Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Cloudburst Kya Hai?

Cloudburst Kya Hai?

معرکہ حق اور یومِ آزادی کی رونق کی وجہ سے طویل عرصے کے بعد چار دنوں کی فراغت مل گئی۔ میں نے فراغت کے ان دنوں کازیادہ وقت سونے میں صر ف کیا۔ اس کالم کے لیے موضوعات کی تلاش اگرچہ ذہن پر غالب رہی۔ یہ سوچ کر مطمئن رہا کہ 15اگست کو بھارتی وزیر اعظم کی دلی کے لال قلعے سے ہوئی تقریر اور امریکا کی ریاست الاسکا میں روسی اور امریکی صدر کے مابین ملاقات کے تجزیے، سے بآسانی دو دن ڈنگ ٹپانے کے کام آجائیں گے۔ اسی باعث سوشل میڈیا پر جمعہ کے دن فقط نریندر مودی کی اس کے یومِ آزادی کے دن ہوئی تقریر کی ریکارڈنگ سنی۔ ہفتے کی صبح اٹھ کر ٹرمپ پوٹن ملاقات کی خبر اور ان پر ہوئے تبصروں کو غور سے پڑھا۔ ان دونوں موضوعات کے بارے میں اپنی رائے بناکر دوبارہ بستر میں گھس گیا۔

دوپہر کے ایک بجے امریکا میں کئی برسوں سے مقیم صحافی دوست کا وٹس ایپ پیغام آگیا۔ اس کی آمد کی اطلاع دینے والی گھوں گھوں سے آنکھ کھلی تو فون اٹھاکر پیغام دیکھا۔ جو دیکھا و ہ پیغام نہیں سوال تھا۔ اس نے مجھے شرمسار کردیا۔ جس دوست کا پیغام تھا میں انھیں اپنے دھندے یعنی میڈیا کا انتہائی سنجیدہ طالب علم مانتا ہوں۔ ان کا مختصر سوال یہ تھا کہ پاکستانی میڈیا (غالباً ان کی توجہ پیمرا کے لائسنس تلے چلائے ٹی وی چینلوں تک محدود تھی) حالیہ بارشوں کی وجہ سے ہوئی خوفناک تباہی کو کماحقہ کوریج فراہم کیوں نہیں کررہا؟ سچی بات ہے ان کا پیغام آنے تک میں نے صبح کے اخبارات بھی نہیں پڑھے تھے۔ چھٹی کے دنوں میں ٹی وی سکرینوں سے بھی دور رہنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔

دوست کا پیغام پڑھا تو بستر سے نکل کر اس صوفے پر بیٹھ گیا جس کے ساتھ والی میز پر اخبار دھرے ہوتے ہیں۔ ان پر نگاہ ڈالی تو تقریباً ہر ایک میں حالیہ قیامت خیز بارشوں کی پھیلائی تباہی شہ سرخیوں میں بیان ہوئی تھی۔ ان خبروں کے مطابق سب سے ز یادہ تباہی بونیر اور باجوڑ کے علاقوں میں ہوئی ہے۔ گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے کئی حصے بھی بقیہ ملک سے سڑکیں بہہ جانے اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے کٹے ہوئے بتائے گئے۔ تباہ کن بارشوں کا سبب تقریباً ہر مقام پر کلائوڈ برسٹ، کو بتایا گیا۔ اس کا آسان ترین ترجمہ شاید بادلوں کا پھٹ جانا، ہوسکتا ہے۔ بادل کیوں پھٹتے ہیں؟

اس سوال کا جواب مجھے معلوم نہ تھا۔ اپنی جہالت پر ندامت محسوس کرنے کے بعد تقریباً ہر اخبار کے اندرونی صفحات پر کوئی ایسا مضمون ڈھونڈنے کی کوشش کی جو اس سوال کا جواب فراہم کرسکے۔ مزید شرمندگی یہ سوچتے ہوئے محسوس ہوئی کہ چند ہفتے قبل راولپنڈی اور اسلام آباد کے کچھ علاقوں میں بھی کلائوڈ برسٹ، ہونے کی وجہ سے بہت تباہی آئی تھی۔ اصولی طورپر مجھے ماحولیات کے بارے میں گفتار کا غازی ہوتے ہوئے اس اصطلاع کو بخوبی جان لینا چاہیے تھا۔

صحافت ہماری مگر سوشل میڈیا کے دبائو میں روایتی اخبار کے کالموں کے لیے بھی زیادہ سے زیادہ شیئرز اور لائکس حاصل کرنے تک محدود ہوچکی ہے۔ بے تحاشا موضوعات پر اس خوف سے قلم نہیں اٹھاتے کہ قاری اس کا عنوان دیکھ کر ہی آگے بڑھ جائیں گے۔ لکھاری مقبولیت، کے ایسے اسیر کبھی نہیں ہوئے تھے۔ غالبؔ نے دلی کی تباہی کے بعد سرسید احمد خان کی شاندار ماضی، کی داستان سنانے والی کتاب آثار الصنادید، کا دیباچہ تو لکھ دیا لیکن نہایت درشت انداز میں تحقیق کے عادی احمد خان کو یہ مشورہ بھی دیا کہ یہ جاننے کی کوشش کرو کہ کوئلے کی حرارت سے برطانیہ نے ریل کا انجن کیسے چلادیا؟ مستقبل بہتر بنانے کے لیے ماضی ہی نہیں حال کو بھی بھلانا پڑتا ہے۔ حال میں مقبول، موضوعات پر لکھی کتابیں ہمارے مرنے کے بعد ردی کی ٹوکری میں پھینکی ملیں گی۔

ردی کی ٹوکری کا ذکر ہوا تو یہ خوف بھی لاحق ہوگیا کہ میرے مرنے کے بعد پیدا ہونے والی نسلیں تمام تر مشکلات کے باوجود اتنے برس بھی گزارپائیں گی جو مثال کے طورپر میں نے کسی نہ کسی طرح گزار لیے ہیں۔ تیزی سے بدلتے موسم کا معاملہ یہ سوال اٹھانے کو اکثر مجبور کرتاہے۔ میری شادی ہوئی تو بیوی کو احساس تھا کہ محض صحافی، کی تنخواہ سے گھر نہیں چلے گا۔ ماں باپ کی بہت لاڈلی اور میرے مقابلے میں زیادہ خوشحال گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود اس نے بھی نوکری کافیصلہ کیا۔

1990ء کی دہائی کا آغاز تھا اور وہ ایک ایسے ادارے سے تحقیق کے لیے وابستہ ہوگئی جو پاکستان کے لیے ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں سے نبردآزما ہونے کے لیے قومی حکمت عملی، تیار کررہا تھا۔ اس حکمت عملی کو مکمل ہوئے 30سے زیادہ برس گزرچکے ہیں۔ میں نے مگر اس میں بتائی ہدایات میں سے کسی ایک پر بھی عمل ہوتے نہیں دیکھا۔ گزشتہ 30برسوں میں جو ترقی وتعمیر، دیکھی وہ مذکورہ ہدایات کے احمقانہ انداز میں خلاف ورزی کرتی دکھائی دی۔

قومی حکمت عملی، کی سفارشات مرتب ہوجانے کے بعد میری بیوی اکثر گاڑی میں کہیں جاتے یا گھر میں اکیلے بیٹھی مجھ سے عاجزانہ درخواست کرتی کہ سیاست میں رعب جمانے والے، کالموں کے علاوہ کچھ وقت نکال کر عوام کو خبردار کروں کہ ہمارے گلیشیرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ زمین کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان جیسے ملک اپنی آبادی میں اضافے کو بھی روکنے کے قابل نہیں رہے۔ مذکورہ اسباب کی بدولت آپ کی اور میری زندگی، ہی میں وہ وقت آنے والا ہے جب چند برسوں تک فلیش فلڈز، آیا کریں گے۔ بتدریج گلیشیر ختم ہوجائیں گے اور بعدازاں قحط سالی کے طویل برس ہمارے خطے میں زندگی معدوم کرنا شروع کردیں گے۔ جو انسان بچ رہیں گے کثیر تعداد میں نقل مکانی کو مجبور ہوجائیں گے۔

میں اس کی باتوں کو دانشوری، ٹھہراکر نظرانداز کرتارہا۔ پارلیمانی کارروائی کے بارے میں پریس گیلری لکھتے ہوئے خود کو حکومتیں بنانے اور بگاڑنے کے خمار میں پاٹے خان بنا شہر میں اِتراتا رہا۔ بالآخر ربّ کا شکر کہ چند دنوں تک شعلے کی طرح بھڑک کر ٹی وی میڈیا وٹس ایپ، سے آئے ایک جیسے ٹکرز لکھنے تک محدو ہوگیا۔ سیاست، جی حضوری کا متبادل بن گئی۔ سمجھ نہیں آتاکہ اب لکھتے ہوئے کیا سودا بیچوں؟ کلائوڈبرسٹ، کا مطلب مگر ڈھونڈ لیا ہے۔

آسان الفاظ میں بیان کروں تو یہ بتانا ہے کہ زمین پر درجہ حرارت میں ایک نقطے کا اضافہ ہو تو ہوا میں نمی کو نچوڑ کر بادلوں میں تبدیل کرنے والی قوت میں سات گناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ بادل کے لیے ٹھوس شکل اختیار کرتی نمی کو اپنے تک محدود رکھنا ممکن نہ رہے تو وہ پھٹ جاتا ہے۔ اس میں سمائی نمی جو قطرہ قطرہ بارش کی صورت برسنا تھی سیلابی نالے کی طرح برسنا شروع ہوجاتی ہے اور آسمانی نالے سے بپھرے پانی کی لہر ویسی ہی تباہی لاتی ہے جو ان دنوں ہم خیبرپختونخوا کے بونیر اور باجوڑ وغیرہ میں دیکھ رہے ہیں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran