Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Bharat Ke Sar Para Haseena Wajid Ka Bojh

Bharat Ke Sar Para Haseena Wajid Ka Bojh

یہ بات تو طے ہے کہ بھارت میں مودی ہی نہیں کسی اور شخص کی حکومت بھی حسینہ واجد کو کبھی بنگلہ دیش کے حوالے نہیں کرے گی۔ اگست 2024ء میں اپنے خلاف احتجاج سے گھبرا کر بھارت میں پناہ گزین ہوئی سابق وزیر اعظم بنگلہ دیش کو پیر کے روز جو سزائے موت سنائی گئی ہے اس پر عملدرآمد ہونے کا امکان لہٰذا نظر نہیں آرہا۔ موصوفہ کو جلاوطنی ہی میں فطری موت کا انتظارکرنا ہوگا۔ وسیع تر تناظر میں اگر دیکھیں تو معاملہ فقط اس کی ذات تک ہی لیکن محدود نہیں ہے۔

حسینہ واجد کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد سے جس سوال پر میرا ذہن اٹک گیا ہے وہ جاننا چاہتا ہے کہ خود کو "احساسِ محرومی" کا شکار دکھا کر "محکوم ومظلوم" دکھائی دینے والے جب خود اقتدار میں آتے ہیں تو اپنے ہی لوگوں پر ظلم ڈھانے کی آخری حدوں تک کیوں پہنچ جاتے ہیں۔ حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب الرحمن نے 1965ء کی پاک-بھارت جنگ کے بعد لاہور میں ہوئی اپوزیشن جماعتوں کے ایک اجلاس میں "چھ نکات" کا اعلان کیا تھا۔ نظر بظاہر یہ ان دنوں کے مشرقی پاکستان کے لئے زیادہ سے زیادہ صوبائی خودمختاری یقینی بنانا چاہتے تھے۔ ان کی اپنی جماعت- عوامی لیگ- کے ایک اہم رہ نما نوابزادہ نصراللہ خان نے ان نکات کی شدید مخالفت کی اور بعدازاں پاکستان میں مختلف مزاحمتی تحریکوں کی قیادت کرنے کی بدولت بابائے جمہوریت بھی کہلائے۔

1966ء کے غالباََ فروری یا مارچ میں 6نکات عیاں ہوئے تو میں سکول کا طالب علم تھا۔ ہمارے محلے کی بے پناہ اکثریت ان نکات کانفرت سے ذکر کرتی۔ بنگالیوں کو ان کی وجہ سے "احسان فراموشی" کے طعنے دئیے جاتے کیونکہ تقریباََ ہر برس ان کے ہاں سیلاب آتا تولاہور کے مختلف مقامات پر بنگالی سیلاب زدگان کی مدد کے لئے کیمپ لگائے جاتے تھے۔ محلے کے بزرگوں سے یہ بھی سنا کہ بنگالی "اچھے مسلمان" نہیں۔ وہاں کے تقریباََ ہر سکول پر ہندواستاد قابض ہیں جو اپنے طلباء کے دل ودماغ میں نصاب سے "ہٹ "کر پاکستان سے نفرت وعلیحدگی کے جذبات بٹھاتے ہیں۔ بنگالی عورتوں کی ساڑھی پردے کے "اسلامی" اصولوں کے منافی تصور ہوتی۔ کسی ایک بنگالی کو ذاتی طورپر چند لمحوں کے لئے بھی ملے بغیر میں پرائمری سے مڈل تک بڑھتے ہوئے بنگالیوں کو "ناپختہ پاکستانی" تصور کرنے کو مجبور ہوگیا۔

کچھ برس بعد پاکستان کے پہلے فوجی آمر ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوگئی۔ اس سے مجبور ہوکر سابق صدر نے گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے اپوزیشن جماعتوں کو دعوت دی۔ شیخ مجیب الرحمن ان دنوں "اگرتلہ سازش" کے نام پر بنائے ایک مقدمے کا سامنا کررہا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ بھارتی سرحد کے قریب واقعہ اگرتلہ کے مقام پر اس نے دلی سے آئے چند جاسوسوں سے مل کر پاکستان توڑنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اپوزیشن کے اہم رہنمائوں نے جن میں پنجاب میں مسلم لیگ کے ایک اہم دھڑے کے سربراہ میاں ممتاز دولتانہ نمایاں تھے اس وقت تک ایوب خان کی بلائی کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا جب تک مجیب الرحمن کو جیل سے نکال کر وہاں بٹھائے جانا یقینی نہیں بنایا جاتا۔ ایوب خان اس پر آمادہ ہوگئے۔ مذکورہ کانفرنس میں شرکت سے البتہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کے ایک مقبول ترین بنگالی رہ نما مولانا بھاشانی اور ان کی نیشنل عوامی پارٹی نے انکار کردیا۔

ان دنوں میں طلباء سیاست میں متحرک ہوچکا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی پیپلز پارٹی کے نظریات اچھے لگتے تھے۔ ایوب خان کی بلائی کانفرنس میں شرکت سے انکار بھی میرے نوجوان ذہن کو "انقلابی" لگا۔ اس کے باوجود لاہورکے ناصر باغ میں منعقد ہوئے جلسے میں شرکت کیلئے تجسس کے جذبات سے مغلوب ہوکر چلا گیا جہاں شیخ مجیب نے خطاب کرنا تھا۔ اس کے تقریر کے لئے کھڑے ہوتے ہی مگر نوجوانوں کے ایک گروہ نے غل غپاڑہ مچادیا۔ مجمع میں سے کسی شخص نے "جماعت اسلامی" کی آواز لگائی۔ مجیب نے اسے سنتے ہی اردو میں کہا کہ اسے علم ہے کہ "(مولانا) مودودی" نے میری تقریر روکنے کے لئے "کچھ غنڈے بھیجے ہیں "۔ یہ کہنے کے بعد غصے سے بھنبھناتے ہوئے اس نے نفرت سے بھرپور چہرے کے ساتھ اعلان کیا کہ "آئندہ مودودی" کو ڈھاکہ میں جلسہ کرنے کیلئے مجھ سے اجازت لینا ہوگی۔ یہ اعلان کرنے کے بعد وہ سٹیج چھوڑ کر چلا گیا۔

ایوب خان کے ساتھ ہوئی گول میز کانفرنس ناکام ہوگئی۔ اس کی وجہ سے جنرل یحییٰ کا مارشل لاء لگا۔ نئے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے 1970ء میں پہلی بارپاکستان میں بالغ رائے دہی کے تحت ون مین- ون ووٹ کی بنیاد پر عام انتخابات کا اعلان کردیا۔ مذکورہ انتخابات کی مہم چلانے جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی ڈھاکہ گئے تو وہاں کے پلٹن میدان میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے وہ جلسہ نہ ہونے دیا۔ اس کے بعد مغربی پاکستان سے بھٹو سمیت چند ہی رہ نما مشرقی پاکستان میں انتخابی مہم چلانے کی ہمت دکھاسکے۔ مشرقی پاکستان کو گویا عملی انتخاب سے کئی ماہ قبل ہی شیخ مجیب کے سپرد کردیا گیا تھا۔

اسی باعث دسمبر1970ء کے انتخاب کے نتیجے میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے لئے مختص نشستیں (تقریباََ 150)میں سے دو کے سوا تمام کی تمام جیت لیں۔ انہیں جیت لینے کے بعد مجیب اور اس کی عوامی لیگ نے اقتدارکی منتقلی کا تقاضہ شروع کردیا۔ یحییٰ حکومت کے علاوہ آج کے پاکستان اور 1970ء کے "مغربی پاکستان" سے چند مستثنیات کے علاوہ تقریباََ تمام سیاستدان 6-نکات والی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کو تیار نہیں تھے۔

مجیب الرحمن کے ساتھ مذاکرات کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ کئی دور ہوئے جو مغربی پا کستان میں اکثریتی جماعت کی صورت ابھری تھی۔ ان مذاکرات کا مقصد مجیب الرحمن سے 6-نکات کے حوالے سے ایسی لچک کا حصول تھا جو مغربی اور مشرقی پاکستان کو ایک ملک کی صورت برقرار رکھنا یقینی بنائے۔ مجیب نے لچک دکھانے سے انکار کردیا۔ اس کے نتیجے میں فوجی آپریشن ہوا جس کے انجام پر بھارت کی کھلی فوجی مداخلت کی مدد سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔

ایمان داری کی بات ہے کہ نوجوانی کی خام خیال" اصولی پسندی" کی وجہ سے میں دوستوں کے قریبی حلقوں میں مصر رہتا کہ 1970ء کا انتخاب واضح انداز میں جیتنے کے بعد شیخ مجیب پورے پاکستان کا منتخب حاکم ہونے کا حق دار تھا۔ ہم نے اس کا حق نہ دیا اور ملک کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شیخ مجیب مگر پاکستان کی فیصل آباد جیل سے رہا ہوکر اپنے ملک پہنچا تو اقتدار مستحکم کرنے کے چند ہی ماہ بعد اپنے ملک میں تمام عمر پارلیمانی نظام کی بالادستی کے لئے جدوجہد کرنے کے باوجود صدارتی نظام کا نفاذ کردیا اور خود کو ایک طاقتور صدر بنانے کی کوششیں شروع کردی۔

اپنے ملک میں عوامی لیگ کو اس نے واحد سیاسی پارٹی کی شکل دینا چاہی۔ طویل خانہ جنگی اور پاک-بھارت جنگ کے نتیجے میں تباہ ہوئی معیشت کو سنبھالنے کے بجائے اس نے ذاتی اقتدار کو بادشاہی کی صورت دی۔ مجیب کی نگرانی میں اٹھائی فوج کے افسروں میں اس کی وجہ سے غصہ کے رحجانات ابھرے جن کے نتیجے میں "بابائے قوم" (شیخ مجیب)کو اس کے گھر میں وہاں مقیم خاندان سمیت باغی فوجیوں نے قتل کردیا۔ حسینہ واجد وہاں موجود نہ ہونے کی وجہ سے بچ گئیں۔

اپنے باپ کے قتل کے بعد حسینہ واجد کو جبلی طورپر بہت کچھ سیکھ لینا چاہیے تھا۔ "بدلہ" مگر اس کا واحد اور حتمی ہدف رہا۔ 2014ء سے وہ مسلسل تین بار وزیر اعظم منتخب ہوتی رہی۔ اس کا آخری انتخاب مگر ہر حوالے سے متنازعہ تھا۔ اس کے باوجود وہ بنگلہ دیش کو صرف عوامی لیگ کے ماتحت چلائے ملک میں بدلنے کو بے تاب رہی۔ اپنے تمام مخالفین کو اس نے "پاکستان کے ایجنٹ" ٹھہراکر پھانسیوں پر لٹکانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ بدلہ کی آگ میں جھلستے ہوئے یہ حقیقت بھول گئی کہ اس کے ہاں 18سال کی عمر کو پہنچے بچے اور بچیاں پاکستان کے ساتھ اختلاف کی تاریخ سے قطعی بے خبر ہیں۔ وہ ماضی کے اسیر نہیں بلکہ اپنے مستقبل کے بارے میں امید کے امکانات دیکھنا چاہتے ہیں۔

ان امکانات کے حصول کے لئے وہ سڑکوں پر آئے تو 1400کے قریب نوجوانوں کو حسینہ واجد کے حکم پر بنگلہ دیش کی پولیس اور پیرا ملٹری فورسز نے براہ راست سروں پر گولیاں مارکر قتل کردیا۔ وہ قابو میں نہ آئے تو حسینہ نے فوج سے امداد طلب کی۔ اس کے لگائے آرمی چیف نے جو اس کا قریبی عزیز بھی ہے مگر انکار کردیا اور اسے بھارت فرار ہونا پڑا۔ اپنے ہاں پناہ دیتے ہوئے بھارت کو یہ حقیقت تسلیم کرلینا چاہیے کہ اگر وہ اپنے قریب ترین ہمسائے بنگلہ دیش کے ساتھ مستقبل میں واقعتا خوش گوار تعلقات کا خواہاں ہے تو اسے حسینہ واجد کے "بوجھ" سے کسی نہ کسی صورت آزاد ہونا پڑے گا۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran