Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Afghan Wazir e Kharja Ke Liye Bharti Darul Uloom Deoband Ki Dastar e Fazilat

Afghan Wazir e Kharja Ke Liye Bharti Darul Uloom Deoband Ki Dastar e Fazilat

یہ محض اتفاق نہیں کہ طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی بھارت کے دارالحکومت میں وہاں کی وزارت خارجہ اور دیگر محکموں کے اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں کے بعد اس ملک کے صوبہ یوپی میں قائم دارالعلوم دیوبند پہنچے۔ آج سے تقریباََ دس برس قبل ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے مشیر برائے قومی سلامتی اجیت دوول نے ان دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ایک کلپ کے ذریعے پاکستان سے نبردآزما ہونے کے لئے طالبان کی اہمیت کا برملا اعتراف کیا تھا۔ طالبان کی بھارت کے جنگی عزائم کے تناظر میں اہمیت کو تسلیم کرنے کے بعد اجیت دوول نے یہ انکشاف کرنے میں بھی جھجھک کا مظاہرہ نہ کیا کہ دلی طالبان سے براہ راست رابطہ کی بجائے دیوبند کو ان سے روابط استوار کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہے گا۔

جس کلپ کا میں حوالہ دے رہا ہوں اسے دس برس قبل بھی غور سے سنا تھا۔ اس کے بعد ایک دو کالموں میں یہ عرض کرنے کی کوشش کی تھی کہ بھارت افغانستان میں اپنےStrategic(تزویراتی) مفادات کے حصول کے لئے فقط اشرف غنی حکومت ہی پر انحصار نہیں کرے گا۔ دارالعلوم دیوبند کی بدولت اس نے طالبان سے بھی روابط قائم کررکھے ہیں۔ ان روابط کا اگرچہ برملا اظہار اس لئے نہیں کیا جارہا کیونکہ فی الوقت اشرف غنی حکومت کا ساتھ دینا اس کی مجبوری ہے۔

میرا اس ضمن میں دوسرا کالم چھپا تو ہمارے ایک مذہبی رہنما مجھ سے ناراض ہوگئے۔ "بالآخر سرخے ہی نکلے" کا طعنہ دیتے ہوئے انہوں نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ دارالعلوم دیوبند فقط ایک "مذہبی" درسگاہ ہے۔ اس کے مدارالمہام مذکورہ ادارے کو کسی سیاسی مقصد کے لئے استعمال ہونے نہیں دیں گے۔ فرض کیا بھارت کو طالبان سے روابط کے لئے "دیوبند" نظریات رکھنے والے اہم رہ نما?ں کی ضرورت پڑی تو جمعیت العلمائے اسلام ہند سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ ان سے رجوع بھی تاہم نریندر مودی کی حکومت کے لئے ممکن نہیں کیونکہ وہ ہندوتوا کے فروغ کی بدولت کسی بھی نظریے کے حامل بھارتی مسلمان کو "دشمن" بناچکا ہے۔

مجھ جاہل کو مذکورہ صاحب نے یہ بھی یاد دلایا کہ سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کے دوران بھارت ہمیشہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ببرک کارمل اور ڈاکٹر نجیب کی حکومتوں کی حمایت میں ووٹ ڈالتا رہا ہے۔ سوویت افواج کے انخلاء کے بعد ڈاکٹر نجیب اور بعدازاں"مجاہدین" اور خصوصاََ برہان الدین ربانی کی حکومت کے ساتھ اس کا رویہ دوستانہ رہا۔ میری سرزنش کرنے والے صاحب طیش کے عالم میں میری یادداشت پر بھی سوال اٹھاتے رہے۔ درشت لہجے میں یاد دلایا کہ 24دسمبر1999ء کو بھارت کے لئے نیپال سے اڑے ایک جہاز کو پاکستان کی ایک کالعدم مذہبی انتہا پسند تنظیم نے اغواء کرلیا تھا۔ امرتسر، لاہور اور دوبئی میں کچھ عرصہ ٹھہر کر اغواء شدہ جہاز بالآخر افغانستان کے شہر قندھار پہنچا۔

جہاں بھارتی جیل سے طویل برسوں سے قید تین کشمیری انتہاپسندوں کی رہائی کے عوض اغواء شدہ جہاز بھارتی حکومت کو مسافروں سمیت لوٹادیا گیا۔ مجھ سے گفتگو کرنے والے صاحب مصر تھے کہ مذکورہ جہاز اغواء کرنے والے دیوبند مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ "بھارتی حکومت دیوبند سے رابطہ کرتے ہوئے لہٰذا سوبار سوچے گی"۔ اپنی ڈانٹ ڈپٹ میں نے خاموشی سے برداشت کرلی۔ اپنی ذلت کا بدلہ اتارنے کے لئے یہ اطلاع دینے سے گریز کیا کہ طالبان سے بھارت کا اغواء شدہ طیارہ بازیاب کرنے کی حکمت عملی تیار کرتے ہوئے بھارتی ریاست کا کونسا کارندہ دارالعلوم دیوبند سے مسلسل رابطے میں تھا۔ ایک بھارتی صحافی کی معرفت مجھے ان روابط سے کامل آگہی میسر تھی۔

دارالعلوم دیوبند کا قیام 1866ء میں لایا گیا تھا۔ "احیاء اسلام" اس کا مشن تھا۔ برطانوی سامراج نے "تقسیم کرو-حکومت کرو" کا رویہ اختیار کرتے ہوئے اس مدرسے کے قیام میں رکاوٹ نہ ڈالی حالانکہ اس کے بانیوں میں ایسے علمائے حق بہت نمایاں تھے جنہوں نے برطانوی استعمار کے خلاف مزاحمت کی بھاری قیمت ادا کی تھی۔ 1857ء کے "غدر" کے بعد برطانوی سامراج بھارتی مسلمانوں کو "مہذب" بنانے کو آمادہ نہیں تھا۔ وہ مصر تھا کہ مسلمان بالآخر پورے بھارت کو انگریز سے آزاد کروانے کے بعد وہاں مسلمان سلطانوں کی حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ مسلمان انگریزی تعلیم کو بھی گناہ تصور کرتے ہوئے اس سے دور رہا کرتے تھے۔ دیوبند کا قیام لہٰذا اس دور کی برطانوی سوچ کے لئے "خطرناک" نہ تھا۔

سرسید احمد خان نے مگر انگریز کی مکاری کو ہوشیاری سے بھانپتے ہوئے 1875ء میں یوپی ہی کے علی گڑھ میں محمڈن اینگلو-اورینٹل کالج کی بنیاد ڈالی جو بعدازاں 1920ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کہلائی۔ اس کالج سے فارغ التحصیل طلبہ ہی نے اس تحریک کو توانا بنانے میں اہم کردار ادا کیا جو مسلمانوں کے لئے ایک جدا مملکت کی خواہش مند تھی۔ دیوبند اور علی گڑھ لہٰذا دومختلف سماجی رویوں اور سیاسی ترجیحات کی علامتیں ہیں۔ میں اَن پڑھ اس قابل نہیں کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو درست یا غلط ٹھہراسکوں۔ دیوبند کی بالاتر سوچ البتہ قیام پاکستان کو برصغیر کے مسلمانوں کی تقسیم کے مسادی تصور کرتی رہی۔ اس کے اکابرین کا ایک حلقہ اگرچہ پاکستان کے قیام کے بعد اسے "اسلامی ملک" بنانے کی کاوشوں میں مصروف ہوگیا۔

بہرحال ذکر طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان کے دورہ دیوبند کا ہورہا تھا۔ وہاں پہنچ کر موصوف نے باقاعدہ "دارالحدیث" میں امتحان دیا۔ مولانا عبدالقاسم نعمانی نے ان سے چند سوالات پوچھے۔ جو سوالات پوچھے گئے میرے پاس آئی ویڈیو میں سنائی نہیں دے رہے تھے۔ امیر خان متقی مگر اعتماد سے ان کے جوابات دیتے نظر آئے۔ امتحان ختم ہوا تو انہیں دستارِ فضیلت پہنائی گئی۔ بھارت کے ایک اردو اخبار کے مطابق حدیث کی سند مل جانے کے بعد امیر خان متقی اب اپنے نام کے ساتھ "قاسمی" کا لقب لگانے کے بھی حقدار ہوگئے ہیں۔

"قاسمی" کہلوانے کے حقدار ہونے کے بعد امیر خان متقی دیوبند سے دلی لوٹے تو وہاں ایک اور پریس کلب سے خطاب کا فیصلہ کیا۔ اب کی بار جو پریس کانفرنس ہوئی اس میں بھارت کی خاتون صحافیوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ پاکستان کے بارے میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات کو ہوئی پاک-افغان جنگی جھڑپوں کے حوالے سے موصوف نے فرمایا "پاکستانی عوام، سیاستدان اور حکومت کے بیشتر افراد افغانستان کے ساتھ امن کے خواہاں ہیں۔ تاہم پاکستان کے چند مخصوص حلقے ایسے ہیں جو حالات کو خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ " پاکستان کے "چند مخصوص حلقوں" سے ناراض سنائی دیتے ہوئے بھی امیر خان متقی اس خواہش کو دہراتے رہے کہ افغانستان اور بھارت کے مابین باہمی تجارت "واہگہ بارڈر" کے راستے ممکن بنائی جائے۔ ان کا یہ اصرار بھی رہا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین جنگ کو مزید پڑھنے سے "قطر اور سعودی عرب "روک پایا ہے۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اگرچہ اس ضمن میں کابل میں بیٹھ کر تمام تر کریڈٹ قطر کو دیتے رہے ہیں۔ امن کی توقع کے باوجود مختلف افغان X اور سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارموں کے ذریعے ایسی کلپس آپ لوڈ کرتے رہے جن میں افغان فوج مختلف مقامات پر "فاتح" کی صورت پیش کی جارہی تھی۔

پاک-افغان جنگی جھڑپیں فی الوقت میرا موضوع نہیں۔ توجہ دارالعلوم دیوبند پر مرکوز رہی ہے اور اس کے ذریعے مودی کی ہندوتوا سرکار کی طالبان کی "اسلامی حکومت" سے تعلقات زیر بحث لانے تک ہی محدود رہا ہوں۔ فکری اعتبار سے فیصلہ تو کرنا ہوگا کہ بالآخر 19ویں صدی میں بھارت کے صوبے یوپی میں قائم ہوئے دو "علمی" مراکز میں سے بالآخر کس کی پھیلائی سوچ 2025ء میں ہمارے خطے پر راج کرتی نظر آرہی ہے۔ برائے مہربانی "خطے" پر غور کرتے ہوئے یہ نہ بھولیے گا کہ جنوبی ایشیاء کہلاتے دنیا کے اس حصے میں کابل کے علاوہ آج کا ڈھاکہ بھی شامل ہے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran