خدا کا شکر ہے کہ اسرائیل یا امریکہ کا ایجنٹ ٹھہرائے بغیر چند قارئین نے بدھ کی صبح چھپے کالم کو پڑھنے کے بعد مجھ پر فقط بزدلی اور امید کھودینے کے الزام لگائے ہیں۔ ان کی دانست میں امریکی صدر ٹرمپ نے غزہ میں امن کی بحالی کے لئے جو 20نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے وہ فلسطینیوں کے دُکھوں کا مداوا نہیں۔ میں البتہ اس کا "خیرمقدم" کرتا محسوس ہوا۔
حبیب جالب نے کئی برس قبل "علاج غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں" والا مصرعہ لکھتے ہوئے نازک حساس معاملات کے بارے میں اپنائی جذباتی سوچ کا کھوکھلا پن عیاں کردیا تھا۔ اپنی ناک اونچی رکھنے اور فلسطینیوں کے "اصول پسند" دوستوں کا دل رکھنے کو میں نہایت شدت سے ٹرمپ کے دئے فارمولے کو یکسر مسترد کرنے کو تیار ہوں۔ سوال مگر یہ اٹھانا بھی لازمی ہے کہ میری جانب سے مذکورہ فارمولے کی مذمت غزہ کی پٹی میں محصور ہوئے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی زندگی محفوظ بنادے گی؟ ان کے لئے خوراک، پانی اور صحت عامہ کی سہولتیں یقینی بنادے گی؟ ان سوالات کے جواب نفی میں ہیں۔ ہم مگر اپنے گھروں میں راحت سے بیٹھے "اصول پسندی" کا ورد کرتے ہوئے مزید فلسطینیوں کی ہلاکتیں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے دیکھنے کو تیار نظر آرہے ہیں۔
اپنے تئیں اصول پسند ہوئے انقلابیوں کی سوچ کو نظر انداز کرتے ہوئے انسانی ہمدردی کے جذبات کو بروئے کار لانا ہوگا۔ زندگی خدا کی نعمت ہے۔ اس کی قدر لازمی ہے۔ امریکی صدر کے دئے فارمولے کا خیرمقدم فوری جنگ بندی کو یقینی بنادے تو اس کے دئے 20نکات پر سنجیدگی سے نظرثانی کی راہیں نکالی جاسکتی ہیں۔ ٹرمپ فارمولے کو یکسر مسترد کردینا نیتن یاہو کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہوگا جسے امریکی صدر نے ٹی وی کیمروں کے روبرو یہ "حق" فراہم کردیا ہے کہ اگر حماس ٹرمپ کے دئے فارمولے کو قبول کرنے کو رضا مند نہ ہو تو غزہ میں وحشیانہ بمباری جاری رکھی جائے۔ بات فقط بمباری پر ہی ختم نہیں ہوگی۔ اسرائیل غزہ میں اپنی افواج کے مزید دستے بھیجنے کے بعد بڑے پیمانے کے قتل عام میں بھی مصروف ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں جو نسل کشی ہوگی اسے روکنے کا فارمولہ میرے انقلابی دوستوں کے پاس موجود نہیں ہے۔
جس کالم نے انقلابیوں کو اشتعال دلایا اس کا بنیادی پیغام میں نے فیض احمد فیض کی فکر مندانہ سوچ سے اخذ کیا تھا۔ اپنی وفات سے چند ہفتے قبل وہ اسلام آباد تشریف لائے تو یاسر عرفات اور ان کی پی ایل او کی دربدری کے بارے میں بہت پریشان تھے۔ 1970ء کی دہائی میں انہیں اردن نے لبنان منتقل ہونے کو مجبور کیا تھا۔ دس سال گزرنے کے بعد مگر لبنان کی مسیحی انتہا پسند جماعتوں نے فلسطینیوں کو "دہشت گرد" ٹھہراتے ہوئے لبنان سے بھی نکالنے کے مطالبے شروع کردئے۔ اپنے تئیں"بلادِ فلسطین" کا یک وتنہا ترجمان بنا شام کا حافظ الاسد بھی ان کی خفیہ سرپرستی میں مصروف ہوگیا۔ لبنان کی فلسطین دشمن قوتیں یاسر عرفات اور پی ایل او کو جھکانے میں ناکام رہیں تو اسرائیل کی فوج جنوبی لبنان میں گھس آئی۔ وہاں موجود صابرہ اور شطیلہ نامی مہاجر بستیوں کو تباہ وبرباد کردیا۔ بالآخر یاسر عرفات کے پاس واحد راہ یہ بچی کہ وہ اپنے لوگوں کو لے کر اسرائیل سے کہیں دور افریقی ملک تیونس چلے جائیں۔
یاسر عرفات اور پی ایل او کو "دہشت گرد" ٹھہراکر تیونس بھیجنے والی قوتوں اور حکومتوں نے مگر 1980ہی کی دہائی میں افغانستان کو کمیونسٹ روس سے آزاد کروانے کے لئے "افغان جہاد" کی سرپرستی شروع کردی۔ دنیا کے تقریباََ ہر مسلمان ملک سے "نوجوان جہادی" کمیونسٹ روس کو شکست دینے کے لئے پاکستان آنا شروع ہوگئے۔ جن "انقلابیوں" کو پاکستان کے ذریعے افغانستان میں"جہاد" کی اجازت ملی ان کی اکثریت مصر جیسے عرب ملکوں میں کئی برسوں سے "اسلامی تشدد پرست" ہونے کے الزام میں ناپسندیدہ عناصر شمار ہورہی تھی۔ "افغان جہاد" کی راہ دکھا کر ان "ناپسندیدہ عناصر"سے جند چھڑالی گئی۔
ہمارے ہاں جو لوگ "اسرائیل کے ہمساے" سے اٹھ کر "جہاد" کی خاطر وارد ہوئے ان میں اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری جیسے بڑے نام بھی تھے۔ میں آج تک سمجھ نہیں پایا کہ بطور عرب ان پر "جہاد" افغانستان ہی کے لئے واجب کیوں تھا۔ اسے اسرائیل کے خلاف برپا کیوں نہ کیا گیا۔ "مہمان جہادیوں" کی بدولت پاکستان آج بھی بدترین دہشت گردی کا شکار ہے۔ منگل کے روز ہی کوئٹہ کی ایک مرکزی شاہراہ پر جو دہشت گرد حملہ ہوا اس کی تفصیلات پڑھتے ہوئے دل ڈوبنا شروع ہوجاتا ہے۔
" میں نہ مانوں" کی بچگانہ ضد میں مبتلا ہونے کے بجائے ہمیں صدر ٹرمپ کے دئے فارمولے کو تسلیم کرنے کے بعد اس کی تفصیلات پر نظرثانی کو مائل کرنا ہوگا۔ ٹرمپ کے دئے فارمولے کو غور سے پڑھیں تو یہ غزہ کو محض زمین کا ایک ٹکڑا سمجھتا ہے جسے "ڈیولپ" کرکے قیمتی جائیداد میں بدلاجاسکتا ہے۔ ٹرمپ خاندانی اعتبار سے پراپرٹی ڈیلر ہے۔ غزہ کے حوالے سے اس کا تیار کردہ فار مولا درحقیقت اس شخص نے تشکیل دیا ہے جو برسوں سے اس کا کاروباری شریک رہا ہے۔ Witkoff Steve اس کا نام ہے۔ امریکہ کادوبار صدر منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ نے اسے "خصوصی سفیر" تعینات کیا ہے۔
روس اور مشرق وسطیٰ سے معاملات وہ ہی طے کرے گا۔ سٹیو کے تیار کردہ فارمولے کا بنیادی ہدف فلسطینی حقوق کا حصول نہیں۔ غزہ کی پٹی کو اپنی "ملکیت" میں لے کر اسے سمندر کے کنارے آباد ایک وسیع وعریض جزیرے میں بدلنا ہے جہاں دنیا کے امیر ترین لوگ چھٹیاں گزارنے کے لئے گھر خریدیں۔ بیچ ہائوسز سے لطف اندوز ہوں اور غزہ کو بحری تجارت کا پھلتا پھولتا مرکز بنائیں۔ فلسطین کی تاریخ اور غزہ کے باسیوں کے اجتماعی اور تاریخی جذبات 20نکاتی فارمولے میں ایک بار بھی عیاں نہیں ہوتے۔ اہم ترین پہلو یہ بھی ہے کہ ٹرمپ کا 20نکاتی فارمولہ غزہ میں جنگ بندی اور انسانی زندگی کی بحالی کے بعد غزہ کو فلسطینی ریاست کے حوالے کردینے کا کوئی ٹائم ٹیبل فراہم نہیں کرتا۔ اس کے بغیر "دوریاستی حل" کے دعوے پر بھی اعتبار کرنے کو جی نہیں چاہتا۔