Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Aalmi Bhai Chaare Ki Munafiqat

Aalmi Bhai Chaare Ki Munafiqat

دنیا یقیناََ وہ نہیں رہی جیسی کم از کم دوسری جنگ عظیم کے بعد سردجنگ کے خاتمے تک تھی۔ دیوار برلن گری تو دانشوروں نے اعلان کیا کہ دنیا سکڑکر "عالمی گائوں" تک محدود ہوگئی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام سے کمیونزم شکست کھاگیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی فتح مگر امریکہ جیسے ملکوں ہی کو مزید مالدار نہیں بنائے گی۔ اس کی "برکات" سے غریب ملک بھی فیض یاب ہوں گے۔ سستی مزدوری کے لالچ میں وہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں نئے کارخانے لگائیں گی۔ کراچی، بنگلور یا حیدر آباد دکن میں قائم ہوئے کال سینٹرلندن سے مانچسٹر جانے کے خواہش مند مسافروں کے لئے ریل کے ٹکٹ بک کروائیں گے۔ معاشی محاذ پر مسلسل حرکت دنیا بھر میں امیر اور غریب کے درمیان فرق کو کم سے کم تر بنائے گی۔ مساوات اور انسانی بھائی چارے کا ایک نیا خوش گوار دور شروع ہوجائے گا۔

جو خواب دکھائے گئے تھے وہ مگر شرمندئہ تعبیر نہیں ہوئے۔ "عالمی گائوں" کی وجہ سے "بھائی چارے" کے دعوے کو بلکہ سب سے پہلے سرمایہ دارانہ نظام کے بانیوں میں سے ایک -برطانیہ- ہی نے جھوٹاثابت کیا۔ وہاں کی سفید فام اکثریت یہ سوچنے کو اُکسائی گئی کہ یورپی یونین میں ضم ہوکر برطانیہ نے اپنی تاریخی شناخت کھودی ہے۔ برطانوی راج کے دنوں میں اس کے زیر نگین ملکوں سے مزدوروں کے ایک سیلاب نے دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی معیشت کی بحالی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سخت موسموں میں گھربار چھوڑ کر پردیسی تنہائی سے اُکتائے "اوور ٹائم" لگاتے رہے۔ بتدریج انہوں نے برطانیہ میں آباد ہونا شروع کردیا۔ اب ان کی تیسری اور چوتھی نسلیں برطانوی اشرافیہ کا مقابلہ کررہی ہے۔

یورپی یونین میں شمولیت کے بعد برطانیہ کو پولینڈ جیسے ملکوں سے تارکینِ وطن کے مزید سیلاب برداشت کرنا پڑے۔ کسی دور میں سوویت یونین کا حصہ ہوئے یہ ملک یورپی یونین میں شمولیت کے بعد اپنے شہریوں کے لئے بغیر ویزا کے برطانیہ میں داخلے کا حق حاصل کرچکے تھے۔ برطانیہ آکر انہوں نے بھی سستی اجرت پر کام کرنا شروع کردیا۔ برطانیہ اپنی تاریخی شناخت سے مسلسل محروم ہونے لگا۔ وہاں کے کئی بڑے شہروں میں سفید فام بلکہ اقلیت کی صورت نظر آنے لگے۔ اپنی "شناخت" کی بحالی کے لئے برطانیہ یورپی یونین سے الگ تو ہوگیا مگر اس کے معاشی اور سماجی مسائل اپنی جگہ برقرار رہے۔ "فلاحی ریاست" کے نظام کو برقرار رکھنا مشکل سے مشکل تر ہورہا ہے اور اشرافیہ کو سمجھ نہیں آرہی کہ برطانیہ اپنی "شناخت" برقرار رکھتے ہوئے بھی معاشی خوش حالی یقینی بنانے کے لئے کونسی راہ اختیار کرے۔

امریکہ برطانیہ کے مقابلے میں کہیں بڑا ملک ہے۔ اس ملک میں بھی "عالمی بھائی چارے" کی منافقت تارکین وطن خصوصاََ مسلمانوں سے نفرت کی بنیاد پر عیاں ہوگئی ہے۔ جے ڈی وینس جو ان دنوں امریکہ کا نائب صدر ہے اپنی تحریروں کی وجہ سے امریکہ کے بے پناہ افراد کو یہ سوچنے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ امریکہ کے سیٹھ سستی مزدوری کے لالچ میں چین جیسے ملکوں میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے "مادرِ وطن" میں لگی فیکٹریوں کو زنگ آلود کررہے ہیں۔ نئی سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے مسلسل پھیلتی بے روزگاری کا اصل نشانہ سفید فام امریکی گھرانے بن رہے ہیں۔ ان کا "نوحہ" لکھنے کی وجہ سے وہ امریکہ کو "دوبارہ عظیم" بنانے کے لئے ٹرمپ کا حمایتی ہوگیا اور اب اس کا نائب صدر ہے۔ لطیفہ اگرچہ یہ بھی ہے کہ کیتھولک مذہب کا یہ کٹر پیروکار تارکین وطن سے نفرت کے باوجود بھارت سے آئی ایک ہندو خاتون کا خاوند بھی ہے۔

دیوار برلن کے گرنے کی وجہ سے "عالمی بھائی چارے" کا وعدہ کرنے والا نظام دس برس بھی برقرار نہیں رہ سکا۔ دنیا بھر کے ممالک کی اکثریت اب اپنی "تاریخی شناخت" اجاگر کرنے کو ترجیح دے رہی ہے۔ اس کی وجہ سے قوم پرستی کے جذبات بھارت میں ہندو ازم کے احیاء کے تصور کے ساتھ مل کر نریندر مودی جیسے سیاستدانوں کو بادشاہی اختیارات سونپ رہے ہیں۔ ایسے ممالک کی اکثریت "دوسروں" کو اپنے سے کہیں کم تر انسان سمجھتے ہوئے فسطائی رحجانات کو بڑھاوا دے رہی ہے۔

دنیا بھر کے انسان جس ہیجانی کیفیت میں گرفتار ہیں اس کا علاج ڈھونڈے بغیر اب بھرپور سرمایہ کاری "مصنوعی ذہانت" پر ہورہی ہے۔ انسانوں کی جگہ روبوٹ لینے کو مچل رہے ہیں۔ درد مند دانشور اسی باعث نہایت سنجیدگی سے یہ سوچ رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کا بے دریغ فروغ انسانوں کی بے پناہ اکثریت کو زمین پر بوجھ بنادے گا۔ کوئی بعید نہیں کہ حالات سے مایوس ہوئے وہ ایک دوسرے کو مختلف النوع جنگوں کے ذریعے ختم کرنا شروع کردیں۔ روس نے اپریل 2022ء میں یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ مبصرین کی اکثریت کو گماں تھا کہ روس اپنی بھاری بھر کم فوج اور جدید ہتھیاروں کی بدولت زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے میں یوکرین پر قابض ہوجائے گا۔ ایسا مگرہوا نہیں۔ امریکہ اور یورپ کے روس مخالف عناصر یوکرین کا تحفظ یقینی بنانے کو اس لئے مجبور ہوئے کہ یوکرین پر قابض ہوجانے کے بعد روس پولینڈ، بلغاریہ، ہنگری اور چیک ری پبلک جیسے ملکوں کو بھی "سوویت دور" کی طرح اپنا زیر نگین بناسکتا تھا۔ ان سب کی جانب سے ہوئی مزاحمت یوکرین کو بچائے ہوئے ہے۔ تین سالہ جنگ کے دوران مگر دونوں ملکوں کے ہزاروں افراد موت کا نشانہ بنے۔ یوکرین کی بے شمار آبادی دیگر ممالک میں پناہ گزین ہے۔ جنگ مگر جاری ہے۔

اپریل 2022ء کے بعد 7اکتوبر2023ء ہوگیا۔ حماس نے اسرائیل میں گھس کر اس کی قوت کو للکارا تو وزیر اعظم نیتن یاہو "یہودی نسل" بچانے کے نام پر متحرک ہوگیا۔ "عظیم تر وجودی مفاد" میں اس نے لبنان میں حزب اللہ کو کمزور تر بنایا۔ حزب اللہ کمزور ہوئی تو شام کے بشارالاسد کی حکومت کا تختہ بھی الٹ گیا۔ بعدازاں وہ ایران پر بھی حملہ آور ہوگیا۔ حماس کے ساتھ اب جنگ بندی کے لئے مذاکرات ہورہے ہیں۔ اسرائیل مگر جنگ بندی کے بعدبھی اپنے "وجود" کو برقرار رکھنے کے نام پر جنگجویانہ رویہ برقرار رکھے گا۔

خلقِ خدا کے ہیجان کو ہم دردی کے جذبات سے سمجھنے کے بعد اس کا حل ڈھونڈنے کے بجائے دنیا کے اکثر ممالک اپنی مذہبی، لسانی یا تاریخی شناخت کے احیاء کو بضد ہیں جو "عالمی بھائی چارے" کے فریب کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ دنیا کے مختلف ممالک میں جنگیں ہی ہمارا مقدر محسوس ہورہی ہیں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran