سیلاب کے ساتھ بہت سارے مغالطے جڑے ہوئے ہیں اور جب بھی سیلاب آتا ہے تو عوام کو ان میں ڈال دیا جاتا ہے جس میں سب سے پہلا مغالطہ ہے ڈیموں کی تعمیر۔ یہ درست کہ ڈیموں کی تعمیر بہت ضروری ہے اور ہمارے جیسا ملک جو کہ صرف تیس دن تک پانی کی ضرورت کا ذخیرہ رکھ سکتا ہے اسے یہ گنجائش تین گنا تک بڑھانے کی فوری ضرورت ہے ورنہ خشک سالی کے خدشات ہمیں ڈراتے رہیں گے۔
ہماری پانی جمع کرنے کی کل صلاحیت پچھلے تیس سے چالیس برس میں سولہ ایم اے ایف سے کم ہو کر 13.68 ملین ایکڑ فٹ رہ گئی ہے۔ جب دیامر بھاشا، مہمند اور داسو جیسے منصوبے مکمل ہوں گے تو اس میں آٹھ ایم اے ایف تک کا اضافہ ہو جائے گا مگر اس پوری بحث سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ڈیم بنا کے ہم سیلابوں سے بچ سکتے ہیں، غیر منطقی ہے۔ ہم اس کی دلیل کسی موازنے سے ہی لے سکتے ہیں اور موازنے میں ہمارے جیسا بھارت ہے، اس کے کل رجسٹرڈ ڈیم 5334 ہیں، یہ چھ ماہ سے زیادہ یعنی دو سو دن تک کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کر سکتا ہے جوہم سے پندرہ گنا زائد صلاحیت یعنی 209 ایم اے ایف ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب بھارت 5334 ڈیموں سے سیلاب نہیں روک سکتا تو ہم کیسے روک لیں گے۔ پھر کہوں گا کہ ڈیم ضرور بننے چاہئیں مگر ان سے سیلاب روکنے کا چورن نہ بیچا جائے۔
دوسرا بڑا مغالطہ یہ ہے کہ سیلاب دریائوں کے ارد گرد تعمیرات سے آتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ دریا کے پاٹ میں یا اس کے پیٹ میں تعمیرات نہیں ہونی چاہئیں مگر یہ مظالطہ اس تاریخی ارتقا کی نفی کرتا ہے کہ شہر وہاں ہی آباد ہوئے جہاں دریا تھے۔ زمانہ قبل از مسیح سے آج تک زندگی ہوتی ہی پانی کے ارد گرد ہے اور جہاں پانی نہیں ہے وہاں زندگی کا تصور بھی محال ہے یا سخت تکلیف دہ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا دریاؤں کے ارد گرد بھی سوسائٹیاں نہ بنیں تو اس کے جواب میں سوال ہے کہ کیوں نہ بنیں۔ ویسے بھی اس کا سیلاب سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ جب سیلاب آتے ہیں تو وہ سیکڑوں میل تک شہروں، دیہات اور گوٹھوں میں پھیل جاتے ہیں تو کیا یہ سب اس لیے خالی کر دئیے جائیں کہ وہاں کبھی سیلاب آ سکتا ہے تو پھر یہ لوگ کہاں جائیں۔ جدید دنیا میں بھی سیر و سیاحت کے لیے تمام مقامات، سیرگاہیں اور ہوٹل تک دریاؤں کے ارد گرد ہی بنتے ہیں۔ دریا شہروں کے درمیان سے گزرتے ہیں۔ ہمیں دریائوں کے ارد گرد تعمیرات نہیں روکنی بلکہ اس کے لیے حفاظتی اقدامات کرنا ہیں۔
ہمیں فلڈ کا ارلی وارننگ سسٹم بنانا ہے تاکہ لوگوں کو بروقت مطلع کیا جا سکے اور عوام اپنی زندگیاں، قیمتی سازوسامان اور جانور وغیرہ بچا سکیں جیسے غذر میں ہوا جہاں چرواہوں نے سیلاب کی بروقت اطلاع دی اور سب زندگیاں بچ گئیں۔ آپ تعمیر و ترقی کو نہیں روک سکتے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ میں نے سیلاب کے موقع پر لوگوں کو موٹروے اور رنگ روڈ تک کے خلاف بات کرتے ہوئے دیکھا، عجب جاہل لوگ ہیں۔ کیا اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں صدی کے لاکھوں جانیں لیتے سیلاب تعمیرات کی وجہ سے آئے تھے؟
تیسرا بڑا مغالطہ یہ ہے کہ بارشی پانی سے آنے والے سیلاب سے آپ کو جدت اور ترقی بچا سکتی ہے تو اس کا جواب اسی برس جولائی کی چار اور پانچ تاریخ کے درمیان آنے والا سیلاب ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ٹیکساس امریکہ کی تیل وغیرہ کی وجہ سے سب سے مالدار اور رقبے اور آبادی میں دوسری بڑی ریاست ہے اور کیا آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ جب وہاں پانچ سو ملی میٹر سے زائد بارش ہوئی تو دریائوں میں طغیانی اور سیلاب سے135 لوگ جاں بحق ہو گئے اور ان میں ایک سکول کی لڑکیوں اور سٹاف کے وہ 27 لوگ بھی شامل تھے جو کیمپنگ کر رہے تھے۔
اگر امریکہ جیسی امیر اور جدید ریاست سیلاب کو نہیں روک سکتی تو پاکستان اور انڈیا کس کھیت کی مولی ہیں، ہاں، یاد آیا ایک اور بڑا مظالطہ ہے کہ بھارت جان بوجھ کر ہمیں ڈبو دیتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ہم اس کے دشمن ہیں اور وہ ہمارا دشمن ہے اور وہ جو ہمیں نقصان پہنچانا چاہے تواس میں کچھ عجیب نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم پاکستانی بھارت میں سیلاب سے ہونے والی بہت ساری تباہیوں سے واقف نہیں ہوتے کیونکہ ہمارے ہاں ایک دوسرے کا میڈیا بین ہے ورنہ بھارت میں سیلاب سے تباہی ہم سے بھی کچھ زیادہ آئی ہے، اتنی زیادہ ہے کہ وہاں سے لاشیں اور جانور تک سیلاب میں آ گئے ہیں۔ اب اگر بھارت ساڑھے پانچ ہزار کے قریب ڈیموں سے بھی سیلاب نہ روک سکے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟
ایک بڑا مغالطہ یہ پیدا کیا جا رہا ہے کہ سیلاب سے سب سے بڑا نقصان لاہور کی ایک سوسائٹی پارک ویو کو ہوا ہے اور پورا سوشل میڈیا اس والے سے رپورٹنگ پر لگا ہوا ہے۔ ایک سوسائٹی کے چار بلاک متاثر ہو گئے جس میں پانچ پانچ مرلے کے گھر بھی دو دو کروڑ کے ہیں اور جس کا مالک موقع پر کہہ رہا ہے کہ وہ سب کا نقصان پورا کرے گا تو اس کی آڑ میں ان لاکھوں لوگوں کے نقصانات سے سیاسی بنیادوں پر توجہ ہٹائی جا رہی ہے جن کی فصلیں تباہ ہوگئیں، جن کے کچے گھر گر گئے، جن کے جانور مر گئے اور جو باقی رہ گئے سیلاب کے پانی کی وجہ سے ان کے پاس چارہ نہیں ہے۔
مجھے پورے یقین کے ساتھ کہنا ہے کہ پارک ویو سوسائٹی اور ایک کرپٹ سیاستدان کا ساتھ چھوڑنے کے جرم میں جس طرح عبدالعلیم خان کو نشانہ بنایا جا رہا ہے یہ سب سیاسی ہے، گمراہ کن ہے۔ میں آپ کو پورا یقین دلاتا ہوں کہ پارک ویو کے رہنے والے غریب نہیں، پانی اترنے کے بعد ان کے گھر واپس بحال ہو جائیں گے مگر میرے کسانوں کا کیا بنے گا، اس پر بات ہونی چاہئے۔ لاہور کی حفاظت کے لیے تو حکومت نے دو کھرب سے بھی زیادہ کی رقم سے راوی کے ساتھ بند بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے جس کی بنیادی ذمے داری روڈا کی ہے۔ ان سوسائٹیوں کے مکین اربوں روپے اس مد میں روڈا کو دے چکے ہیں۔
ایک سیاسی جماعت کے نفرت، تعصب اور جہالت سے بھرے گروہ نے ہمیں نان ایشوز پر الجھا کے رکھ دیا ہے۔ اس مغالطے کا بھی ازالہ ہونا چاہئے کہ پارک ویو کے چار بلاکس لاہور نہیں ہیں جن میں چند فٹ پانی چلا گیا۔ لاہور بادامی باغ بھی ہے اور شاہدرہ بھی ہے۔ اگر پارک ویو غلط ہے تو کیا یہ آبادیاں بھی غلط ہیں؟ اس مغالطے کو بھی درست کیجئے، تعمیر و ترقی بھی ہوگی، موٹرویز اور رنگ روڈز بھی بنیں گی اور نئی نئی آبادیاں بھی مگر ہمیں فلڈ کے ارلی وارننگ سسٹم کے ساتھ ساتھ ریسکیو اور ریلیف کے نظام بنانا ہوں گے۔ یہ بے وقوفانہ بات ہے کہ جہاں تیس چالیس سال بعد کوئی سیلاب آ سکتا ہے وہاں ہمیشہ کوئی آبادی ہی نہ ہو۔