ہے۔ انہوں نے یہ بھی ہدایت کی ہے کہ ریلوے اپنی زمینوں کو لیز پر دے تاکہ وہاں سے جو آمدن آئے اسے مسافروں کی بہتری پر خرچ کیا جائے۔ میں نے دیکھا ہے کہ گلبرگ میں شیر پاؤ برج کے ساتھ ریلوے کے پلاٹس پر بڑے بڑے پلازے بن رہے ہیں جو پہلے خالی پڑے تھے اور ایک سرکاری ادارے کے قبضے میں تھے۔
ایک بات کہوں، اپنا کاروبار چلانا آسان ہے مگر حکومتی ادارے کو چلانا بہت مشکل۔ یہ ریلوے کی خوش قسمتی ہے کہ اسے خواجہ سعد رفیق کے بعد حنیف عباسی کی صورت میں ایک بہترین سیاسی کارکن وزیر ملا ہے جو کام کرنے اور تبدیلی لانے پر یقین رکھتا ہے۔ بیچ میں بھی ایک سیاسی کارکن ہی وزیر تھے مگر کام کی بجائے نمبر ٹانگنے اور افسروں کی بے عزتی کرنے پر زیادہ یقین رکھتے تھے۔
ریلوے میں ایک شاندار ماحول بن چکا ہے جس میں سیاسی قیادت اور افسرشاہی کے درمیان ایک اعتماد کی فضا ہے اور آپسی معاہدہ کہ ہم نے اپنے ادارے کو بچانا ہے۔ یہ تیزی سے اوپر جاتا ہوا ادارہ اس وقت بھی تباہ ہوا تھا جب ایک وزیر نے بھرے اجلاس میں ایک بہت ہی سینئر اور بزرگ افسر کو کہا تھا کہ مجھے رضیہ بٹ کے ناول مت سناؤ جس پر ایک بہادر افسر نے اسی وقت وزیر کی سرزنش کی تھی اور وہ بہادر افسرحنیف گل آج بھی ریلوے کے اہم ستون کے طور پر موجود ہے جبکہ کام کرنے والوں کی بے عزتی کرنے والا کبھی سبزی خریدتے ہوئے اپنی ویڈیوز آپ لوڈ کر رہا ہے کبھی نان چنے کھاتے ہوئے، یعنی ٹھس ہوگیا ہے۔
ریلوے کے مسافروں کو بزنس ایکسپریس کا چلنا مبارک ہو، اس ٹرین کا اکانومی کلاس کا کرایہ لاہور سے کراچی تک اکاون سو روپے بتایا جا رہا ہے اوراس میں ناشتہ، لنچ اور ڈنر کے ساتھ وائی فائی کی سہولت بھی شامل ہے۔ اس کی ڈائننگ کار بہت زبردست ہے اور یہ بھی اب ریلوے کو مکمل طور پر ڈیجیٹائز اورکیش لیس کیا جا رہا ہے۔ خواجہ سعد رفیق اس تقریب میں موجود نہیں تھے، وہ ہوتے تو حنیف عباسی کو اس طرح کام کرتے دیکھ کے بہت خوش ہوتے۔