Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Apni Zameenen Wapis Lene Ke Liye Be Qarar Darya e Ravi

Apni Zameenen Wapis Lene Ke Liye Be Qarar Darya e Ravi

ایک حوالے سے دیکھیں تو بات بہت سادہ ہے اور وہ یہ کہ پانی سے بھرے ہوئے برتن میں آپ مزید پانی ڈالیں گے تو وہ برتن سے باہر نکل کر زمین پر پھیل جائے گا۔ گزشتہ چند دنوں سے ہم جس سیلاب کو بھگت رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ بھارتی صوبہ ہماچل پردیش اور مقبوضہ جموں وکشمیر کے جموں میں ہوئی ریکارڈ توڑ بارشیں ہیں۔ ان بارشوں کی وجوہات پر غور کرنے کے بجائے سوشل میڈیا پر بحث یہ شروع ہوگئی کہ دریائے راوی کے پیٹ میں بنی، عمارتوں کی وجہ سے آئے سیلاب کا حقیقی ذمہ دار کون ہے؟ عمران خان کے لگائے عثمان بزدار کی پنجاب گورنمنٹ یا موجودہ وزیر اعلیٰ۔

سوشل میڈیا کے بیشتر ساتھی حق وصداقت کے علمبردار ہیں۔ ان کی نگاہ میں مجھ جیسے کمی کمین صحافی سیٹھ میڈیا، کی غلامی کے علاوہ حکومتوں سے بھی لفافے وغیرہ وصول کرتے ہیں۔ غالباً اسی باعث انھوں نے ایک میڈیا مالک کو لاہور کی تباہی، کا واحد ذمہ دار ٹھہرا کر خوب رونق لگائی۔ اس سوال پر غور کرنے کی زحمت ہی محسوس نہ کی کہ گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان 1960ء کی دہائی میں ہوئے سندھ طاس بیسن کی وجہ سے دریائے راوی کا فقط 15فیصد ہی وصول کررہا تھا۔ جو 15فیصد ہمارے ہاں آرہا تھا اسے بھی غلاظتوں سے بھرکر ہم نے گندے پانی کے جوہڑ میں تبدیل کردیا۔

راوی کو بھارت کے سپرد کرنے کے بعد آئی ہر حکومت کی ذمہ داری تھی کہ لاہور کے پھیلائو کو مناسب منصوبہ بندی کے بعد شدت سے روکنے کی کوشش کرتی۔ ایسا کرتے ہوئے یاد رکھا جاتا کہ شہروں کو دریاہی آباد رکھتے ہیں۔ نیویارک ہڈسن دریا کا محتاج ہے۔ لندن کی زندگی کو ٹیمز دریا رواں رکھتا ہے۔ اس حقیقت کو بھلاکر مگر لاہور کو مسلسل پھیلانے کی کوششیں جاری رہیں۔ لاہور کو مزید شاندار، دکھانے کے لیے بلکہ خشک ہوئے ر اوی کی فطری زمینوں، پر قبضے کے لیے روڈا کے نام سے ایک قانون بنایا گیا۔

لاہور ہائیکورٹ کے ایک جرأت مند جج جناب شاہد کریم صاحب نے اس منصوبے پر واجب سوال اٹھاکرپنجاب اسمبلی سے پاس کروائے راوی کو نیا شہر، بنانے والے قانون کو ختم کردیا۔ حکومت مگر سپریم کورٹ پہنچ گئی اور وہاں بہت ہی اصول پسند، مشہور ہوئے دو ججوں نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو مسترد کردیا۔ وہ دونوں صاحبان مذکورہ فیصلے کے بعد پراسرار انداز میں بنچ سے فارغ ہوچکے ہیں۔ حق وصداقت کے علمبردار میرے کسی ساتھی نے ان سے رابطے کی کوشش ہی نہیں کی۔ فقط یہ طے کرنے میں مصروف رہے کہ جس سیلاب نے لاہور کو چونکا دیا ہے اس کی ذمہ دار موجودہ حکومت ہے یا عمران خان کی سرپرستی میں قائم ہوا روڈا۔

حق وصداقت کے علمبرداروں کی جانب سے محض چند افراد پر توجہ مرکوز رکھنے کی وجہ سے ہم یاد نہیں رکھ پائے کہ سیلاب نے فقط لاہور کے دریاہی پر خوفناک دستک نہیں دی۔ دریائے ستلج کو بھی ہم راوی کی طرح بھارت کے سپرد کرچکے تھے۔ ہماچل پردیش میں ریکارڈ توڑ بارشوں کی وجہ سے مگر ستلج کے پانی کو ذخیرہ کرنے والے بھارتی بند مزید، کے قابل نہ رہے۔ قصور سے شروع ہوکر بہاولپور تک ستلج کے سیلاب نے جو تباہی مچائی اس کی شدت کا حقیقی معنوں میں ہم احساس ہی نہیں کرپائے ہیں۔

جموں کی ریکارڈ توڑ بارشوں نے وہاں سے 30کلومیٹر دور واقع سیالکوٹ کے علاوہ نارووال کے بے تحاشا دیہات میں قیامت خیز تباہی پھیلائی ہے۔ جموں کے نواح میں واقع یہ علاقے چاول پیدا کرنے کے مراکز شمار ہوتے ہیں۔ چاول کی جن فصلوں نے ہمیں غیر ملکی زرمبادلہ کماکر دینا تھا اب تباہ ہوچکی ہیں۔ چاول کی تباہی ان علاقوں کے کاشتکاروں کو آئندہ 4سے 5برس تک بدحال ومقروض رکھے گی۔ ان کی مشکل مگر ہم صحافیوں کی خاطر خواہ توجہ حاصل نہ کرپائی۔ سیلاب جیسی آفت کو بھی ہم میڈیا والوں نے چسکہ یاغیبت فروشی کے لیے ہی استعمال کیا ہے۔

میرے بچپن میں راوی ایک بھرپور دریا تھا۔ ہمارے محلے میں سال میں کم ازکم چار مرتبہ خبر آتی کہ کون سے گھر کا کون سا فرد دریا میں ڈوب کرمرگیا ہے۔ ہمارے گورنمنٹ کالج کی روئنگ کلب بھی تھی۔ میں اکثر و ہاں جاکر کشتی حاصل کرنے کے بعد ملاح کے بجائے خود چپو چلاتے ہوئے کامران کی بارہ دری تک پہنچنے کی کوشش کرتا۔ ایک بار بھی لیکن ازخود وہاں پہنچ نہ پایا۔ تھک کر خود کو ملاح کے سپرد کردیتا۔ دریں اثناء ہاتھوں میں چھالے تکلیف دینا شروع کردیتے۔ ان چھالوں سے نجات کے لیے دو سے تین دنوں تک گرم توے سے اترے پراٹھے کو مٹھیوں میں لینا پڑتا۔

غالباً اس کالم میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ میں اسلام آباد سے لاہور جانے کے لیے جی ٹی روڈ کو موٹروے پر ترجیح دیا کرتاتھا۔ آج سے تقریباً دس برس قبل شاہدرہ پل پہنچا تو آسمان مردار کھاتے پرندوں کے غول کی وجہ سے نظر نہ آیا۔ پل کے پاس بچے پلاسٹک کے تھیلوں میں گوشت کے لوتھڑے بیچ رہے تھے۔ اسے خرید کر لوگ صدقہ، کے لیے گوشت کو ہوا میں اچھالتے جن پر مردار خور پرندے حملہ آور ہوتے۔ یہ مناظر دیکھنے کے بعد میرے دل میں یہ خیال بیٹھ چکا ہے کہ زندہ دلان، کے نام سے مشہور ہوا شہر اب مردار خور، پرندوں کے ذریعے اپنا تعارف، کرواتا ہے۔

ذرا سنجیدگی سے سوچیں تو سندھ طاس معاہدے کو مرتب کرنے والے عاقلانِ کل، بھی اس حقیقت کو فراموش کر گئے کہ دریا کی بھی یادداشت ہوتی ہے۔ اس کا پانی کسی اور راستے سے بہنے کے لیے ہرگز آمادہ نہیں ہوتا۔ انسان کو مگر اپنی ذہانت، پر بہت مان ہے۔ راوی کو ہم نے بھارت کے حوالے کردیا تو اس نے مذکور دریا کے پانی کا رخ راجستھان کو سیراب کرنے کی طرف موڑنے کے لیے مادھوپور کے مقام پر جو بند بنایا وہ اب کی بار راوی کے آگے بے بس ہوگیا۔

2025ء میں نمودار ہوئی اس بے بسی کو دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ ہندوئوں کی مقدس کتاب رِگ وید، میں راوی کو اراوتی پکارا گیا ہے۔ اس کے کناروں پر، رِگ وید کے بقول، دس قبائل رہا کرتے تھے جو ایک دوسرے کے ساتھ دریا پر کامل قبضے کی جنگ میں مصروف رہتے تھے۔ ان پر قابو پانے کے لیے سوداس نامی بادشاہ نے دیوتا اِندر کی مددلی اور مقید دریا، کو آزاد کروایا۔

مذکورہ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے رِگ وید نے راوی کو مقید دریا، کہا۔ یہ ترکیب میری اختراع نہیں ہے۔ آج سے کئی برس قبل راوی کا رِگ وید میں ذکر یاد کرتے ہوئے کئی گھنٹوں سے مسلسل سوچ رہا ہوں کہ اب کی بار بھارت میں بنائے ڈیموں میں مقید، راوی کو کس نے آزاد کروایا ہے۔

بھارتی صوبے ہماچل پردیش کے کانگڑہ ضلع میں ڈلہوزی کی پہاڑیوں سے ریکارڈ توڑ بارشوں کی وجہ سے گرتے پانی کی تیزی اور شدت یہ سوچنے کو مجبور کررہی ہے کہ راوی اپنی زمین چھین جانے، سے خوش نہیں تھا۔ ان زمینوں پر قبضہ واپس لینے کو بے قرار تھا۔ اس کی بے قراری بالآخر اپنا مقصد حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہی ہے۔ یہ سوال اگرچہ اپنی جگہ برقرار ہے کہ خود کو عقلِ کل، تصور کرتے انسان دریا کی یادداشت اور بے قراری کے ادراک کو آما دہ ہیں یا نہیں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran