2023ء کی جولائی سے میں ایک ٹی وی چینل پر 8 سے 9بجے تک لائیو ٹاک شو کرتا ہوں۔ میرے ساتھ بہت ہی نوجوان صحافی عدنان حیدر میزبانی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ تعلق ان کا جلال پور پیروالا سے ہے جو جنوبی پنجاب میں پنجندکے قریب واقع ہے۔ موصوف نے لاہور کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ سے ڈگری بھی حاصل کررکھی ہے۔ پانی کی تلاش پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔
گزشتہ مہینے کے وسط میں مون سون کی بارشوں نے دریائوں میں سیلابی صورتحال کو خطرناک بنانا شروع کردیا تو ہر پروگرام کے آغاز سے پہلے میں بھارت کے چند علاقوں میں بارش کی تازہ ترین صورتحال کو بھارتی محکمہ موسمیات کی سرکاری ویب سائٹ کی مدد سے لوگوں کے سامنے رکھتا۔ میری کاوش کی بنیادی وجہ بھارتی صوبہ ہماچل پردیش میں کئی دنوں تک جاری رہی بارشیں تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں برطانوی حکمرانی کے دنوں میں بارش کے پانی کو ماپنے کا سلسلہ 1910ء میں شروع ہوا تھا۔ اس برس کو ذہن میں رکھتے ہوئے آخری مرتبہ جو ریکارڈ توڑ بارش ہوئی اب کے برس اس میں 423فی صد اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ غیر معمولی ہی نہیں قیامت خیز بھی ہے۔
میں اس اضافے کے بارے میں اس لئے متفکر تھا کیونکہ ہماچل پردیش میں ہوئی غیر معمولی بارشیں ہی دریائے راوی اور ستلج میں سیلاب کا باعث بنتی ہیں۔ یہ دونوں دریا سندھ طاس معاہدے کے تحت ہم بھارت کے سپرد کرچکے ہیں۔ میرا آبائی شہر لاہور راوی کے کنارے واقع ہے اور مجھے اس دریا کا بھارت کے حوالے کرنا کبھی پسند نہیں آیا۔ میری مادر علمی-گورنمنٹ کالج لاہور- کے جریدے کا نام بھی "راوی" ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے کالج کی بوٹ کلب بھی تھی۔ پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ اکثر کالج سے کھسک کر میں راوی کے کنارے آکر اپنے کالج کی کلب والی کشتی کو ملاح کی نگرانی میں چلاتے ہوئے بارہ دری تک جانے کی کوشش کرتا تھا۔ آدھے راستے ہی میں لیکن توانائی کھوکر شرمندگی سے چپو ملاح کے حوالے کردیتا۔ یہ بات لکھنے کی ضرورت نہیں کہ میری "ملاحی" کا ہدف کچھ "لوگوں" کی ستائش تھی۔ ویسی ہی تمنائے ستائش جو جوانی میں لاحق ہوجاتی ہے۔ غالباََ اسی تمنا کی یاد نے مجھے راوی بھارت کے سپرد کردینے کے بارے میں مستقل دُکھی رکھا۔
راوی کا ذکر چلا تو یاد دلانا ہوگا کہ اس کا پانی بھی ستلج کی طرح ہماچل پردیش کے علاوہ جموں، نارووال، سیالکوٹ اور شکرگڑھ میں ہوئی بارشوں کا بھی محتاج ہے۔ 2025ء میں جموں میں بھی ریکارڈ توڑ بارشیں ہوئیں۔ ہماچل پردیش اور جموں میں ہوئی بارشوں کی وجہ سے راوی بپھرا تو بھارت کے ڈیموں کے قابو میں نہیں آیا۔ اس کا پانی جغرافیہ کی غلامی میں پاکستان آنا شروع ہوگیا۔ ہمارے پنجاب میں چناب پہلے ہی بپھرا ہوا تھا۔ راوی کے پانی کا ہمارے پنجاب میں آکر چناب کے پانی سے خانیوال کے ضلع میں"مقابلہ" ضروری تھا۔ اس مقابلے نے سینکڑوں گائوں اجاڑے ہیں۔ لاکھوں کو گھر چھوڑ کر نقل مکانی کو مجبور کیا ہے۔
راوی سے کہیں زیادہ ہمارے پنجاب میں حقیقی تباہی ستلج نے مچائی ہے۔ اس دریا کو بھی بھارت کے حوالے کرنے کے بعد ہم بھول چکے تھے۔ گزشتہ چند برسوں سے مگر اس کا پانی اپنا قدرتی راستہ لینے کو بے چین ہے۔ رواں برس ہماچل پردیش میں ہوئی غیر معمولی بارشوں نے اس کی بے چینی کو توانائی بخشی۔ ہمارے قصور کے نواح میں گنڈا سنگھ والا سے اس کا غضب بھرا پانی داخل ہوکر بہاولپور کے مختلف اضلاع سے گزرتے ہوئے پنجندکی طرف بڑھتا رہا۔ غضب بھرے پانی کا عذاب اس کے راستے میں آئے دیہات اور شہروں کا مقدر بھی ہوا۔
میرے ساتھی عدنان حیدر کا جلال پور پیر والا ستلج اور چناب کے عین درمیان میں واقع ہے۔ دو بپھرے دریائوں میں گھرا جلال پور پیر والا اب بذات خود دریا کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ شہر اور دیہات کو انسانی آبادی سے خالی کروانے کے لئے مساجد سے اعلانات ہوئے ہیں۔ جلال پور پیر والا پر نازل ہوئی سیلابی تباہی اس قلم گھسیٹ کو یہ لکھنے کو مجبور کررہی ہے کہ ہفتے میں چار دن شام آٹھ بجے اپنے ٹی وی پروگرام کا آغاز ریٹنگز کو یقینی بنانے والے کسی موضوع کے بجائے ہماچل پردیش کے موسم کا حال سناتے ہوئے میں بے وقوف درحقیقت اپنے حکمرانوں کو بتانے کی کوشش کررہا تھا کہ اس بھارتی صوبے میں ہوئی بارشیں غیر معمولی اور ریکارڈ توڑ ہیں۔ ان کی وجہ سے ستلج کو بپھرنے سے روکنا بھارتی حکومت کے بس میں نہیں رہا۔
ہمارے پنجاب کے پاس البتہ یقینی طورپر دس سے بارہ دن ایسے تھے جب سیلابی پانی کو گنجان آباد علاقوں سے دور رکھنے کو مناسب اقدامات لئے جاسکتے تھے۔ حکومت کسی کی بھی ہو قدرتی آفت کو ٹالنا اس کے بس سے باہر ہے۔ حال ہی میں امریکہ جیسے انتہائی ترقی یافتہ ملک میں لاس اینجلس کے قریبی جنگلوں میں واقعہ لاتعداد مشہور اداکاروں اور سرمایہ داروں کے گھر پھیلتی آگ سے خاک ہوگئے۔ ٹیکساس کے کئی علاقے بھی حال ہی میں سیلاب کی نذر ہوگئے ہیں۔
دس سے پندرہ دن حکومت کو اتنا وقت ضرور دیتے ہیں کہ وہ آبی ماہرین کی مدد سے گنجان آبادیوں کو محفوظ رکھنے کے کچھ انتظامات ڈھونڈ سکے۔ مجھے خبر جبکہ یہ ملی ہے کہ جلال پور پیروالا کو بچانے کے لئے کوئی بند نما شے موجود تھی۔ اس بند پر سڑک بچھانے کے لئے مبینہ طورپر ٹھیکے دار نے اسی بند کو مٹی پھینک کر مزید اونچا کرنے کے بجائے پہلے سے بچھی مٹی کو سڑک کی خاطر"ہموار" کرنے کیلئے چھوٹا کردیا۔ جو کہانی سنی اس کو اسلام آباد میں بیٹھ کر ڈبل چیک نہیں کرسکتا۔ پنجاب حکومت سے درخواست ہی کرسکتا ہوں کہ اس کے بارے میں حقائق کا سراغ لگائے۔
پنجاب حکومت کی وزارت اطلاعات ویسے بہت متحرک دِکھتی ہے۔ اسلام آباد بیٹھے ہوئے البتہ مجھے اندازہ نہیں کہ حکومت پنجاب نے وزیراعلیٰ کو ہر لمحہ باخبر رکھنے کے لئے کوئی ایسا خصوصی سیل بنارکھا ہے یا نہیں جو ہماچل پردیش اور جموں کی بارشوں پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ میری ناقص رائے میں ایسے سیل سے مسلسل آپ ڈیٹ ہوتی اطلاعات کی بنیاد پر 2025ء میں ایسے اقدامات ضرور لئے جاسکتے تھے جو ڈھائی لاکھ تک پہنچی آبادی کے جلال پور پیر والا اور اس کے نواحی دیہات کو کامل تباہی سے کافی حد تک محفوظ رکھ سکتے تھے۔