Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Afghan Wazir e Kharja Ka Daura e Bharat

Afghan Wazir e Kharja Ka Daura e Bharat

بالآخر پیغام یہ ملا ہے کہ احیائے اسلام، کے نام پر یوپی کے قصبہ سہارن پور میں آج سے تقریباً 160برس قبل قائم ہوا دارالعلوم دیو بند ہی دین کے نام پر کابل میں براجمان طالبان حکومت کو ہندوتوا کی بچاری، مودی حکومت کے قریب لاسکتا ہے۔ ہفتے کی صبح بھارت کے دورے پر گئے طالبان حکومت کے وزیر خارجہ اپنی تحریک کی حتمی مادر علمی حاضری دینے پہنچے تو ان کے استقبال کو سہارن پورمیں آباد مسلمانوں کی متاثر کن تعداد سڑکوں پر اُمڈ آئی۔ ان کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی جو اپنے حلیے سے دینی مدارس کے طالب علم دکھائی دے رہے تھے۔ استقبال کرنے والے ہجوم میں خوشحال متوسط طبقے کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر تھی۔

مولانا ارشد احمد مدنی ان دنوں دارالعلوم دیوبند کے صدر ہیں۔ مجھے خبر نہیں کہ ان کا دیوبند کے مشہور عالم قاضی حسین احمد مدنی سے موروثی تعلق، ہے یا نہیں۔ امیر خان متقی کی آمد کا انتظار کرتے ہوئے البتہ انھوں نے کیمروں کے روبرو یاد دلایا کہ آج سے 110سال قبل شیخ الہند، نے دیوبند کے چند طلبہ کو کابل بھیجا تھا۔ انھیں حکم ملا کہ وہ افغانستان کے دارالحکومت میں بیٹھ کر ہندوستان کی آزاد حکومت، کی بنیاد ڈالیں۔ ان دنوں دارالعلوم دیوبند ہی کے ایک طالب علم قاضی عبدالرزاق افغانستان کے امیر حبیب اللہ کے دربار میں بہت بااثر تصور ہوتے تھے۔ امیر حبیب اللہ نے دیوبند سے آئے وفد کو آزاد حکومت، بنانے کی اجازت دے دی۔

مولانا برکت اللہ اس حکومت کے سربراہ مقرر ہوئے۔ ان کے ساتھ پرتاپ سنگھ بھی تھے اور مولانا وحید اللہ سندھی، (مجھے شبہ ہے کہ مولانا ارشد احمد مدنی غالباً مولانا عبید اللہ سندھی کا ذکر کررہے تھے) مذکورہ حکومت کے وزیرخارجہ مقرر ہوئے۔ برطانوی سامراج کو بھارت سے نکالنے کے لیے کابل میں جو جلاوطن حکومت 1915ء میں قائم ہوئی تھی اس میں فقط مسلمان ہی شامل نہیں تھے۔ غیر مسلم بھی اس میں نمایاں عہدوں پر فائز ہوئے۔ گویا جو حکومت قائم ہوئی وہ مذہبی، نہیں بلکہ سیکولر، حکومت تھی۔

جذبات سے مغلوب ہوئے مولانا ارشد صاحب کو یاد ہی نہ رہا کہ یوپی میں ان دنوں ایک ہندو انتہا پسند -یوگی ادتیاناتھ- وزیر اعلیٰ ہے۔ آج سے چار برس قبل جب طالبان فاتح بن کر کابل لوٹے تو سماج وادی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک مسلمان رکن صوبائی اسمبلی شفیق الرحمن نے تجویز پیش کی کہ بھارت کو اپنے دور رس مفادات ذہن میں ر کھتے ہوئے طالبان حکومت کو تسلیم کرلینا چاہیے۔ شفیق الرحمن کی اس تجویز سے یوگی بہت ناراض ہوا۔ اس نے اس رکن اسمبلی کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کافیصلہ کیا اور یوپی کی صوبائی اسمبلی میں کھڑے ہوکر ان مسلمانوں کا مذاق اڑایا جو طالبان کی کابل واپسی کا خیرمقدم کررہے تھے۔ ایسے لوگوں کی مذمت، کرتے ہوئے یوگی نے طالبان کے خواتین دشمن، رویے کا بھی شدت سے ذکرکیا۔

طالبان کی خواتین دشمنی، کا ذکر چلا ہے تو اپنے ایکس اکائونٹ کا پھیرا لگالیجیے۔ اس کی بدولت آپ کو علم ہوجائے گا کہ بھارت میں وزار ت خارجہ کو باقاعدگی سے کور کرنے والی خواتین باہمی اختلافات بھلاکر اپنی حکومت کی مذمت، کررہی ہیں۔ انھیں گلہ ہے کہ جمعہ کے روز امیر متقی نے دلی میں قائم افغان سفارتخانے میں جس پریس کانفرنس سے خطاب کیا اس میں خواتین صحافیوں کو شمولیت کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔ انھیں افسوس ہے کہ بھارتی حکومت نے اپنے مہمان، کو خواتین دشمن، رویہ اپنانے کی اجازت کیوں دی۔ بھارتی سرزمین، پر طالبانی، نظریات کا اظہار کیونکر ہوا۔ اپنے مرد ساتھیوں سے انھیں شکوہ ہے کہ طالبان وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس میں سرجھکائے شرکت کے بجائے انھیں وہاں سے خواتین کی عدم موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے احتجاجاً واک آئوٹ کرجانا چاہیے تھا۔

بھارتی خاتون صحافیوں کے غصے کو مگر بھارت کے مرد صحافی ہی نہیں بلکہ چند نمایاں خواتین صحافی بھی خاطر میں نہیں لارہیں۔ برکھادت نے مثال کے طور پر جمعہ کی رات ہی اپنے یوٹیوب چینل میں دو خواتین کو مدعو کیا۔ ان میں سے ایک کا پہلا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ مکھر جی البتہ ان کا سرنیم تھا۔ وہ کئی ممالک میں بھارت کی سفیر رہی ہیں۔ ان کی زبان سے بھارتی سرزمین پر طالبانی سوچ کے اظہار، پر خفا ہوئی خواتین صحافیوں کو یاد دلایا گیا کہ کسی بھی ملک کی سرزمین پر قائم ہوئے سفارتخانے درحقیقت اپنے مادرِ وطن کی سرزمین ہوتے ہیں۔ اسلام آباد میں مثال کے طور پر فرانس کا جو سفارتخانہ ہے اس کے دروازے سے پاکستان نہیں فرانس شروع ہوجاتا ہے۔ اس کے اندر وہ اپنی ثقافتی روایات کے مطابق جوبھی کریں پاکستانی حکومت اسے روکنے کا اختیار نہیں رکھتی۔

سینئر سفارتکار مکھر جی نے جو دلائل دئے وہ برحق تھے۔ برکھادت جیسی خواتین کے حقوق کا محافظ بنی صحافی کو مگر متقی کے رویے کے دفاع کے لیے حد سے گزرنا پڑا۔ خواتین کے حقوق، برکھادت نے جوتے کی نوک پر اس لیے رکھے کیونکہ اس کی حتمی ترجیح بھارت کے قومی مفاد، ہیں۔ مودی حکومت یہ طے کر بیٹھی ہے کہ پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے افغانستان میں پناہ گزین ہوئے تخریب کاروں کا تحفظ یقینی بنانا ہوگا۔ طالبان حکومت کے ناز نخرے اٹھائے بغیر یہ تحفظ یقینی نہیں بنایا جاسکتا۔ برکھا ہی کے پروگرام میں ایک سابق فوجی بھی موجود تھا۔

اس نے دعویٰ کیا کہ 1947ء سے قبل وہ پشاور میں پیدا ہوا تھا اور اس وجہ سے افغان سوچ، سے خوب واقف ہے۔ اس دعوے کے بعد وہ مسلسل اصرار کرتا رہا کہ طالبان بھی افغانستان کو پاکستان سے جدا کرنے والی ڈیورنڈلائن کو پٹھانوں کو خنجر سے، تقسیم کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ یہ بتانے سے اگرچہ اس نے گریز کیا کہ بھارت خود ڈیورنڈ لائن کے بارے میں کیا محسوس کرتا ہے۔ اس کے بارے میں جو خاموشی اختیار ہوئی وہ واضح انداز میں عندیہ دے رہی تھی کہ طالبان وزیر خارجہ کودورئہ بھارت کے دوران ڈیورنڈ لائن، کی مخالفت کو اُکسایا گیا ہوگا۔

بات فقط ڈیورنڈ لائن تک ہی محدود نہیں رہی۔ طالبان وزیر خارجہ نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران یہ انکشاف بھی کیا کہ بھارتی عہدے داروں سے ملاقات کے دوران یہ فیصلہ ہوا ہے کہ افغانستان اور بھارت باہم مل کر امریکا سے مطالبہ کریں گے کہ وہ چاہ بہار بندرگاہ کی توسیع پر بھارتی سرمایہ کاری پر لگائی پابندیاں ختم کردے۔ متقی کو یقین تھا کہ افغانستان کو عالمی تجارت کے لیے پاکستان کی بندرگاہوں کا متبادل فراہم کرنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ چاہ بہار کے حوالے سے اپنائے فیصلے پر نظرثانی کو آمادہ ہوجائے گی۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran