اس بحث میں الجھنا لاحاصل ہے کہ بانی تحریک انصاف عمران خان کے ساتھ حکمرانوں کے ہاتھوں"تاریخی زیادتیاں" ہورہی ہیں یا نہیں۔ اندھی نفرت وعقیدت سے مغلوب ہوئے اذہان اس سوال کے بارے میں اپنی پسند کی تاویلات گھڑنے میں مصروف ہوجائیں گے۔ فیصلہ مگر ہو نہیں پائے گا۔ "اخلاقی" پہلوئوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کڑے دل کے ساتھ یہ حقیقت مگر تسلیم کرنا ہوگی کہ پاکستان جیسے ملکوں میں اپوزیشن کی سیاست بہت مشکل ہے۔
ہمارے ہاں استاد دامن جیسے درویش منش شاعر کی کٹیا سے بم برآمد ہوجاتا ہے۔ چودھری ظہور الٰہی جیسا شاہ خرچ بھینس چوری کے مقدے میں ملوث کردیا جاتا ہے۔ حالیہ تاریخ میں عمران خان کی "چوروں اور لٹیروں" کے خلاف مچائی دہائی کی وجہ سے ملک کے تین بار وزیر اعظم رہے نواز شریف کو ثاقب نثار کی سپریم کورٹ کے ہاتھوں سیاست میں حصہ لینے کے لئے تاحیات نااہل کردیا گیا تھا۔
وقت بدلا تو وہ ہی نواز شریف فروری 2024ء کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے لندن سے وطن لوٹے تو "عدالت" ان کا بائیومیٹرک لینے اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچ گئی۔ مختصراََ اپوزیشن میں رہتے ہوئے آپ کو ناصر کاظمی کے اس شعر پر اکتفا کرنا پڑتا ہے جو "وقت اچھا بھی آئے گا" کی امید دلاتا ہے۔ طیش سے مغلوب ہوئے تحریک انصاف کے قائد مگر مسلسل حالت جنگ میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کا رویہ عاشقانِ عمران کو "ڈٹ کر کھڑا ہے کپتان" کا نہایت فخر سے اعلان کرنے کا موقعہ فراہم کرتا ہے۔ محض ضد مگر سیاست میں کام نہیں آتی۔ یہ ایک قدم آگے بڑھنے کے بعد دوقدم پیچھے ہٹنے کا تقاضہ کرتی ہے۔ لچک اس کی بنیادی سرشت ہے۔
یہ بات درست کہ تحریک انصاف کے بانی کو حکمرانوں کی نگاہ میں جائز اور ان کے مداحین کے بقول ناجائز بنیادوں پر طویل عرصے کی سزائیں سنادی گئی ہیں۔ ان سے نجات کے لئے عاشقانِ عمران نے متعدد بار عوامی تحریک بھڑکانے کی کوششیں کی۔ ریاستی اداروں نے یکسوہوکر انہیں چندقدم بھی آگے بڑھنے نہیں دیا۔ اپنی رہائی کے لئے عمران خان کو عدالتوں کی جانب ہی دیکھنا ہوگا جہاں مشکل میں گھری اپوزیشن جماعتوں کو "انصاف" ہمیشہ تاخیر سے ملتا ہے۔ برے دنوں میں اچھے وقت کی آمد کو یقینی بنانے کے لئے سیاست دان کو سو طرح کے دائوپیچ سے کام لینا ہوتا ہے۔
تحریک انصاف اس تناظر میں خوش نصیب ہے کیونکہ اس کے پاس سیاسی دائو پیچ کھیلنے کے لئے پارلیمان کی صورت ایک بہت بڑا پلیٹ فارم موجود ہے۔ انتخابی نشان سے محروم ہونے کے باوجود فروری 2024ء کے انتخابات کی بدولت وہ قومی اسمبلی میں واحد اکثریتی جماعت کی صورت ابھری۔ یہ حیثیت مل جانے کے باوجود مگر اس نے حکومت سازی سے احتراز برتا۔ پیپلز پارٹی کے جوان سال سربراہ اشاروں کنایوں میں پیغامات دیتے رہے کہ اگر تحریک انصا ف حکومت بنانا چاہے تو ان کی جماعت حکومت میں شامل ہوئے بغیر اس کی حمایت کے بارے میں سوچ سکتی ہے۔
مسلم لیگ (نون) کے ساتھ ان دنوں پیپلز پارٹی کے رشتے ایسی ہی حمایت پر مبنی ہیں جس کے عوض اس نے آصف علی زرداری کو ایک بار پھرایوان صدر بھیج کر تاریخ بنائی۔ دو صوبوں میں اپنے نامزد کردہ افراد گورنر بنوائے اور بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کا منصب بھی حاصل کرلیا۔ تحریک انصاف مگر "پارلیمانی" کے بجائے "اصولی بنیادوں پر عوامی سیاست" کی دعوے داری پر ڈٹی رہی۔
عوامی سیاست کا دعویٰ مگر اس وقت کھوکھلا اور کسی حد تک بچگانہ سنائی دیتا ہے جب تحریک انصاف اس ایوان میں بیٹھی نظر آتی ہے جسے وہ "فارم 47" کی پیداوار یعنی انتخابی دھاندلی کا نتیجہ قرار دیتی ہے۔ فروری 2024ء کے انتخابات تحریک انصاف کی نگاہ میں واقعتا دھاندلی زدہ تھے تو ان کے نتائج آجانے کے پہلے دن ہی اس کے منتخب قرار دئے اراکین کو قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے سے انکار کردینا چاہیے تھا۔ حلف اٹھالینے کے بعد تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی کے لئے لازمی ہوگیا کہ وہ "پارلیمانی" سیاست کا ہر ممکن دائو پیچ استعمال کرتے ہوئے اچھے وقت کی راہ نکالیں۔ پارلیمانی سیاست پر لیکن توجہ سے اجتناب برتا گیا۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کا ہر اجلاس "عمران کو رہا کرو" کے نعروں کی گونج میں جاری رہا۔
بدترین حالات کے باوجود اپنی سیاست میں نئی روح پھونکنے اور عوام کو متحرک کرنے کے لئے تحریک انصاف کو اپنے چند اراکین کی 9مئی کے مقدمات میں"نااہلی" کے بعد ہوئے ضمنی انتخابات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے تھا۔ یہ سوچ کر مگر انتخابی اکھاڑے میں اترنے سے انکار کردیا گیا کہ حکومت تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدوار کو جیتنے نہیں دے گی۔ مان لیتے ہیں کہ حکومت ایسا ہی ارادہ باندھے ہوئے ہے۔ مبینہ ارادے کے عملی اطلاق کو دنیا کے روبرو عیاں کرنے کے لئے مگر تحریک انصاف کے لئے انتخابی اکھاڑے میں اترنا بھی تو لازمی تھا۔
ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کے بعد تحریک انصاف کے اراکین نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ اس تناظر میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کی صدارت سے مستعفی ہونا میری دانست میں سیاسی خودکشی کے مترادف ہے۔ اس کمیٹی کے روبرو حکومت ہی کے تعین کردہ آڈیٹر جنرل کی سرکاری محکموں میں ہوئے اخراجات پر اعتراضات کی رپورٹس رکھی جاتی ہیں۔ ان رپورٹس کے بغور مطالعے کے بعد اپوزیشن اراکین اہم ترین اعتراضات کو اپنا کر حکومت کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کے جوابات عوام کے روبرو رکھے۔ پارلیمان کے قیام کا کلیدی مقصد ہی حکمرانوں سے یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ میرے اور آپ کے دئے ٹیکسوں کو کس انداز میں خرچ کررہی ہے۔ یہ سوال اٹھانے کا حقیقی فورم مگر قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی ہے۔
اس کمیٹی کی اہمیت کا احساس مجھے 1985ء کی "غیر جماعتی بنیادوں" پر ہوئے انتخابات کی بنیاد پر قائم ہوئی قومی اسمبلی کی کارروائی کے مشاہدے اور رپورٹنگ کے ذریعے ہوا تھا۔ جھنگ کے ایک صاحب جن کا نام غالباََ محمد علی تھا اس کے سربراہ تھے۔ ان کے ساتھ قصور کے سردار آصف احمد علی بھی مذکورہ کمیٹی کے رکن تھے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی میں معاشیات کے ہونہار طالب علم رہے تھے۔
ان کی معاشی اعتبار سے تربیت شدہ آنکھوں نے آڈیٹر جنرل کی رپورٹس کا بغور مطالعہ کیا تو واضح ہوا کہ صدر ضیاء کے ایک چہیتے وزیر برائے جہاز رانی مصطفیٰ گوکل اپنے عہدے کی بنیاد پر آغا حسن عابدی کے بنائے بنک بی سی سی آئی سے ناقابل اعتبار انداز میں فوائد حاصل کرتے رہے تھے۔ آڈیٹر جنرل کی تیار کردہ رپورٹس پر مبنی حقائق پبلک میں عیاں ہوئے تو صدر ضیاء کی "گڈگورننس" پر سو طرح کے سوالات اٹھنا شروع ہوگئے۔
آڈیٹر جنرل نے اب شہباز حکومت کے پہلے سال کے دوران ہوئے مالی اخراجات کے بارے میں اپنی رپورٹ مکمل کرلی ہے۔ تحریک انصاف کے جنید اکبر کی قیادت میں پبلک اکائونٹس کمیٹی اگر اس کا جائزہ لیتی تو رونق لگ جاتی۔ تحریک انصاف نے مگر جنید اکبر کو استعفیٰ دینے کا حکم دے کر حکومت کی ممکنہ دردسری کا خاتمہ کردیا ہے۔