تقریباً ہر دوسرے روز اخبارات میں وزیر اعظم پاکستان یا حکومت پاکستان کے کسی سینئر وزیر کے علاوہ اعلیٰ ترین سرکاری افسروں کی قیادت میں ہوئے اجلاس کی خبر تصویروں سمیت دیکھنے کو ملتی ہیں۔ حبس کے قیامت خیز دنوں میں برانڈڈ سوٹ پہنے اور بازار میں بکنے والی مہنگی ترین شفاف، پانی کی بوتلیں سامنے رکھے وہ اس سوال پر غور کرتے دکھائے جاتے ہیں کہ 25کروڑ کی حد کو چھونے والے پاکستانیوں کو Cashless Economyکی صورت کیسے راغب کیا جائے۔ اس سوال پر غور کرتے ہوئے یہ حقیقت بھلادی جاتی ہے کہ عالمی بینک نے گہری تحقیق کے بعد نتیجہ یہ نکالا ہے کہ ہماری تقریباً آدھی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسرکررہی ہے اور باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں۔
کیش لیس اکانومی، کا سیدھا سادا مطلب ہے کہ آپ کے ہاتھ میں موبائل فون آپ کا شناختی کارڈ ہونے کے علاوہ چیک بک بھی ہے۔ اس کے علاوہ اے ٹی ایم وغیرہ ہیں۔ ان سب کے ہوتے ہوئے آپ کو بینک کی کسی شاخ بذات خود جانے کی ضرورت نہیں۔ گھر بیٹھے ہی موبائل کے بٹنوں سے کھیلیں۔ یوں نقدی کی صورت کسی شے کی قیمت ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ سرکار آپ کو بجلی اور گیس کے جو بل بھیجتی ہے وہ البتہ انگریزی میں لکھے ہوتے ہیں اور یہ وہ زبان ہے جسے اَن پڑھ معاشرے کی بے پناہ اکثریت ہرگز نہیں جانتی۔ انگریزی زبان سے آگہی کے بغیر کوئی صارف اپنے ہاں آئے بل کو واپڈا یا گیس کے محکمے کو موبائل بینکنگ کے ذریعے بھجواہی نہیں سکتا۔ یہ بنیادی بات مگر برانڈڈ سوٹ پہنے بابو صاحبان کے ذہن میں کبھی نہیں آئے گی۔
اے ٹی ایم کے حوالے سے میں خودجب بھی انھیں فراہم کرنے والے بینکوں کی ہیلپ لائن، پر گیا تو مطلوبہ افسر، سے اپنا مسئلہ سمجھانے کے لیے پندرہ منٹ سے کم وقت میسر نہ ہوا۔ مطلوبہ صاحب ہیلو کہتے ہی نہایت جلدی میں سنائی دیتے۔ آپ سے اس انداز میں سوالات پوچھتے ہیں کہ آپ کو سمجھ نہیں آتی۔ وہ فرض کرلیتے ہیں کہ ان سے رجوع کرنے والا صارف اے ٹی ایم بینکنگ کے لیے استعمال ہونے والی ہر اصطلاع سے واقف ہے۔ ان کو تربیت دینے والوں نے انھیں شاید یہ بتانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ ہمارے ہاں موبائل بینکنگ نسبتاً نوزائیدہ ہے اور پاکستان میں 55سے 60سال سے زیادہ عمر کے لوگ بھی اے ٹی ایم استعمال کرتے ہیں۔
گزشتہ برس مجھے وطن عزیز کے ایک مشہور بینک نے گزشتہ اے ٹی ایم کی معیاد ختم ہونے کے بعد نیا اے ٹی ایم ڈاک کی صورت بھیجا۔ اس کے استعمال کے لیے مجھے نیا پن کوڈ حاصل کرنا تھا۔ اس کے حصول کے لیے مجھے تین بار ہیلپ لائن سے رجوع کرنا پڑا۔ عمر کے ساٹھ سال گزارلینے کے بعد آپ کی یادداشت پر برااثرپڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے گزشتہ برس لاہور سے راولپنڈی روانہ ہونے سے قبل میں نے گاڑی کی ٹینکی فل کروائی۔ کارڈ کے ذریعے اس کی ادائیگی کرتے ہوئے عجلت میں پرانا پن نمبر درج کردیا جوکئی برسوں سے استعمال کررہا تھا۔ ادائیگی واجب وجوہات کی بنا پر نہ ہوئی۔ میں نے مسئلہ سلجھانے ہیلپ لائن سے ر ابطہ کیا۔ 30منٹ تک انتظار کے بعد جن صاحب نے فون اٹھایا انھوں نے تصدیق کے لیے میری والدہ کا نام دریافت کیا۔ مرحومہ کا نام خورشید بیگم تھا۔ اس نام کو انگریزی میں لکھنے کے لیے دو طرح کے سپیلنگ استعمال ہوتے ہیں - Khurshidیا Khursheed-مجھے اس نام کے سپیلکنگ بتانے کا حکم ملا۔ میں نےآئی، والے سپیلنگ بتائے تو انھوں نے یہ کہہ کر فون پٹخ دیا کہ میں نے اے ٹی ایم کارڈ لینے کے لیے جو فارم بھرا تھا اس میں یہ نام کسی اور طرح لکھا گیا ہے۔ (غالباً EE والا)۔ ربّ کا شکر کہ میرے پاس نقدی رقم مناسب مقدار میں موجود تھی۔ میں نے پٹرول کی قیمت نقد ادا کی۔ اسلام آباد پہنچنے کے دوسرے دن میں نے تین بار ہیلپ لائن سے رجوع کرنے کی کوشش کی۔ مسئلہ اس کے باوجود حل نہ ہوا۔ بالآخر میں وہ اے ٹی ایم جاری کرنے والے ایک بینک کی برانچ چلا گیا۔ وہاں پہنچا تو علم ہوا کہ وہ برانچ بند کردی گئی ہے۔ اب مجھے بلیوایریا میں ڈی چوک کے قریب کھلی برانچ جانا ہوگا۔
اتفاقاً ایک اور مشہور بینک کے ایک اعلیٰ افسر میرے دوست ہیں۔ ان سے فون پر رابطہ کیا تو انھوں نے کچھ وقفہ طلب کرنے کے بعد اسی بینک کی ایک اور برانچ جاکر براہِ راست اس کے مینیجر سے ان کا حوالہ دیتے ہوئے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ میں نے فوراً تعمیل کی۔ دوست کی بتائی برانچ کے مینیجر کے کمرے میں بیٹھ کر کافی کا مگ بھی ختم نہیں کرپایا تھا کہ مسئلہ حل ہوگیا اور اس کی تصدیق کے لیے میں نے نئے پن نمبر کے ساتھ کچھ رقم بھی نکلوالی۔ قصہ مختصر ٹیکنالوجی کے اس دور میں مجھ نام نہاد پڑھے لکھے شخص کو اپنا مسئلہ حل کروانے کے لیے سفارش، سے کام لینا پڑا اور میں اخبار کے لیے لکھنے کے پہلے دن ہی سے سفارش، کے خلاف طویل وتلخ الفاظ استعمال کرتا رہا۔
مذکورہ واقعہ کے بعد سے میں جان بوجھ کر کسی بھی بینک کی ایسی برانچ میں گھس جاتا ہوں جہاں کا مینیجر میرا شناسا ہوتا ہے۔ اس سے مل کر ڈراما یہ رچاتا ہوں کہ اتفاقاً اس کے بینک کے پاس سے گزرتے ہوئے خیال آیا کہ کیوں نہ اس سے ہیلو ہائے کرلی جائے۔ میرا اصل مقصد مگر یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ کتنے لوگ اے ٹی ایم یا موبائل بینکنگ کے حوالے سے پیدا ہونے والے مسائل کی وجہ سے بینک آئے ہوئے ہیں۔ سرسری مشاہدہ نے پیغام دیا ہے کہ اوسطاً چار کے قریب بینک صارف اسی مقصد کی خاطر وہاں آئے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہیلپ لائن، کا وجود مجھے تو فروعی لگنا شروع ہوگیا ہے۔
جمعہ کے روز لیکن مجھے دریافت ہوا ہے کہ آپ کے ہاتھ میں موبائل فون آپ کا شناختی کارڈ بھی نہیں ہے۔ پس منظر یہ ہے کہ مجھے اپنی گاڑی کی انشورنس کی سالانہ قسط جمع کروانا تھی۔ اسے ادا کرنے بینک گیا تو وہاں موجود ایک صاحب نے تقریباً نفرت سے استفسار کیا کہ مجھے موبائل بینکنگ استعمال کرنا نہیں آتی۔ میں نے اعتراف کیا کہ میں اس سے آشنائی کے قابل نہیں ہوسکا۔ میری بیوی اگرچہ اس ضمن میں خود کو بہت ماہر سمجھتی ہے۔ چند ہی ماہ قبل مگر وہ اپنی عمر بھر کی پونجی موبائل فون کے ذریعے اپروچ کرنے والے کسی فراڈیے کی وجہ سے لٹوا سکتی تھی۔ اس کے تجربے نے مجھے مزید گھبرادیا ہے۔
میری بات بغیرمسکرائے یا ہمدردی کا اظہار کیے بغیر سننے کے بعد مذکورہ افسر نے میرے سامنے ایک فارم ایسے پھینکا جیسے جانوروں کو راتب یا پرندوں کودانہ ڈالا جاتا ہے۔ فارم بھرنے سے قبل خوش قسمتی سے مجھے یاد آگیا کہ کائونٹر پر جانے کے لیے مجھے ٹوکن بھی درکار ہوگا۔ وہ حاصل کرنے کے بعد تقریباً 25منٹ انتظار کے بعد باری آئی تو پے آرڈر، بنانے والے نے شناختی کارڈ کا تقاضا کیا۔ میں نے موبائل کھول کر اسے موصوف کے روبرو کردیا۔ اصل کاپی، نہ ہونے کی وجہ سے مگر نادرا کے حکم کے مطابق، وہ میرا بائیومیٹرک کرنے کو مجبور تھا۔ میں نے بائیو میٹرک کے لیے انگوٹھا رکھا تو ہاتھ کی لکیریں عمر کھاچکی تھی۔
سچی بات ہے کہ ذلتوں کے مارے، طبقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے مجھے اپنی ذلت کے بعد بہت کم غصہ آتا ہے۔ جمعہ کے روز مگر صبر جواب دے گیا۔ آواز تھوڑی بلند کرکے یہ جاننے کو مجبور ہوا کہ میں جس اکائونٹ سے رقم ادا کررہا ہوں وہ میرا ہے یا نہیں۔ کیا جس گاڑی کی انشورنس کی سالانہ رقم ادا کررہا ہوں وہ میرے نام ہی سے رجسٹر ہے یا نہیں (اس کی رجسٹری کا ٹوکن بھی میرے فون میں نقل کی صورت موجود تھا)۔ میری شناخت کی تصدیق یقیناواجب ٹھہرائی جاسکتی تھی اگر میں کسی اور کے اکائونٹ سے اپنے لیے رقم نکلوارہا ہوتا۔ لطیفہ یہ بھی ہے کہ جو رقم مجھے مقصود تھی وہ ساٹھ ہزا رروپے سے بھی کم تھی۔ اس رقم کو بھی میں کیش کی صورت وصول نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔ انشورنس کمپنی کو پے آرڈر چیک کی صورت بھجوانے کی کوشش ہورہی تھی۔
میری تقریر سے متاثر ہوکر بینک کلرک نے نادرا(شاہی)، کے پورٹل سے دوبارہ رابطہ کیا۔ وہاں سے مجھ سے میری والدہ، بیوی اور بچیوں کے نام پوچھے گئے۔ میں نے بتادیے تو ان سب کی تاریخ پیدائش پوچھنے کا آغاز ہوگیا۔ میں نے صرف اپنی بیوی کی تاریخ پیدائش بتانے کے بعد یہ کہا کہ اگر میرا بینک مجھے پے آرڈر جاری کرنے سے قاصر ہے تو میں آج اور اسی وقت اپنا اکائونٹ یہاں سے بند کرکے وہاں موجود رقم کسی دوسرے بینک منتقل کرنا چاہوں گا۔ لالچ کی بدولت میری دھمکی کام آگئی اور بالآخر ڈیڑھ گھٹنے کی کوفت اور ذلت کے بعد میں اپنے بینک اکائونٹ سے اپنے ہی زیر استعمال گاڑی کی انشورنس کی قسط ادا کرنے کے لیے پے آرڈر بنانے کے قابل ہوسکا۔ ہمارے بابو پاکستان کو جدید، بنانے کے لیے جن راہوں پر چل نکلے ہیں وہ ہرگز صارف دوست، نہیں ہیں۔ مجھے کامل اعتماد ہے کہ ان کا رویہ ایسا ہی رہا تو ہم پتھر کے زمانے ہی میں محصور رہیں گے۔ بابوئوں، کے ہوتے ہوئے پاکستان کیش لیس اکانومی میں کم ازکم میری زندگی کے باقی دنوں میں تبدیل نہیں ہوسکتا۔