معروف اداکارہ زارا نور عباس نے مشترکہ خاندانی نظام کی تعریف کی تو ان کی پوسٹ پر جواب میں تعریفی کمنٹس کا سیلاب اُمڈ آیا۔ حال ہی میں اداکارہ عائشہ خان کے اکیلے فلیٹ میں وفات پاجانے اورلاش کے کافی دنوں بعد ملنے نے ہم سب کے دل دہلا دئیے تھے اوراس کے بعد ایک اور اداکارہ کی لاش نو ماہ بعد ملی جو کراچی میں اپنے فلیٹ میں اپنے گھروالوں سے دور اپنا مستقبل بنانے کے لئے تنہا رہ رہی تھی۔ مستقبل تو خیر کیا بنتا ایک کہانی بن گئی، ایک عبرتناک کہانی۔
میں بچیوں کی تعلیم کا اس حد تک حامی ہوں کہ بہت سارے لوگوں کے ملالہ یوسف زئی کو مغرب کا ایجنٹ کہنے کے باوجود اس کی بنیادی جدوجہد کی حمایت کرتا ہوں کہ میں اس کے ساتھ ہو ہی نہیں سکتا جو ہماری بیٹیوں کے سکولوں کوجلائے، انہیں تعلیم سے روکے مگراس کے باوجود میں مشورہ دیتا ہوں کہ اگر بیٹیوں کو خاندان اور کیرئیر میں سے کسی ایک کاچناؤ کرنا پڑے تو وہ خاندان کا کریں۔ بہت ساری مشکلات سے بچ جائیں گی۔
میں نے بات مشترکا خاندانی نظام پر ہی کرنا ہے یعنی میرا موضوع سماجی ہے مگر اس پر بات کرنے سے پہلے اپنے کالم کے عنوان پر ایک اور بات یاد آگئی۔ ابھی میٹرک کا رزلٹ آیا ہے اور بہت سارے بچے ایسے ہیں جو فیل ہوگئے ہیں یا ایسے نمبرز ہیں جن کی بنیاد پر انہیں آگے داخلہ نہیں مل سکتا۔ ایسے موقعے پر ہمارے بہت سارے دوست نفسیاتی اور سماجی ماہر بن جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسے بچوں کو کچھ نہ کہا جائے بلکہ اس سے پہلے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے سکولوں میں بھی مار نہیں پیار، کی پالیسی نافذ کی تھی اوراس کے باقاعدہ بورڈز لگا دئیے گئے تھے۔
یقینی طور پر بچوں کو مارنے کی حمایت نہیں کی جا سکتی کیونکہ جب ہم کسی کو ایک انگلی لگانے کا اختیار دیتے ہیں تو بہت سارے تھپڑ مار دیتے ہیں۔ ابھی تھوڑے دن پہلے ایک نیم سرکاری یونیورسٹی کے استاد کی ویڈیو دیکھی وہ جس طرح ایک سٹوڈنٹ کی تذلیل کر رہا تھا مجھے لگا کہ یہ شخص ذہنی بیمار ہے۔ یہ بات درست بھی ہے کہ ہم نے بہت سارے ذہنی بیماروں کو استاد کے درجے پر فائز کر رکھا ہے اور اگر ہم سکولوں سے یونیورسٹیوں تک کے اساتذہ کا نفسیاتی معائنہ کرائیں تو ان میں سے بہت سارے ایسے ملیں گے جنہیں تعلیمی اداروں کی بجائے پاگل خانوں میں ہونا چاہیے مگر وہ دانشور بنے پھرتے ہیں، بہرحال، بات ہور ہی ہے کہ مار نہیں پیار ہی ہونا چاہیے مگر ا ن کا کیا کریں کہ کچھ بچے پڑھتے ہی زور، زبردستی سے ہیں ورنہ وہ کھیل کود میں وقت ضائع کر دیتے ہیں۔
وہ ہوم ورک بھی مار کے ڈر سے کرتے ہیں ورنہ ان کی کاپیاں خالی ہوتی ہیں اور اب تو ان کے پاس وقت گزارنے کے لیے موبائل فون موجود ہیں جو ان کے لیے کتابوں کاپیوں سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ انہیں فزکس، کیمسٹری، بائیالوجی تو سمجھ نہیں آتی مگر فیس بک، انسٹا اور ٹک ٹاک خوب سمجھ آجاتے ہیں۔ میں اکثر سینئر بیوروکریٹس سے ملتا ہوں اور ان سے پوچھتا ہوں کہ انہیں اپنا کون سا استاد یاد ہے جس نے ان کی زندگی میں اہم کردارادا کیا تو نوے فیصد کو وہی استاد یاد ہوتا ہے جو بہت سخت ہوتا تھا، اس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہوتا ہے اور اس کے ڈر سے وہ خوب پڑھتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ آج وہ جس مقام پر ہیں اسی سخت گیر استاد کی وجہ سے ہیں سو میں مار نہیں پیار کا حامی ہوں مگر توازن، توازن، توازن۔
بات ہورہی ہے مشترکہ خاندانی نظام کی جس میں بہت سارے فائدے ہیں یعنی ایک دوسرے کی سپورٹ رہتی ہے۔ مرد یا خواتین گھر سے باہر بھی ہوں تو گھر میں موجوو بچوں کی فکر نہیں ہوتی۔ میں اس بات کی بھی حمایت کرتا ہوں کہ تائیوں، چاچوں، پھوپھیوں، خالائوں اور ماموئوں کے گھر قریب ہی ہونے چاہئیں اور بہن بھائیوں کے بعد کزنز آپس میں بہترین دوست ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کے اوپر والدین کی سکروٹنی اورمشترکہ نظر رہتی ہے مگر اس میں بھی ایک توازن کی ضرورت ہے یعنی اگر آپ کا گھر اس طرح ہے اس میں آپ کے والدین آپ کے ساتھ رہتے ہیں تو یہ بہترین ہے کیونکہ والدین کی خوشی اور سہارا اپنے بچے اور پھر ان بچوں کے بچے ہی ہوتے ہیں۔
ہمارے پاس تو اولڈ ہومز بھی نہیں ہیں اور جو ہیں وہ افورڈ ایبل نہیں اور اگر افورڈ ایبل بھی ہوں تو میری نظر میں سخت ناپسندیدہ، ہاں، یہ ضرور ہے کہ ہمیں جہاں لڑکیوں کی یہ تربیت کرنا ہے کہ تم جس گھر میں جائو وہاں ساس، سسر کو اپنے ماں، باپ کا درجہ دو وہاں یہ ضروری ہے کہ بہو کو بھی بیٹی ہی کی طرح سمجھاجائے اور اگر وہ کچھ ناز نخرے کرے تو بیٹیوں کی طرح ہی اٹھا لیے جائیں یعنی توازن، توازن، توازن۔ مگر مجھے یہاں ایک اور توازن بارے بات کرنی ہے اور میرے تھوڑے کہے کو ہی زیادہ جانئے گا کہ ہندو معاشرے سے آئے ہوئے ایک بڑے مشترکہ خاندانی نظام نے بہت سارے گھروں میں بہت سارے ایشوز پیدا کئے ہیں، یہ مسائل شہروں میں نسبتاً کم ہیں اور دیہات میں زیادہ۔
دیور، جیٹھ اور ان کے ساتھ دیورانیاں جیٹھانیاں ایک ہی جگہ ہوں تو اس سے بہت سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ دیورانیوں جیٹھانیوں سے گھروں کے جھگڑے، فساد اور دوسری طرف آگے بڑھتے ہوئے وہ مسائل جن پر قتل تک ہوجاتے ہیں یا بہت سارے بے غیرت بن کے انہیں برداشت بھی کرتے ہیں، پھر کہہ رہاہوں کہ تھوڑے کہے کو زیادہ سمجھیں کہ شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا ہے۔
ہمارے بہت سارے دوست کہیں گے کہ ہمارے بہت سارے لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ الگ ہو سکیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ پرائیویسی ضروری ہے اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک آپ کے کمرے اور کچن الگ نہ ہوں۔ ویسے بھی اسلامی یا عرب روایات کے مطابق نئے جوڑے کو نیا گھر ہی ملتا تھا چاہے اس میں کم ہی سامان ہو اوراس کے بعد وہ اپناسامان زندگی اکٹھا کر لیتے تھے یعنی کہنے کا مطلب ہے کہ اگر مشترکہ خاندانی نظام کا مطلب یہ ہے کہ بہت سارے لوگ ایک ہی گھر میں ہوں جن میں زیادہ تر آپس میں نامحرم ہوں تو وہاں فتنے اور فساد کی زیادہ راہ ہے سو اگر ہم نے مشترکہ خاندانی نظام کی اس سہولت کا استعمال بھی کرنا ہے تو ایک توازن کے ساتھ مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم بہت ساری باتوں میں توازن کھو بیٹھے ہیں اور کسی بھی شے کی زیادتی ہرگز درست نہیں ہے چاہے وہ بہت ہی اچھی اور مزے دار شے کیوں نہ ہو جیسے کھانا صحت ہی نہیں زندگی کے لیے ضروری ہے مگر بے شماراور بے ہنگم کھاتے چلے جانا بیماری ہے۔
سیاسی نظریہ اوروابستگی شعور کی علامت ہے مگراس میں گالی گلوچ، نفرت اور الزام تراشی جہالت کی۔ سو پیارے قارئین، نماز پڑھنا فرض ہے اور بہت احسن مگر نماز کے وقت پرنماز اور کام کے وقت پر کام کیجئے یعنی زندگی میں توازن رکھیں۔