Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Hamare Hukumrano Ki Marzi, Anda Dein Ya Bacha

Hamare Hukumrano Ki Marzi, Anda Dein Ya Bacha

گزرے ہفتے کی جمعرات کی سہ پہر اسلام آباد کی فرض شناس اور عوام دوست پولیس نیشنل پریس کلب میں گھس گئی۔ نظر بظاہر وہ ان "تخریب کاروں"کی تلاش میں تھی جو مذکورہ کلب کے باہر آزادکشمیر کی عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے برپا ہوئی تحریک کی حمایت کے دعوے دار تھے۔ گنتی کے جو چند لوگ مظاہر ے کے لئے جمع تھے وہ یکجہتی کا اظہار والے نعرے لگاتے ہوئے تھک گئے تو پولیس نے ڈنڈے لہراکر ان کی گرفتاری کا عندیہ دیا۔ گرفتاری کے خوف سے اکثر مظاہرین پریس کلب کے نواح میں واقع گلیوں کی طرف بھاگتے ہوئے فرار ہوگئے۔ چاک وچوبند پولیس نے ان کا تعاقب کرنے کی زحمت اٹھانا گوارہ نہ کی۔ چند ناتواں افراد کو جو موقعہ پر ہی موجود رہے اٹھاکر پولیس کی قیدیوں والی گاڑیوں میں پھینکنا شروع کردیا۔

جو مظاہرہ ہورہا تھا اس کی کوریج کرنے والوں میں اکثریت ان صحافیوں کی تھی جو بذاتِ خود آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس خطے کی اسلام آباد سے قربت کی وجہ سے اس شہر میں مقیم بے شمار صحافیوں کا تعلق آزادکشمیر سے ہے۔ اس کے علاوہ راولپنڈی میں جو برسوں سے "کشمیر کی منڈی" کہلاتی رہی ہے کشمیری نڑاد محلے اور افراد کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ ان کی ایک مخصوص تعداد کا تعلق براہ راست آج کے مقبوضہ کشمیر کے مختلف شہروں اور قصبوں سے ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر سے امرتسر وغیرہ میں آباد ہونے کے بعد 1947ء کے فسادات کی وجہ سے بھی بے تحاشہ کشمیری بالآخر راولپنڈی آکر آباد ہوئے۔ ان میں سے کافی نوجوان صحافت سے وابستہ ہیں۔

گزشتہ کئی برسوں سے میڈیا کے معاشی بحران کی وجہ سے سینکڑوں صحافی بے روزگار ہوئے ہیں۔ اخبارات یا میڈیا سے بے روزگار ہونے کے بعد ایسے نوجوان صحافیوں نے کوئی اور دھندا اختیار کرنے کے بجائے اپنے ہاتھ میں موجود کیمرے کو "آلہ رزق" کی صورت دے کر سوشل میڈیا سے رزق کمانے کی کوشش کی۔ ایسے ہی چند صحافی جمعرات کے دن نیشنل پریس کلب کے باہر آزادکشمیر کی عوامی ایکشن کمیٹی کی حمایت میں ہوئے "احتجاجی مظاہرے" کی Stream Live کے ذریعے براہ راست کوریج کررہے تھے۔ ایسی کوریج کی وجوہات واضح ہیں۔ آزادکشمیر کے باسیوں کی بے پناہ تعداد غیر ملکوں خصوصاََ برطانیہ میں آباد ہے۔

برطانیہ کے برمنگھم، بریڈفورڈ اور نوٹنگھم وغیرہ میں بے شمار محلے ہیں جہاں سے گزرتے ہوئے آپ کے کانوں میں جو آوازیں سنائی دیتی ہیں وہ یہ سوچنے کو اُکساتی ہیں کہ جیسے آپ میرپور کی کسی گلی یا بازار سے گزررہے ہیں۔ برطانیہ میں آباد کشمیری آزادکشمیر کے واقعات کے بارے میں جائز بنیادوں پر پریشان تھے۔ میڈیا کے ذریعے پیغام رسائی کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے مجھے سو فیصد یقین ہے کہ آزادکشمیر کے صحافیوں کی جانب سے نیشنل پریس کلب کے باہر ہوئے احتجاجی مظاہرے کی لائیو کوریج سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہوگا کہ بقول منو بھائی "اجے قیامت نئیں آئی"۔ آزادکشمیر میں احتجاج شعلہ فشاں ہوچکا ہوتا تو اسلام آباد کے قلب میں واقع نیشنل پریس کلب کے باہر عوامی ایکشن کمیٹی کے مظاہرے سے اظہار یکجہتی کرنے والوں کی تعداد نسبتاََ محدود اور مختصر نہ ہوتی۔

طاقت کا نشہ جزئیات کو مگر خاطر میں نہیں لاتا۔ جلوس منتشر ہوگیا تو اپنے فرض کی ادائیگی کے بعد پریس کلب لوٹنے والے صحافیوں کو چن چن کر لاٹھیوں کی زد میں لاتے ہوئے "عبرت کا نشان" بنایا گیا۔ صحافیوں کو اب اعتبار دلایا جارہا ہے کہ پولیس تشدد کے "ذمہ داران" کے خلاف کارروائی ہوگی۔ میں پورے اعتماد سے لیکن اعلان کرتا ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت چند "تخریب کاروں" کو کٹ لگادی گئی ہے۔ سیف الملوک میں بیان کردہ "لِسا(کمزور)" اس کے بعد بے بس وتنہا ہی رہے گا۔ امید ہے آئندہ چند دنوں میں میری طرح بزدلی کی افادیت بھی دریافت کرلے گا۔

بزدلی کی اہمیت کے اعتراف کے باوجود یہ سوال اٹھانے کو جی مچل رہا ہے کہ اگر عوامی ایکشن کمیٹی واقعتا "غدار" تھی تو اس سے مذاکرات کے لئے وزیر اعظم پاکستان نے وطن لوٹنے سے قبل ہی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کیوں تشکیل دی۔ حیران کن امر یہ بھی ہے کہ ان دنوں میڈیا پر کمپنی کی مشہوری کے لئے پنجاب حکومت کے لتے لینے والی پاکستان پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف جو ہمارے وزیر اعظم بھی رہے ہیں مذکورہ کمیٹی کے سربراہ تھے۔ اسی جماعت کے ایک اور سرکردہ رہ نما جناب قمر زمان کائرہ بھی مسلم لیگ کے چند رہ نمائوں سمیت اس کمیٹی میں شامل تھے جس نے عوامی ایکشن کمیٹی سے "کامیاب" مذاکرت کئے۔

عوامی ایکشن کمیٹی کے تقریباََ تمام مطالبات اب مان لئے گئے ہیں۔ ایک مطالبہ مگر ایسا ہے جسے منظور کرلیا جائے تو پاکستان کا 1947ء سے تقریباََ 150سال تک قائم رہی ریاستِ جموں وکشمیر کے بارے میں اپنایا مؤقف مٹی میں مل جائے گا۔ قیام پاکستان کے ایک برس بعد مقبوضہ کشمیر میں شورش کودبانے کے لئے اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم کی ہدایت پر اس کے ملک نے اقوام متحدہ سے رجوع کیا تھا۔ کئی دنوں کی بحث کے بعد فیصلہ یہ ہوا کہ مہاراجہ کی چلائی ریاست کے تمام حصوں میں استصواب رائے کا انعقاد ہو۔ اس کے نتائج کی روشنی میں یہ فیصلہ ہوکہ ریاست پاکستان کا حصہ بنے یا بھارت کا۔ مذکورہ قرارداد پر بھارت نے عمل کرنے سے انکار کردیا۔ بالآخر 2019ء کی اگست کے پہلے ہفتے میں قدیم ریاست سے لداخ کو کاٹ کر "بھارتی یونین" کا حصہ بنادیا۔ جموں وکشمیر میں اب انتخابات ہوچکے ہیں۔ نام نہاد "منتخب" اسمبلی کے قیام کے باوجود بھارت کے زیر نگرانی جموں اور کشمیر میں معاملات مگر براہ راست دلی کی ہدایت پر ہی چلائے جارہے ہیں۔

آزادکشمیر کے آئین کے مطابق پاکستان کے لاہور، پشاور، راولپنڈی اور ضلع نارووال خصوصاََ شکرگڑھ میں براہ راست جموں اور وادی کشمیر کے شہر وں اور قصبات سے آکر بسے کشمیریوں کے لئے 12نشستیں مختص اس وجہ سے ہیں کہ پاکستان آج بھی ڈوگرہ راج کے زیرنگران چلائی ریاستِ جموں وکشمیر کو "اکائی" کی صورت دیکھتا ہے۔ ان نشستوں سے عوامی ایکشن کمیٹی کی دلجوئی کی خاطر دست بردار ہوجانا پاکستان کے مسئلہ کشمیر پر اپنائے دیرینہ موقف کی نفی ہے۔ میری ناقص رائے میں مذکورہ مطالبے کو "ناقابل مذاکرات" قرار دیا جانا چاہیے تھا۔ ہمارے حکمران مگر مجھ دوٹکے کے صحافی سے کہیں زیادہ ذہین ہیں۔ محاورے والا ہاتھی ہیں۔ ان کی مرضی-انڈہ دیں یا بچہ۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran