Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Irfan Siddiqui Ke Intiqal Ke Muntazir Siasat Ke Gande Khel Ke Chaska Farosh

Irfan Siddiqui Ke Intiqal Ke Muntazir Siasat Ke Gande Khel Ke Chaska Farosh

عرفان صدیقی مجھ سے عمر میں کئی سال بڑے تھے۔ عمر کے فرق سے کہیں زیادہ مگر ہم دونوں "نظریاتی" اعتبار سے مختلف خیالات کے حامل تھے۔ ان کے ہوتے ہوئے میرے اور ان کے مابین قربت اور دوستی کے امکانات کی گنجائش ہی نہ تھی۔ مذکورہ گنجائش کے نہ ہوتے ہوئے بھی لیکن وہ جب بھی کسی تقریب یا پارلیمان کی راہداریوں میں مل جاتے تو ہمیشہ نہایت شفقت سے حال احوال پوچھا۔

میرے کسی کالم میں لکھی کسی ترکیب یا استعارے کو "چست" اور "کمال" کہتے ہوئے سراہا۔ وہ میری نثر یا اسلوب کی تعریف کرتے تو میں گھبراجاتا۔ اردو زبان کے استاد تھے اور اس کی بنیادوں پر کامل گرفت کے حامل۔ اس گرفت کی بدولت ہی انہوں نے انگریزی کی چند اصطلاحات کا حیران کن ترجمہ کیا۔ Language Body مثال کے طورپر ٹی وی صحافت میں اکثر استعمال ہوتی ہے۔ انہوں نے اس کا ترجمہ "بدن بولی" کیا تو "سادگی وپرکاری" کا امتزاج سمجھ میں آگیا۔

ان سے دوستی اور قربت نہ ہونے کے باوجود دسمبر2022ء کے بعد جب بھی ان سے ملتا احساسِ جرم میں مبتلا ہوجاتا۔ اس ماہ کے ابتدائی ہفتے میں میری بڑی بیٹی کی شادی ہوئی تھی۔ اس کی رخصتی کی خبر اور تصاویر "نوائے وقت" میں چھپیں تو مجھے ان کا لکھا ایک خط ملا۔ اسے دہرانا ضروری ہے۔ سینٹ آف پاکستان کے سرکاری پیڈ پر لکھے اس خط میں "برادر محترم نصرت جاوید صاحب" کو سلام دینے کے بعد انہوں نے فرمایا کہ "مجھے اپنے احباب اور اخبارات کے ذریعے آپ کی صاحبزادی کی شادی خانہ آبادی کی خبر ملی۔ معلوم ہوتا تو رخصتی اور دعائوں میں ضرور شریک ہوتا۔ دوبیٹیوں کا باپ ہوتے ہوئے میں بخوبی اندازہ لگاسکتا ہوں کہ بیٹیوں کی رخصتی خوشی اور رنج کے جذبات کا کیسا منفرد امتزاج ہوتی ہے۔ لیکن نصرت بھائی! بیٹیاں رخصت ہی کہاں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی بیٹی کو آسودہ رکھے۔ اس کی نئی زندگی خوشیوں اور کامرانی سے مالا مال ہو۔ اس کی طرف سے آپ کو ہمیشہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آتے رہیں"۔

یہ خط پڑھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ عرفان صاحب خود کو میرا "واقف" نہیں دوست شمار کرتے تھے اور انہیں یہ گماں تھا کہ میرے جذبات بھی ان کے بارے میں ایسے ہی ہیں۔ اس پس منظر کو نگاہ میں رکھتے ہوئے انہیں رنج ہوا کہ میں نے اپنی بیٹی کی رخصتی کی تقریب میں انہیں مدعو نہیں کیا تھا۔ خود کو نظرانداز کیے جانے کے جذبات وہ منافقانہ طورپر اپنے دل تک محدود رکھ سکتے تھے۔ منافقانہ خاموشی اختیار کرنے کے بجائے انہوں نے نہایت ہی شستہ اور ادبی زبان میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ اپنی بیٹی کی رخصتی سے "فرض پورا ہوجانے" کے اطمینان کے باوجود میں کافی اداس بھی تھا کیونکہ وہ اپنے خاوند کی نوکری کی وجہ سے بیرون ملک جارہی تھی۔

پیشہ وارانہ لحاظ سے بھی میں ان دنوں تھوڑا پریشان تھا۔ ایسے عالم میں اپنا "احتجاج" ریکارڈ کروانے کے باوجود انہوں نے "دوبیٹیوں کے باپ ہوتے ہوئے" میرے ساتھ جذباتی یگانگت دکھائی۔ "یگانگت" اجاگر کرتے ہوئے "لیکن نصرت بھائی! بیٹیاں رخصت ہی کہاں ہوتی ہیں " والے فقرے سے فیض احمد فیض کے ایک مصرعہ کے مطابق "اس قدر پیار سے " دل پہ ہاتھ ر کھتے ہوئے جس انداز میں تسلی دی وہ میری آنکھوں سے آنسو ٹپکانے کا باعث ہوئی۔ اس خط کے بعد ان کے ہوتے ہوئے مجھے ایک شفیق اور ہمدرد بزرگ کی موجودگی کا حوصلہ میسر رہا۔

ایسے شفیق اور ہمدرد انسان کی وفات کے روزمگر دنیا نے اپنی سفاکی بھرپور انداز میں دکھائی۔ پیر کے روز آئین کی 27ویں ترمیم منظوری کے لئے ایوانِ بالایعنی سینٹ میں پیش ہوئی تھی۔ حکومت کو اسے منظور کروانے کے لئے 64ووٹ درکار تھے۔ اس ہدف کو وہ اپوزیشن کے کم از کم دو بندے توڑے بغیر حاصل نہیں کرسکتی تھی۔ دریں اثناء سوشل میڈیا کے ذریعے ملک میں "انقلاب" لانے کو بے چین افراد نے یہ افواہ پھیلادی کہ عرفان صاحب کا "انتقال" ہوگیا ہے۔

حکومت مگر اس "خبر" کو چھپارہی ہے کیونکہ اگر کوئی سینیٹر اور قومی اسمبلی کا رکن وفات پاجائے تو اس کی موت کے دن یا اس کے فوری بعد بلائے سیشن کا پہلا اجلاس مرحوم کی روح کو ایصال ثواب پہنچانے کے بعد ملتوی کردیا جاتا ہے۔ "عدلیہ کی آزادی" کے تحفظ کو برقرار رکھنے کو بے چین لوگوں کی خام خیالی تھی کہ پیر کے روز سینٹ اجلاس عرفان صدیقی صاحب کے "انتقال" کی بدولت نہ ہوپاتا تو شاید آئین میں 27ویں ترمیم پاس کروانے میں حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا۔

ذاتی طورپر مجھے آئین میں 27ویں ترمیم منظور یا نامنظور ہوجانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ عملی رپورٹنگ سے عرصہ ہوا ریٹائرڈ ہوجانے کے باوجود مجھے علم تھا کہ بے پناہ اختیارات سے مالا مال حکومت 27ویں ترمیم کو قومی اسمبلی سے قبل سینٹ سے منظور کروانے کا "بندوبست" کرچکی ہے اور عرفان صدیقی صاحب کی عدم موجودگی کے باوجود اس نے اپنا ہدف مکمل کرلیا۔ اس ضمن میں اسے چیئرمین یوسف رضا گیلانی کے ووٹ کی ضرورت بھی محسوس نہ ہوئی۔ تحریک انصاف اور جمعیت العلمائے اسلام کے دو "لوٹوں " کی مدد سے حکومتی بندوبست "عدلیہ کو لگام" ڈالنے کے قابل ہوگیا۔ مجھے یہ بھی خبر ہے کہ اپوزیشن کی صفوں میں سے حکومت نے مزید تین سینیٹربھی "توڑ" رکھے ہیں۔ بوقت ضرورت انہیں بھی "شو" کیا جاسکتا ہے۔

حقائق سے قطعی بے خبر اور سیاست کے گندے کھیل میں "اصول" وغیرہ تلاش کرتے دوست تلخ حقائق نظرانداز کرتے ہوئے لیکن عرفان صدیقی کے "انتقال" کی "خبر" پھیلاتے رہے۔ ان کے خاندان کے ا فراد نے کم از کم دوبار سوشل میڈیا پرواضح الفاظ میں وضاحت کی کہ عرفان صاحب یقیناََ شدید علیل ہونے کی وجہ سے ایک ہسپتال کے انتہائی نگہداشت والے شعبے میں داخل ہیں۔ انہیں مگر وینٹلیٹرنہیں لگا۔ ان کے انتقال کی خبر پھیلانے کے بجائے ان کی صحت کی دُعا مانگی جائے۔

اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں لیکن عرفان صدیقی کے بچوں کی فریاد کسی نے سنجیدگی سے نہیں لی۔ سیاست کے گندے کھیل میں "اصول" تلاش کرنے والے 27ویں ترمیم کی منظوری رکوانے کے لئے عرفان صدیقی کی "وفات" کے منتظر رہے۔ ان کے رویے نے مجھے جوش ملیح آبادی کی یاد دلادی۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران برٹش انڈیا کے باسیوں کو برطانوی فوج میں شمولیت کو اُکسانے کے لئے آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ بخاری برادران جیسے افسر مشہور شاعروں سے گیت اور نغمے لکھنے کے لئے رابطے کررہے تھے۔ ان رابطوں کی بدولت "شاہنامہ اسلام" کے خالق حفیظ جالندھری نے "میں تو چھورے کو بھرتی کرا آئی رے" والا گیت لکھا۔ جوش ملیح آبادی سے فرمائش ہوئی توانہوں نے دیہاتی عورتوں کے دئیے طعنوں کی طرح "اللہ جرمن کی توپوں میں کیڑے پڑیں " والا مکھڑا لکھا اور بخاری برادران مزید کچھ سنے بغیر ان کے ہاں سے کھسک لئے۔

بڑھاپے سے نفرت دورِ حاضر کے انقلابیوں کا خاصہ ہے۔ تیزی سے اس دنیا سے رخصت ہوتے علم وادب سے حقیقی شفقت رکھنے والے بزرگ مگر چند ایسی روایتوں کے امین بھی ہیں جو بقول ناصر کاظمی آفتوں کے دور میں چین کے چند لمحات فراہم کرسکتے ہیں۔ خدارا ان کی قدر کیجئے۔ سیاست کے گندے کھیل میں "اصول پسندی" کے نام پر چسکہ فروشی ہراعتبار سے سفاکیت کے سوا کچھ بھی نہیں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran