Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Bharat Ki Taraf Se Dobara 1971 Musallat Karne Ka Khatra

Bharat Ki Taraf Se Dobara 1971 Musallat Karne Ka Khatra

میرے منہ میں خاک۔ نجانے کیوں مگر گزشتہ دو دنوں سے 1971ء یاد آئے چلاجارہا ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو تاریخ سے نفرت سکھادی گئی ہے جو ان کی دانست میں "چوروں اور لٹیروں" کو ہیروبناکر پیش کرتی ہے۔ سوشل میڈیا کی انسٹاگرام والی ایپ ویسے بھی جوانی کی حدوں میں داخل ہونے سے قبل ہی بچوں کو "لمحہ موجود" سے بھرپور انداز میں لطف اٹھانے کو اُکساتی ہے۔ انہیں محض ایک منٹ میں یہ دکھانا ہوتا ہے کہ وہ مثال کے طورپر فلاں لباس پہن کر کتنا خوش محسوس کررہے ہیں۔ "خوشی کے لمحات" سے لطف اندوز ہونے کے لئے ٹک ٹاک بھی ہے۔ قصہ مختصر نوجوانوں کو تاریخ بھلاکر زندگی سے انجوائے کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے تاکہ ان کے ذہن مجھ بڈھے جیسے "سٹریل مزاج" افراد کو نظرانداز کرنے کے قابل ہوجائیں۔

سوشل میڈیا پر توجہ دیں تو آپ بآسانی دریافت کرسکتے ہیں کہ حالیہ پاک-بھارت جنگ کے دوران مودی سرکار کی بڑھکوں کا مزاحیہ خاکوں وغیرہ سے پول کھول دینے کے بعد ہمارے لوگوں کی اکثریت اس حقیقت سے نا آشنانظر آرہی ہے کہ بھارتی پارلیمان میں منگل کے روز کھڑے ہوکر وزیر اعظم نریندر مودی نے رعونت سے اس نکتے پر زور دیا کہ پاکستان کے خلاف برپا کئے "آپریشن سندور"میں فی الوقت "وقفہ" آیا ہے۔ جنگ بندی کے باوجودیہ آپریشن اپنی جگہ برقرار ہے۔ پاکستان اور بھارت لہٰذا "حالت امن" میں نہیں۔ فیس بک یا ٹویٹر وغیرہ پر لیکن آپ اگر مذکورہ پہلو کو اجاگر کریں تو اسے دیکھنے والوں کی تعداد شاذہی ایک ہزار کی حد کراس کرتی ہے۔ بھارتی سوشل میڈیا میں لیکن اس موضوع پر برکھادت اور پالکی شرما جیسی اینکروں کی جارحانہ گفتگو ہزاروں افراد بہت توجہ سے سنتے اور لوگوں سے شیئر کرتے ہیں۔

میڈیا کا طالب علم ہوتے ہوئے مجھے گماں ہے کہ حالیہ پاک-بھارت جنگ کے دوران اپنے ازلی دشمن کی ہزیمت کے بعد ہم بحیثیت قوم پاک-بھارت تنازعہ کے بارے میں یہ سوچتے ہوئے غفلت برتنا شروع ہوگئے ہیں کہ ہم نے اپنے ازلی دشمن کو 87 گھنٹوں کی جنگ کے دوران بالآخر جنگ بندی پر رضا مندی کو مجبور کردیا۔ بھارت کے جدید ترین طیاروں کی تباہی نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا۔

امریکی صدر کی مصالحانہ کاوشوں نے بھی جنگ کے شعلوں کو مزید بھڑکانے سے بچانے میں حتمی کردار ادا کیا۔ اپنے تئیں ٹھوس وجوہات کسی حد تک جاننے کے باوجود پاک-بھارت تنازعہ کے بارے میں اپنے عوام اور خاص کر صحافی دوستوں کی اکثریت کی جانب سے اپنائی غفلت مجھے پریشان کررہی ہے۔ بدھ کی رات سے ہم مزید مطمئن اس وجہ سے بھی محسوس کررہے ہیں کہ امریکی صدر ٹرمپ نے بھارت سے اس کے ملک آنے والی اشیاء پر 25فی صد ٹیکس یاڈیوٹی لاگو کردی ہے۔ یہ ڈیوٹی لاگو کرتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ سے جو پیغام لکھا وہ بھارت کو "دوست" ٹھہرانے کے باوجود اس کی کڑے الفاظ میں دھنائی کرتا سنائی دیا۔ مذکورہ دھنائی ہی نے مجھے 1971ء کی یاد دلانا شروع کردی۔

"لمحہ موجود" کی لذتوں سے لطف اندوز ہوتی نوجوان نسل کو یاد دلانا ہوگا کہ 1971ء کے برس بھارت نے "مکتی با ہنی" کی پشت پناہی کے بعد بالآخراپنی افواج کو براہ راست ان دنوں مشرقی پاکستان کہلاتے پاکستانی حصے میں داخل کردیا۔ اس کی فوجی مداخلت کی بدولت بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔ سردجنگ کی وجہ سے دنیا ان دنوں امریکی اور روسی کمپنیوں میں منقسم تھی۔ پاکستان 1950ء کی دہائی سے امریکی کیمپ میں داخل ہوچکا تھا۔ بھارت "غیر جانبداری" کا ڈرامہ رچاتا رہا۔

مشرقی پاکستان پر حملہ آور ہونے سے قبل مگر اس نے ان دنوں سوویت یونین کہلاتے روس کے ساتھ باہمی دفاع اور سلامتی کا 25-سالہ معاہدہ طے کرلیا۔ یوں پاکستان توڑنے کے لئے روس کی مکمل پشت پناہی یقینی بنالی۔ ٹرمپ نے حال ہی میں بھارت پر جو سخت گیر پابندیاں عائد کی ہیں اس کی وجہ روس سے تیل کی خریداری کو بتایا گیا ہے۔ ٹرمپ نے تیل کے علاوہ بھارت کی جانب سے روس سے فوجی سامان خریدنے کا ذکر بھی کیا ہے۔

جو حقیقت ٹرمپ نے بیان نہیں کی وہ یہ ہے کہ بھارت میں روس نے بہت عرصہ قبل ایک ریفائنری لگارکھی ہے۔ ریفائنری قائم ہونے کے چند برس بعد بھارت کے ایک مشہور سیٹھ نے بھی اس کے قریب ایک اور ریفائنری تعمیر کرلی۔ ان دو ریفائنریوں کی وجہ سے روس کی یوکرین پر مسلط کردہ جنگ کی وجہ سے بائیڈن انتظامیہ نے عالمی منڈی میں روسی تیل کی فروخت پر پابندی لگائی تو یورپ کی طرف جاتے روس کے خام تیل سے لدے جہاز کھلے سمندر ہی سے بھارت کی طرف مڑنا شروع ہوگئے۔

بھارت میں قائم دونوں ریفائنریوں نے 24/7کام کرتے ہوئے خام تیل کی بھاری بھرکم تعداد کو صاف کرنے کے بعد اپنی ضرورت سے زیادہ تیل خصوصاََ ڈیزل کو "میڈ اِن انڈیا" قرار دے کر یورپ کو بیچنا شر وع کردیا۔ امریکہ کا خیال تھا کہ روس پر لگائی پابندیوں کے بعد اس کے یورپی "اتحادی" اپنی ضرورت کا تیل اب امریکی کمپنیوں سے خریدا کریں گے۔ یوں بھارت نے نہ صرف روس پر لگائی پابندیوں کو سبوتاڑ کیا بلکہ امریکی تیل کمپنیوں کو بھی ممکنہ منافع سے محروم کرنا شروع کردیا۔ میری دانست میں ٹرمپ کے بھارت پر غصے کی اصل وجہ یہ ہے۔

نظر بظاہر جو حقائق میں نے اب تک بیان کئے ہیں وہ 1971ء کی یاد دلانے کے لئے کافی نہیں۔ میں البتہ شارٹ کٹ سے کام لیتے ہوئے آپ کو یاد دلانے کو مجبور ہوں کہ بھارت کے روس سے دفاعی معاہدے سے چند ماہ قبل پاکستان نے امریکہ کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر ہنری کیسنجرکے چین کے "خفیہ دورے" کا بندوبست کیا تھا۔ صدر نکسن کے دور میں امریکہ -چین تعلقات کو گرم جوش بنانے میں کیسنجر کے پاکستان کی بدولت ہوئے وعدے نے اہم کردار ادا کیا۔ ہمیں گماں تھا کہ امریکہ کو چین کے قریب لانے میں کلیدی کردار ادا کرنے کی وجہ سے نکسن حکومت بھارت کو بنگلہ دیش بنانے سے روکنے کی کوشش کرے گی۔

کیسنجر اور نکسن نے اس ضمن میں زبانی کلامی کردار یقیناََ ادا کیا۔ ہونی کو مگر روکنے میں ناکام رہے۔ 2025ء میں ایک بار پھر روس اور بھارت ایک ہوئے نظر آرہے ہیں۔ چین اور امریکہ پاکستان کے قریب ہیں۔ تاریخ اگر خود کو دہراتی ہے تو پاکستان میں مودی سرکار ایک بار پھر 1971ء مسلط کرنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ خاص طورپر ان دنوں جب نریندر مودی اپنے عوام کو یہ سمجھانے میں قطعاََ ناکام ہورہا ہے کہ اگر وہ جنگ "جیت" رہا تھا اور جنگ بندی کے لئے ٹرمپ کو بھی خاطر میں نہیں لارہا تھا تو اس نے 6مئی سے 10مئی تک جاری رہی جنگ بالآخر بند کیوں کی؟

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran