10 نومبر 2025ء کی سہ پہر دلی کے لال قلعہ کے سامنے والی سڑک پر ایک کار بم دھماکہ ہوا۔ اس کا ذمہ دار کشمیر سے دلی کے نواحی شہر فرید آباد میں ملازمت کے لئے آیا ایک ڈاکٹر ٹھہرایا گیا۔ کہانی یہ بتائی گئی کہ مذکورہ ڈاکٹر اپنے ہی ہم پیشہ کچھ افراد کے ساتھ مل کر جن کی اکثریت کشمیر سے ملازمت کے لئے دلی ہریانہ اور یوپی کے شہروں میں رزق کمانے آئی تھی ایک "دہشت گرد" گروہ کا رکن تھا۔
مبینہ گروہ نظر بظاہر مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی غلامی سے آزاد کروانے کے منصوبے نہیں بنارہا تھا۔ اس کا مین ہدف "کفر کے مرکز(بھارت)" کے بڑے شہروں میں نائن الیون نوعیت کے بم دھماکوں کے ذریعے خوف وہراس پھیلانا تھا۔ اس گروہ کے اہم کارندوں کا دس نومبر سے چند ہی روز قبل سراغ لگالیا گیا۔ اس کے دوکارندے مقبوضہ کشمیر میں گرفتار ہوئے۔ دورانِ تفتیش انہوں نے اپنی تنظیم کے بقیہ اراکین کی بھی بھارتی حکومت کے دعوؤں کے مطابق نشان دہی کردی۔ ان ذرائع کا ذکر بھی کردیا جن سے بم تیار کرنے والا مواد خریدا یا حاصل کیا گیا تھا۔
جس بارودی مواد کا ذکر ہوا وہ ہریانہ کے مختلف قصبوں سے اکٹھا کیا گیا۔ ہریانہ سے اسے دلی کے قریب واقع فرید آباد شہر پہنچادیا گیا جہاں خیراتی ڈسپنسری سے شروع کرکے چند مسلمانوں نے بالآخر مخیر حضرات کی مدد سے 70ایکڑ تک پھیلا الفلاح ہسپتال قائم کیا تھا۔ یہ خیراتی ہسپتال فقط مسلمانوں کے علاج کے لئے مختص نہیں تھا۔ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا غریب شخص اپنی بساط کے مطابق وہاں مفت یا سستا علاج کرواسکتا تھا۔ وہاں کام کرنے والے ڈاکٹروں کی اکثریت اگرچہ مسلمانوں پر مشتمل تھی جن میں سے دس سے کم افراد مقبوضہ کشمیر سے بھی آئے تھے۔ مقبوضہ کشمیر سے آئے تقریباََ تمام ڈاکٹروں کو البتہ اس "دہشت گرد" تنظیم سے نتھی کردیا گیا جو بھارت کے بڑے شہروں میں مبینہ طورپر نائن الیون جیسے واقعات کے ارتکاب کے منصوبے بنارہی تھی۔ مذکورہ تنظیم کے سرکردہ افراد اور ان سے بارودی مواد بازیاب کرنے کے لئے چھاپوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ چھاپوں کی خبر سن کر فرید آباد کے ہسپتال میں کام کرنے والا ایک کشمیری نڑاد ڈاکٹر عمر نبی اپنے پاس جمع ہوئے بارودی مواد کو گھبراہٹ میں فریدآباد سے کسی دوسرے شہر منتقل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ بارودی مواد کی منتقلی کی خاطر وہ دلی کے لال قلعہ کے سامنے واقع سڑک پر نصب ٹریفک کو رواں رکھنے کے لئے لگائے سگنل تک پہنچا تو اس کی گاڑی میں موجود مواد (اب تک) نامعلومات وجوہات سے پھٹ گیا۔ ڈاکٹر عمر نبی کے علاوہ دھماکے سے 15کے قریب مزید افراد بھی جائے وقوعہ پر ہلاک ہوگئے۔
لال قلعہ کے باہر ہوئے دھماکے کے بعد بھارت کے سکیورٹی اداروں نے نہایت وحشت سے اس کے ذمہ داروں کا سراغ لگایا۔ فرید آباد کے الفلاح ہسپتال کے تقریباََ ہر ڈاکٹر کو مشکوک ٹھہرادیا گیا۔ اس کا چپہ چپہ اکھاڑ پچھاڑ کر تفتیش کی چھلنی سے گزارا گیا۔ غیر مصدقہ خبریں یہ بھی دعویٰ کررہی ہیں کہ الفلاح ہسپتال کو "عبرت کا نشان" بنانے کی خاطر اس کی عمارت کو بھی بارودی مواد سے اڑادیا گیا ہے۔ مذکورہ خبر کی تصدیق مجھ سے ہو نہیں سکی ہے۔ ڈاکٹر عمر نبی کے سری نگرکے قریب واقع ایک قصبہ کو دھماکہ خیز مواد سے البتہ یقینی طور پرملیامیٹ کردیا گیا ہے۔
دس نومبر کے بعد بھارتی سکیورٹی اداروں نے مسلمان اور خصوصاََ کشمیری ڈاکٹروں کے خلاف جس نوعیت کی کارروائیاں کی ہیں ان کے بعد مجھے گماں ہوا کہ دنیا میں آبادی کے اعتبار سے چین کو پیچھے چھوڑ جانے والا بھارت اب اپنے سکیورٹی کے معاملات کے بارے میں خود اعتماد محسوس کررہا ہے۔ اس کی خوداعتمادی اس وجہ سے بھی ثابت ہورہی تھی کہ دسمبر میں روس کے صدر پوٹن بھارت کے "تاریخی دورے" کے لئے اس ملک آرہے ہیں۔ 1947ء میں برطانیہ کے جنوبی ایشیاء سے رخصت ہوجانے کے بعد سے روس اور بھارت ایک دوسرے کے نہایت قریبی دوست بن چکے ہیں۔ 1962ء میں چین-بھارت جنگی جھڑپوں کے بعد ان دو ممالک کے مابین قربت کے رشتے مزید گہرے ہوئے۔ رشتوں کی یہ گہرائی بالآخر 1970ء میں دونوں ممالک کے درمیان 20سالہ باہمی دفاع کے معاہدے پر منتج ہوئی۔ اس کے نتیجے میں اندرا گاندھی کی حکومت مشرقی پاکستان کو فوجی حملے کے بعد بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے کے قابل ہوئی۔
سردجنگ کے خاتمے کے بعد حالات مگر بدل چکے ہیں۔ سوویت یونین سکڑ کر روس بن گیا ہے۔ رواں صدی کے آغاز سے ہر امریکی حکومت بھارت کو چین کے مقابلے کی قوت بنانے کو بے چین رہی ہے۔ 1947ء سے اپنائی روایات کی وجہ سے اگرچہ بھارت اپنے جنگی سازوسامان کی بھاری بھر کم تعداد آج بھی روس سے خریدتا ہے۔ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد اس نے ماسکو سے خام تیل بھی بے تحاشہ سستے داموں خریدنا شروع کردیا۔ اسے اپنے ہاں قائم ہوئی ریفائنریوں میں صاف کرنے کے بعد وہ اپنی ضرورت سے زیادہ تیل اور ڈیزل یورپی ممالک کو بیچنا بھی شروع ہوگیا۔ روسی تیل کی خریداری نے امریکی صدر کو اپنے "دوست" نریندر مودی سے ناراض کردیا۔ مودی مگر ڈٹا ہوا ہے۔ روس اور بھارت کے تعلق پر نگاہ رکھنے والے مصر ہیں کہ آئندہ ماہ ہونے والے دورے کے دوران روسی صدر بھارت کو جدید ترین دفاعی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کا اعلان بھی کرے گا۔
روس کے علاوہ ایک اور ملک اسرائیل بھی ہے۔ رواں صدی کے آغاز میں جب پیشہ وارانہ فرائض کی خاطر میں نے سال کے چھ ماہ بھارت میں رہتے ہوئے رپورٹنگ شروع کی تو احساس ہوا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی پر قابو پانے کے لئے اسرائیل کی اس حکمت عملی سے رجوع کررہا ہے جو اس نے فلسطین کی آزادی کی تحریک دبانے کے لئے استعمال کی ہے۔ اس کے علاوہ وہ اسرائیل سے جدید ترین جاسوسی آلات اور خودکار میزائل خریدنے میں بھی مصروف تھا۔ اسرائیل کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات کی میں نے دلی میں موجود ہونے کی وجہ سے تفصیلی رپورٹنگ کی۔
پوٹن کے علاوہ دسمبر ہی میں اسرائیل کا وزیر اعظم بھی بھارت کا دورہ کرنے کے اعلان کرچکا تھا۔ آج سے دودن قبل مگر اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر نے "سکیورٹی خدشات" کا ذکر کرتے ہوئے مذکورہ دورہ کچھ عرصے کے لئے مؤخر کردیا ہے۔ اس اعلان کے ساتھ کہ اسے بھارت کے سکیورٹی اداروں کی صلاحیتوں پر کامل یقین ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ اگر بھارت میں غیر ملکی سربراہان کو واقعتا سکیورٹی خدشات لاحق ہیں تو روسی صدر اس سے آگاہ کیوں نہیں؟ روس کی بھارت کے اہم ترین حلقوں تک رسائی اسرائیل سے کہیں زیادہ دیرینہ ہے۔ "خام سکیورٹی" کی بھنک روسی صدر کو اسرائیلی وزیر اعظم سے بہت پہلے مل جانا چاہیے تھی۔
یاد رہے کہ دیگر حیلے بہانے اختیار کرتے ہوئے اسرائیل کا وزیر اعظم اپریل اور ستمبر میں بھارت کا دورہ مؤخر کرچکا ہے۔ اب کی بار "سکیورٹی خدشات" کا ذکر کرتے ہوئے درحقیقت بھارت کے اس بیانیے کی تصدیق فراہم کی جارہی ہے کہ بھارت کے مسلمان بھارت کے بڑے شہروں میں نائن الیون جیسے واقعات کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ اسرائیل کے وزیر اعظم ان کے تیار کردہ "تخریبی گروہوں " کا خصوصی نشانہ ہوسکتے ہیں۔
1990ء کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی ہر کشمیری مسلمان کو بلااستثناء ممکنہ "دہشت گرد" بناکر دنیا کے آگے رکھا گیا۔ اب بھارت کے ہر مسلمان کو "دہشت گردی" کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اگرچہ بھلادیا گیا ہے کہ افغانستان کے طالبان کے ساتھ تعلقات اپنے رشتے گہرے کرنے کو بے چین ہے۔ طالبان کے بجائے اب بھارتی مسلمانوں میں سے "دہشت گرد" ڈھونڈے جا رہے ہیں۔