Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Hamare Iqtisadi Dukhon Ka Asal Sabab Gardishi Qarze

Hamare Iqtisadi Dukhon Ka Asal Sabab Gardishi Qarze

صحافیوں کو Jack of all Trades Master of Noneیعنی دنیا کے ہر دھندے، شعبے اور موضوع کے بارے میں شدھ بدھ رکھنے کے باوجود کسی بھی شعبے کا "ماہر" نہیں گردانا جاتا۔ ہم صحافیوں کی اکثریت مگر خود کو عقل کل تصور کرتے ہوئے عوام اور خصوصاََ حکمران طبقات کو اپنے گرانقدر خیالات سے رہ نمائی فراہم کرنے کی علت میں مبتلا ہے۔ ربّ کا لاکھ بار شکر کہ 1975ء سے صحافت کے ساتھ تا حیات وابستگی اختیار کرنے کے باوجود میں نے خود کو عقل کل تصور کرنے سے ہمیشہ گریز اختیار کیا۔ کئی بار چوندی چوندی خبر محض اس وجہ سے لکھ نہیں پایا کہ وہ جس موضوع سے متعلق تھی اس کی بابت مجھے ککھ علم نہیں تھا۔

جن موضوعات پر اپنی لاعلمی کے سبب لکھنے سے گریز کیا ان میں سے اہم ترین نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ تھا۔ اس کا سلسلہ تو جنرل ضیاء کے دور ہی میں شروع ہوگیا تھا۔ بہت بڑے پیمانے پر اس کا چلن محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ اقتدار میں متعارف ہوا۔ مسلم لیگ (نون) ان منصوبوں کی سخت ناقد تھی۔ اس کی اکثریت کا یہ خیال تھا کہ نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والوں کے محض یہ سوچ کرناز اٹھائے جارہے ہیں کہ نجی شعبے میں بجلی کی بے تحاشہ پیداوار سے لوگ کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے۔ میری جاہلانہ سوچ کے مطابق اگرچہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا اصل مقصد پانی کو ذخیرہ کرنا تھا۔ بجلی کی پیداوار اس کا اضافی فائدہ ہوسکتا تھا۔

بجلی کو نجی سرمایہ کاری کے ذریعے پیدا کرنے والے منصوبوں کے محترمہ کے دوسرے دور حکومت میں انچارج شاہد نام کے کوئی صاحب تھے۔ میں نے کم از کم تین بار موصوف سے نہایت عاجزی کے ساتھ رابطہ کیا۔ ان سے کچھ وقت نکال کر مجھ جاہل کو نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والے منصوبے کی ضرورت واہمیت سمجھانے کی درخواست کی۔ موصوف اپنی مصروفیات کا نہایت رعونت سے ذکر کرنے کے بعد "کسی دن" کا وعدہ کرلیتے۔ سفارتی تقریبات میں انہیں دیکھ کر میں چاپلوسوں کی طرح ان کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔

وہ سفارت کاروں کے ہجوم میں گھرے ہوتے۔ میں ان تک پہنچتا تو ہاتھ کی دوانگلیاں مصافحے کو بڑھاتے اور بدن بولی سے یہ تاثر دیتے کہ ان کے اردگرد جمع ہوئے سفارت کار کسی اہم موضوع پر گفتگو کررہے تھے۔ وہ اخباری رپورٹر کی موجودگی میں خاموش ہوجائیں گے۔ اتفاق یہ بھی ہوتا کہ جن سفارت کاروں میں وہ گھرے ہوتے ان میں سے چند کے ساتھ میری کافی بے تکلفی بھی تھی۔ شاہد صاحب کی رعونت کو اس کے باوجود میں "عظیم تر قومی مفاد" میں برداشت کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتا۔ کچھ وقت گزرگیا تو سفارتی تقاریب میں شاہد صاحب اکیلے بھی کھڑے ہوتے تو میں ان کی جانب بڑھنے سے گریز کرتا۔ دو ٹکے کا صحافی بن جانے کے باوجود اُن دِنوں انا کی تھوڑی رمق ابھی باقی تھی۔

یہ بات مگر تسلیم کرنا ہوگی کہ ہماری "مدد" کرنے والے ملکوں کے اکثر سفارتکار نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والے منصوبے کے شدید حامی تھے۔ نجی محفلوں میں "آف دی ریکارڈ" اصرار کرتے کہ مذکورہ منصوبہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری لارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے دیگر شعبوں میں بھی غیر ملکی سرمایہ کاری آسکتی ہے۔ وہ نہ بھی آئے تب بھی ہمارے لئے "لوڈشیڈنگ" کا عذاب تو چند برس بعد ختم ہوسکتا ہے۔ عمومی تبصروں کے علاوہ تفصیلی معلومات مگر ان سے بھی نصیب نہ ہوئیں اور میں بطور رپورٹر دیگر موضوعات کا پیچھا کرنا شروع ہوگیا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی دوسری حکومت ختم ہوئی تو سیف الرحمن 1997ء میں احتساب بیورو کے سربراہ مقرر ہوگئے۔ وہ بہت ہی جلدی میں تھے اور ایک پل چین سے نہیں بیٹھتے تھے۔ میں نے ان کا نام "احتساب الرحمن" رکھ دیا۔ اس پر وہ ناراض ہوگئے۔ ارشاد فرمایا کہ میں یہ نام لکھتے وقت سنگین گناہ کا مرتکب ہورہا ہوں۔ گنہگار گھبرا گیا تو وہ نرم ہوگئے۔ وہ چن چن کر بجلی پیدا کرنے والوں کو گرفتار کرکے الٹا لٹکانے کو بے چین تھے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ ان سے کسی طرح سمجھ پائوں کہ اس دھندے کی "اندرونی کہانی" کیا ہے۔ وہ مگر فقط "بہت ظلم ہوا ہے-بہت ظلم" ہذیاتی انداز میں دہراتے ہوئے تفصیلات کی جانب ہرگز نہ آتے۔

1990ء کی دہائی کو گزرے عرصہ ہوگیا ہے۔ 2025ء میں لیکن اپنی ذاتی مشکلات اور قوم کی معاشی ابتری کو دیکھتا ہوں تو مجھ جاہل کو احساس ہوتا ہے کہ ہمارے اقتصادی دُکھوں کا اصل سبب "گردشی قرضہ" ہے۔ نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والوں کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے یہ مسلسل بڑھے چلے جارہا ہے۔ اس کی وجہ سے ہم جیسے دیہاڑی داروں اور کم تنخواہ والوں کی ماہانہ آمدنی کا تقریباََ 30سے 35فیصد فقط بجلی کے بلوں کی ادائیگی میں خرچ ہوجاتا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مذکورہ مسئلہ حل کئے بغیر پاکستان اقتصادی ترقی کی جانب کیسے بڑھ سکتا ہے۔

"گردشی قرضے" کے بارے میں کئی مہینوں سے مسلسل سوچتے ہوئے مجھے قوی امید تھی کہ حال ہی میں حکومت پاکستان کی فرمائش پر عالمی معیشت کے نگہبان آئی ایم ایف نے جو رپورٹ تیار کی ہے اس میں اس مسئلے کا تفصیلی ذکر ہوگا۔ آپ کے روبرو ایمان سے اعتراف کرتا ہوں کہ محض "گردشی قرضے" کی وجہ پاکستانی معیشت پر چھائی کساد بازاری کو ذ ہن میں رکھتے ہوئے میں نے بہت چائو سے آئی ایم ایف کی اس رپورٹ کو جسے حکومت پاکستان پبلک کرنے سے ہچکچا رہی تھی جمعرات کے روز ڈائون لوڈ کروایا۔ اس ارادے کے ساتھ کہ گزشتہ ہفتے کی چھٹیوں کے دوران اس کے ایک ایک لفظ کو توجہ سے پڑھا جائے گا۔

186 صفحات پر مشتمل مذکورہ رپورٹ میں پاکستان کے ہر معاشی مرض کا ذکر ہے۔ نام نہاد "کیس سٹڈی" کے طورپر شوگر مافیا کی کارستانیوں کا بھی تفصیلاََ ذکر ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے کسی ایک صفحے پر بھی لیکن یہ اعتراف نہیں ہوا کہ نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے کی ہوس میں پاکستان نے گردشی قرضے کی لعنت اپنے سرمول لی ہے۔ اس سے چھٹکارے کا کوئی نسخہ بھی اس بھاری بھرکم رپورٹ میں تجویز نہیں ہوا۔ آئی ایم ایف رپورٹ کی گردشی قرضے جیسے موذی مرض سے غفلت کی وجہ فقط یہ حقیقت تو نہیں کہ بجلی کا ایک یونٹ پیدا کئے بغیر بھی محض اپنی کیپیسٹی (Capacity)کی بنیاد پر نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والے اکثر کارخانوں کے مالکان کے حصے دار ان ہی ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں جو آئی ایم ایف جیسے اداروں کے کرتا دھرتا ہیں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran