ہفتے کی صبح سے روایتی اور سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارموں پر ایک خبر، چھائی ہوئی ہے۔ خبر، کو یوں لکھنے کا مقصد محض یاد دلانا ہے کہ اس میں جو انکشاف، ہوئے ہیں وہ 2019ء کے وسط سے اسلام آباد کے ڈرائنگ روموں میں سرگوشیوں میں بیان ہونا شروع ہوگئے تھے۔ وہاں سے انھیں سوشل میڈیا نے اچک لیا اور 2021ء کی آخری سہ ماہی میں یہ انکشافات وی لاگز وغیرہ میں بھی بیان ہونا شروع ہوگئے تھے۔
دو ٹکے، کے پاکستانی صحافیوں کی بیان کردہ معلومات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ وہی معلومات مگر جب اوون بینٹ جونز نامی برطانوی صحافی نے معتبر ومعروف جریدے اکانومسٹ کے ایک گپ شپ والے ضمنی رسالے میں سادگی وپرکاری والی مہارت سے طلسم ہوشربا کی صورت گزرے جمعہ کی رات بیان کردیں تو ہم چونک اٹھے۔ مجھ سمیت ہر صحافی کو اس کے بارے میں تبصرہ آرائی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ سوشل میڈیا پر یہ خبر تحریک انصاف کے حامیوں اور ناقدین کے مابین لفظی جنگ چھیڑنے کا سبب ہوئی۔
جس خبر، کا چرچا ہے اس میں فراہم کردہ معلومات کو بارہا دہرانے سے تھک کر صحافیوں نے بالآخر فیصلہ یہ کیا کہ پتہ لگایا جائے کہ مذکورہ خبر، کس کے کام آئے گی۔ عاشقان عمران اسے 27ویں ترمیم سے توجہ ہٹانے کی کوشش ٹھہرارہے ہیں۔ تحریک انصاف کے ناقدین مگر مصر ہیں کہ اس خبر کی اشاعت کا اہتمام محترمہ بشریٰ وٹو کے مخالفین کی جانب سے سازشی تیاری کے ذریعہ ہوا۔ اندرونی لڑائی، کی بدولت جو صورت بنی ہے وہ بانی تحریک انصاف کو تو سادہ تے تیرا دل سادہ، دکھاتی ہے۔
ان کے برعکس محترمہ بشریٰ اس کہانی کی وجہ سے ایک ولن، کی صورت ابھرتی ہیں۔ جادو ٹونے کے حوالے سے بتائے واقعات نے مذکورہ خبر کو مزید چسکے دار بنادیا ہے۔ سارا دوش ان کے کاندھوں پر ڈالتے ہوئے مگر یہ حقیقت نظرانداز کردی گئی کہ گزرے برس کے 26نومبر کے بعد بانی تحریک انصاف کی اہلیہ نے خود کو وفاشعار بیوی کی صورت پیش کیا جو اپنے شوہر کے لیے آسانیاں حاصل کرنے کے لیے پندارکے تمام صنم کدے ویران کرتے ہوئے ایک جذباتی ہجوم کے ساتھ اسلام آباد پہنچ گئی تھیں۔
وہ ساتھی جو اڈیالہ جیل میں ہوئی سماعتوں کو باقاعدگی سے رپورٹ کرتے ہیں نجی ملاقاتوں میں کئی واقعات بیان کرتے ہوئے یہ تاثر پھیلارہے ہیں کہ محترمہ کے شوہر ان کی جرأت ودلیری سے بہت متاثر ہیں۔ اگر میرے ساتھیوں کے مشاہدات درست ہیں تو اکانومسٹ کے گپ شپ والے رسالے میں چھپی کہانی بشریٰ وٹو کے مخالفین کے کام نہیں آئے گی۔ صحافت کو عمر تمام نذر کرنے کی بدولت میں پورے اعتماد سے مگر یہ لکھنے کو بھی مجبور ہوں کہ اگر مذکورہ کہانی کو برطانیہ کی کسی عدالت میں چیلنج کیا گیا تو فائدہ نہیں ہوگا۔ اوون نے کہانی بہت مہارت سے بنی ہے۔
کوئی واقعہ سنانے کے بعد اس سے متعلقہ فریقین کا موقف لینے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وہ مل گیا تو اسے ہوبہو بیان کردیا۔ اکثر واقعات کے ذکرکے بعد ان سے وابستہ افراد کے نام بھی لیے گئے ہیں اور زیادہ تر نے رابطے کے بعد تصدیقی کلمات ہی بیان کیے۔ جس خبر، کا چرچا ہے اس کی تیاری تقریباً ایک برس قبل شروع ہوگئی تھی۔ مجھے شبہ ہے کہ ہفتے کے روز جو کچھ ہمارے سامنے آیا وہ محض ٹریلر، ہے۔ محترمہ بشریٰ وٹو پر ایک پوری کتاب لکھنے کا مواد جمع کرلیا گیا ہے۔
جس خبر، کا چرچا ہے اس میں بیان کردہ تفصیلات دہراکر آپ کا اور اپنا وقت ضائع کرنے کی ہمت نہیں۔ جمعہ کی صبح سے میرے اپنے ذہن پر دو تصاویر آسیب کی صورت چھائی ہوئی ہیں۔ پہلی تصویر میں سری نگر کے نواح میں واقع ایک قصبے نوگام کے پولیس سٹیشن میں ہوا دھماکا ہے۔ دوسری تصویر اس گھر کی ہے جسے اجتماعی سزا، کی صورت فقط اس لیے گرا کر ملبے میں تبدیل کردیا گیا کہ وہاں ڈاکٹر عمر نبی کے والدین رہتے تھے۔ مقبوضہ کشمیر سے دلی کو ہریانہ سے ملانے والے شہر فرید آباد آیا یہ ڈاکٹر 10نومبر کی شام لال قلعہ کے قریب ایک سگنل پر اپنی گاڑی پھٹ جانے کی وجہ سے ہلاک ہوا تھا۔ بھارتی پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے پاس موجود دھماکہ خیز مواد کو کسی محفوظ مقام، پر منتقل کرنا چاہ رہا تھا۔ کسی کیمیکل نے مگر اس مواد کو آتش فشاں بنادیا۔
جس دن لال قلعہ کے قریب کار دھماکا ہوا اسی روز بھارت کے بڑے اخبارات میں نمایاں انداز میں ایک خبر چھپی تھی۔ اس میں دعویٰ ہوا کہ کشمیر سے ملازمت کے لیے فرید آباد ا ٓئے چند ڈاکٹر منظم انداز میں بھارت کے مختلف بڑے شہروں کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی تیاری کررہے ہیں۔ دعویٰ یہ بھی ہوا کہ کشمیر سے فرید آباد آئے ڈاکٹروں کی ذہن سازی، سری نگر کے نواحی نوگام کے ایک امام مسجد نے کی تھی۔ وہ تخریبی کارروائیوں، کے لیے تیار ہوگئے تو ان میں سے کم از کم دو افراد ترکیہ گئے اور وہاں پاکستان میں کالعدم ٹھہرائی ایک تنظیم کے لوگوں سے رابطے کیے۔ مختصر لفظوں میں فقط پاکستان ہی نہیں بلکہ ترکیہ کو بھی بھارت میں تخریب کاری کا ذمہ دار ٹھہرادیا گیا۔
یہ خبر چھپ گئی تو بھارت کے سکیورٹی اداروں، کو خیال آیا کہ مودی حکومت نے آپریشن سندور، کو ختم نہیں کیا ہے۔ اس میں محض وقفے کا اعلان ہواہے۔ دلی میں لال قلعہ کے قریب کار پھٹ جانے کے بعد ڈاکٹر عمر نبی کے پاکستان، سے آئے افراد سے ترکیہ میں ملاقات مودی حکومت کو مجبور کرسکتی ہے کہ وہ لال قلعہ کے قریب ہوئے واقعہ کا بدلہ لینے کے لیے ویسے ہی اقدامات لے جو رواں برس کے مئی میں پہلگام میں ہوئی دہشت گردی کے بعد اٹھائے گئے تھے۔
مئی میں چھڑی جنگ کے ذریعے بھارت پاکستان کو مگرسبق سکھانے میں ناکام رہا تھا۔ اس امر کی تصدیق امریکی صدر بھی تقریباً ہر روز 7سے 8بھارتی طیاروں کی تباہی کے ذکرکے ذریعے کررہے ہیں۔ پاکستان سے ایک اور جنگ سے گریز کی خاطر کہانی میں لہٰذا ترمیم ہوئی۔ داستان اب یہ پھیلائی جارہی ہے کہ افغانستان میں انصار غزوہ ہند، کے نام سے ایک تنظیم موجود ہے۔ وہ بھارتی مقبوضہ کشمیر آزاد کروانے کے لیے کام کررہی ہے۔ 22کے قریب مسلمان ڈاکٹر جن کی اکثریت کشمیر سے تعلق رکھتی ہے مذکورہ تنظیم سے جڑے بتائے جارہے ہیں۔ ان ڈاکٹروں کا سرغنہ ان دنوں افغانستان میں قیام پذیر ہے۔ بھارتی حکومت نے انٹرپول سے اس کی گرفتاری کے لیے رابطہ کیا ہے۔
انٹر پول سے رابطہ حیران کن ہے کیونکہ طالبان کے وزیر خارجہ کے دورئہ بھارت کے بعد اکتوبر میں کابل میں دلی کے سفارت کار پوسٹ ہوچکے ہیں۔ طالبان حکومت سے مبینہ سرغنہ، کی گرفتاری کے لیے روابط سے گریز میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ بھارت کا یہ دعویٰ کہ دہشت گردی، کو تیار کیے ڈاکٹروں کا سرغنہ افغانستان میں پناہ گزین ہے پاکستان کے اس دعویٰ کی مگر تصدیق ہے کہ طالبان کی چھتری تلے افغانستان میں کئی دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں جو کسی عالمی ایجنڈے، پر کام کررہی ہیں۔
بھارتی پولیس کا دعویٰ تھا کہ مسلسل چھاپوں کے بعد اس نے 2900کلوگرام بارودی مواد بازیاب کرلیاہے۔ بھارتی صحافی بھی مسلسل سوال اٹھارہے ہیں کہ مذکورہ مواد کا کچھ حصہ نوگام کے تھانے میں کیوں بھیج دیا گیا جہاں اس مواد کو سیل، کرتے وقت ایک زوردار دھماکا جمعہ کے روز ہوا۔ نو کے قریب ہلاکتوں کے بعد 20سے زیادہ لوگ شدید زخمی ہوئے۔ ان میں سے چند کو جھلسے جسموں کی وجہ سے بھارت کے کسی ہسپتال منتقل کرنا پڑے گا۔
دلی کے لال قلعہ کے قریب ہوئے کار دھماکے کے بعد سے میں بھارت سے چلائے بیانیے پر مستقل نگاہ رکھے ہوئے ہوں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنے ہاں ہوئے دہشت گردی کے واقع کا ذمہ دار اب پاکستان کو ٹھہرانے کے بجائے بھارتی مسلمانوں کے سر ڈالنے کی تیاری ہورہی ہے۔ جمعہ کے روز بھارتی صوبہ بہار کے انتخابی نتائج کا اعلان ہوا۔ روایتی تجزیوں اور تبصروں کو جھٹلاتے ہوئے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے بی جے پی سے مل کر ریکارڈ توڑ اکثریت حاصل کی ہے۔ حیران کن نتائج آنے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نے مبارک بادی تقریر میں راہول گاندھی کی آل انڈیا کانگریس کو مسلم لیگ اور مائو نواز کانگریس، پکارا۔ کانگریس نے لالوپرشاد یادیو کے ساتھ مل کر یہ الیکشن لڑا تھا۔ اس کا کلیدی نعرہ تھا M-Yیعنی مسلمان اور یادیو جاتی۔ مودی اس نعرے کا مذاق اڑاتے ہوئے مہیلائوں (خواتین) اور یوتھ کے اتحاد کو اپنی جیت کی وجہ بتاتا رہا۔
مودی کی تقریر سنتے ہوئے میں حیران رہ گیا۔ واضح الفاظ میں یہ تقریر بھارتی مسلمانوں کو یہ پیغام دیتی سنائی دی کہ انھیں خیروعافیت درکار ہے تو بھارت میں دوسرے درجے کے شہری بن کر رہنا ہوگا۔ وہ تقریر سننے اور بھارت سے آئی دو تصاویر دیکھنے کے بعد بخدا میں اس قابل نہیں رہا کہ ہفتے کے روز روایتی اور سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارموں پر چھائی خبر، پر توجہ دے سکوں۔