Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Najam Wali Khan/
  3. Senate Intikhabat Ka Dhanda

Senate Intikhabat Ka Dhanda

میں تو اس پر حیران ہوں کہ سینیٹ کی سیٹوں پر انتخابات ہوتے ہی کیوں ہیں۔ جب یہ طے شدہ ہے کہ ہر پارٹی کو صوبائی اسمبلی میں اس کی نمائندگی کے تناسب سے سیٹیں ملنی ہیں تو اس کے لئے ہر مرتبہ ارکان اسمبلی کی منڈی کیوں لگائی جاتی ہے۔ اگر سینیٹ کو متناسب نمائندگی سے پورا کر لیا جائے تو ہر تین سال بعد سیاست، جمہوریت اور پارلیمنٹ کے منہ پر لگنے والی کالک کم ہوسکتی ہے۔

ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی نظریوں سے عاری شخص آ کے سینیٹ کی رکنیت ہی نہیں چیئرمینیاں تک سنبھال لیتے ہیں اور عمران خان جیسے لوگ ہی اس پر تالیاں نہیں بجاتے بلکہ اس موقع پر ایک زرداری سب پر بھاری کے نعرے بھی لگ جاتے ہیں جبکہ منتخب ہونے والوں کا ان سے کوئی اصولی، سیاسی اور نظریاتی تعلق بھی نہیں ہوتا۔ اگر ہم سینیٹ انتخابات کو کرپشن فری اور صوبوں کا حقیقی نمائندہ ایوان بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں بڑی ترمیم کرنا پڑے گی تاکہ اگر فیصل واوڈا آئیں بھی تو کسی سیاسی جماعت کا لیبل لگا کے، اس کی تنظیم اور قیادت کے پابند ہوکے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ پی ٹی آئی کے علاوہ سب جماعتوں نے سینیٹ کے انتخابات میں سب اچھا کیا ہے مگر جو نقصان پی ٹی آئی کا ہوا ہے کسی دوسری سیاسی جماعت کا نہیں ہوا۔ ہم پی پی کی طرف سے طلحہ محمود، جے یو آئی کی طرف سے دلاور خان اور مسلم لیگ نون کی طرف سے نیاز مقام کے سینیٹر بننے پر اعتراض کرسکتے ہیں مگر مجموعی طور پر یہ انتخابات پی ٹی آئی کے لئے بڑی ناکامی رہے۔

پی ٹی آئی کی سب سے پہلی ناکامی تو ان انتخابات کا انعقاد ہی تھا کہ اس نے بطور پارلیمانی پارٹی ایک روز پہلے ہی خیبرپختونخوا اسمبلی کے اجلاس سے غیر حاضر رہ کر کوشش کی تھی کہ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کا حلف ہی نہ ہو پائے اور اس کے نتیجے میں ایک مرتبہ پھر خیبرپختونخوا کا سینیٹ الیکشن ملتوی ہو جائے مگر پی ٹی آئی کے تمام سیاسی اور غیر سیاسی مخالفین پوری طرح جاگ رہے تھے۔ وہ فوری پر پشاور ہائیکورٹ گئے، وہاں سے گورنر سے حلف برداری کا حکم نامہ لیا جس کے بعد کوئی دوسری راہ فرار نہیں رہ گئی تھی۔

پی ٹی آئی پر یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ اس نے بانوے ارکان کے ساتھ چھ جبکہ اپوزیشن نے تریپن ارکان کے ساتھ پانچ سیٹیں جیتیں۔ ریاضی سے سیاست تک کے اصولوں کے مطابق یہ پی ٹی آئی کے لئے گھاٹے کا بڑا سودا تھا مگر اسے یہ گھاٹا اپنے ناراض یا باغی امیدواروں کی وجہ سے اٹھانا پڑا جن کے پیچھے ان کا سوشل میڈیا بھی آ کے کھڑا ہوگیا تھا۔ علی امین گنڈا پور کو اس موقع پر اپنے ارکان کی فلور کراسنگ روکنے کے لئے اپوزیشن کی جماعتوں مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا پڑا اور اگر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا یہ معاہدہ نہ کرتے یا اپنے ارکان کو آپشنز دے دیتے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ یہ چھ نشستیں بھی چار ہی رہ جاتیں۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے اس الیکشن میں بھی پی ٹی آئی کے لئے وہی نقصان دہ کردار ادا کیا جو اس نے آج تک عمران خان کی حکومت ختم ہونے سے اسے جیل تک پہنچانے میں کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے باغی امیدواروں کو ایک عفریت بنا کے پیش کیا گیا مگر تین میں دو کے غبارے سے پہلے ہی ہوا نکل گئی اور تیسرے کو ایک ووٹ بھی نہ ملا یعنی سوشل میڈیا نے کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا اور وہ بھی مرا ہوا۔ اب اس کی بو ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔

ارب پتیوں میں ٹکٹ دینے میں پی ٹی آئی کے بانی جیل میں ہونے کے باوجود کسی سے پیچھے نہیں رہے اور ہم نے دیکھا کہ علی امین گنڈا پور سے لے کر ان کا پورا دھڑا علی آفریدی کی ٹکٹ کا دفاع کرتا رہا۔ عمران خان نے وہی دوغلا کھیل اپنی پارٹی کے ساتھ کھیلا جو وہ فوج کے ساتھ کھیلتے رہتے ہیں۔ انہوں نے ٹکٹ جاری کی اور پھر معاملہ سیاسی کمیٹی کے حوالے کر دیا۔ اب بچاری سیاسی کمیٹی کی کیا مجال کے وہ چیں چوں یا چراں کرتی۔ وہ توکسی بھی دوسری سیاسی جماعت کی ورکنگ کمیٹی سے بھی کمزور ہیں اورا نہیں اپنی اوقات کا اچھی طرح علم ہے۔

جب کارکنوں نے سیاسی کمیٹی کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا تو پھر عمران خان کارڈ کھیلا گیا اور ذہنی غلام کارکنوں کے لئے یہ ہضم کرنا مشکل ہوگیا کہ عمران خان صاحب جیل میں رہ کر بھی اربوں روپوں کی دیہاڑی لگا گئے ہیں۔ کارکنوں کو دکھانے کے لئے مراد سعید کا نام آگے کر دیا گیا حالانکہ مراد سعید بھی یہ کہہ رہا تھا کہ اس کا سینیٹ جانا ناممکن بھی ہے اور بے فائدہ بھی۔ وہ اس وقت تک نومئی کے مقدمات میں مفرور اور اشتہاری ہے او ر جیسے ہی حلف لینے کے لئے سامنے آئے گا دھر لیا جائے گا لہٰذا یہ کہنا ہرگز غلط نہیں کہ پی ٹی آئی نے سینیٹ میں اپنی یہ سیٹ بھی ضائع کر دی ہے لیکن جن احمقوں نے عمران خان کے اس بے وقوفانہ فیصلے کو غلط نہیں کہا تھا کہ پنجاب اور پختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دو، نو مئی کو جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاؤس پر چڑھ دوڑو، وہ اس فیصلے کو کیا غلط کہیں گے سو وہ تالیاں بجا بجا کے ہلکان ہو رہے ہیں۔

خیبرپختونخوا میں اپوزیشن جماعتوں کا فلور کراسنگ روکنے کے لئے علی امین کی حکومت کا ساتھ دینے سے سب سے بڑا نقصان کے پی اسمبلی کے ارکان کا ہوگیا ہے ورنہ خیبرپختونخوا کے ارکان سینیٹ کے انتخابات میں ہر مرتبہ کروڑوں کی دیہاڑیاں لگاتے رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ اگر پی ٹی آئی سیاسی فیصلے کرتی، اس کی تنظیم باشعور اور باوقار طریقے سے آگے بڑھتی تو وہ دو سے تین مزید نشستیں حاصل کر سکتی تھی مگر پی ٹی آئی والے اپنے ہی سوشل میڈیا اور بلیک میلرز کی وجہ سے مارے گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ حکمران اتحاد کو مولانا فضل الرحمان کے بغیر بھی، قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں بھی دو تہائی اکثریت حاصل ہوگئی۔ اب آئینی ترا میم حکمران اتحاد خود کر سکے گا۔

پیپلزپارٹی سینیٹ کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔ میرے کئی دوست سوال کر رہے ہیں کہ مسلم لیگ نون نے کیوں حصہ بقدر جثہ نہیں لیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ بادشاہ کو ہمیشہ اعلیٰ ظرف ہونا چاہئے۔ جب ٹاس والا پھڈا پڑا، مولانا فضل الرحمان نے شکوے بھرا بیان داغا تو مسلم لیگ نون نے جے یو آئی پر احسان کر دیا کہ وہ ٹاس سے ہی دستبردار ہوگئی اور اسی طرح پیپلزپارٹی اور اے این پی سے معاملات۔ مسلم لیگ نون کے پاس اس وقت وفاقی حکومت ہے اور وہ دینے کی پوزیشن میں ہے۔ اسے بہرحال اس طرح کا نہیں ہونا چاہئے کہ وہ موریوں والی قمیضیں پہن کے ڈرامے کرتی پھرے۔ وزیراعظم شہباز شریف جب تک بادشاہوں کی طرح چلتے رہیں وہ بادشاہ بنے رہیں گے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran