Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Islamabad Ke Mutwasat Makeeno Aur Unke Gharelu Mulazmeen Ke Masail

Islamabad Ke Mutwasat Makeeno Aur Unke Gharelu Mulazmeen Ke Masail

پاکستان کے دیگر شہروں میں جس موضوع کے بارے میں لکھنے جارہا ہوں اس کے حوالے سے کیا صورتحال ہے اس کی بابت لاعلم ہوں۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران اسلام آباد میں مقیم جن دوستوں سے ملاقات ہوئی وہ البتہ اپنے گھریلو ملازمین کی بابت بہت پریشان دکھائی دئے۔ مزید بڑھنے سے قبل یہ وضاحت ضروری ہے کہ اسلام آباد کے نسبتاََ خوش حال گھروں کے رہائشی عموماََ اپنے ملازمین کے خلاف "کام چوری" کے الزامات لگانے کے عادی رہے ہیں۔ گھر میں صفائی ستھرائی کے لئے آنے والی خواتین کو اکثر کوئی قیمتی کپڑا یا زیور گم ہوجائے تو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

میں جس پریشانی کا ذکر گزشتہ دو ہفتوں کے دوران مسلسل سنتا رہا ہوں اس کا اظہار ان افراد کی جانب سے ہوا جو طبعاََ انسان دوست ہیں۔ گھریلو ملازموں کو غلام تصور نہیں کرتے۔ یہ افراد دُکھ بھری آواز میں گلہ کرتے رہے کہ ہر مہینے ان کا بااعتماد ووفادار ملازم اپنے بجلی کے بل، بچوں کے سکول کی فیسوں اور گھروں کے کرائے کا رونا روتے ہوئے تنخواہ میں اضافے کی فریاد کرتا ہے۔

مجھ سے گفتگو کرنے والی ایک مہربان خاتون گزشتہ 3مہینوں کے دوران اپنے ملازموں کی تنخواہ میں ہر مہینے ایک ہزار روپے کا اضافہ کرتی رہی ہیں۔ وہ خود بھی ایک ملازم پیشہ خاتون ہیں۔ سفید پوشی کا محض بھرم برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ روہانسی آواز میں یہ پوچھنے کو مجبور ہوگئیں کہ کب تک وہ اپنے ملازمین کے ساتھ یہ رویہ برقرار رکھ سکتی ہیں۔ ان کو تسلی دینے کے بجائے میں خود یہ اعتراف کرنے کو مجبور ہوا کہ میں اور میری بیوی بھی گزشتہ دو مہینوں میں اپنے ملازمین کی اجرت ہر ماہ بڑھانے کو مجبور ہوئے۔

1975ء میں اسلام آباد آیا تھا۔ ان دنوں گھریلو کام کے لئے زیادہ تر ملازم خیبرپختونخواہ کے پسماندہ دیہات سے آیا کرتے تھے۔ گدون امازئی کا علاقہ اس ضمن میں سرفہرست تھا۔ اسلام آباد ان دنوں "نیا شہر" تصور ہوتا تھا۔ یہاں عموماََ زمیندار گھرانوں کے بچے سی ایس ایس وغیرہ کے امتحان کے بعد سرکاری ملازمت کے لئے آتے تو انہیں سرکار سے جو مکان ملتااس میں "سرونٹ" کوارٹر" بھی ہوا کرتا تھا۔

عموماََ یہ کوارٹر ان کے آبائی دیہات سے آئے کسی غریب ملازم کے سپرد کردیا جاتا۔ اسلام آباد آیا سرکاری ملازم شادی شدہ ہوتا تو عموماََ ان کے کوارٹر میں رہنے والا ملازم کوئی "بزرگ" شخص ہوتا جو کھانا بنانے کے علاوہ گھر کی "چوکیداری" کے فرائض بھی سرانجام دیتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد منتقل ہونے والے اپنے آبائی گاؤں یا قصبے سے میاں بیوی کو لے آتے۔ مرد ملازم ڈرائیور کا فریضہ بھی سرانجام دے لیتا۔ اس کی بیوی گھر کی صفائی ستھرائی کے علاوہ کھانا بھی پکاتی اور صاحب کے بچوں کی آیا کے فرائض بھی سرانجام دیتی۔

1990ء کی دہائی سے یہ چلن بھی بدلنا شروع ہوگیا۔ آبائی گاؤں اور قصبوں سے گھریلو کام کاج کے لئے بے زمین کسانوں کی اولادوں نے اسلام آباد منتقل ہونا چھوڑ دیا۔ ان کی جگہ گھریلو کام کاج کے لئے اسلام آباد کے نواحی ہری پور سے بے تحاشہ ملازم میسر ہونا شروع ہوگئے۔ مرد ملازم مگر ڈرائیور ہوتے تو کھانا پکانے کے ہنر سے ناواقف۔ خانساماں مل جاتا تب بھی گھر کی صفائی ستھرائی کے علاوہ کپڑوں کی دھلائی اور استری کے لئے خاتون ملازم درکار ہوتی۔ اسلام آباد میں متوسط طبقے کے اکثر گھرانوں میں لہٰذا عموماََ چار ملازم ہوتے۔ ڈرائیور، خانساماں، غسل خانے اور کمروں کی صفائی والا جزوقتی ملازم اور ایک خاتون ملازمہ۔ غیر ملکوں سے سفارت خانوں میں تعینات افراد اسلام آباد کے گھروں میں نوکروں کی اتنی بڑی تعداد سے بہت متاثر ہوتے۔ پاکستان کو ایک خوش حال ملک گردانتے۔ 2015ء کے بعد سے مگر ملازموں کی یہ تعداد برقرار رکھنا ناممکن ہورہا ہے۔

متوسط طبقے کی گھریلو خاتون صفائی ستھرائی کے جدید آلات کی مدد سے کمروں کو صاف رکھنے کے علاوہ کھانا بھی پکاتی ہیں۔ فقط شوہر کی کمائی سے متوسط طبقے کے لئے سفید پوشی کا بھرم رکھنا اب ممکن نہیں رہا۔ اب گھر کی خاتون کو بھی گھر سے باہر جاکر نوکری کرنا ہوتی ہے۔ ان حالات میں ایسے "خانسامے" ڈھونڈنا ضروری ہوگیا ہے جو شوہر اور بیوی کی عدم موجودگی میں گھر کی "چوکیداری" کے علاوہ اس قابل بھی ہوں کہ سکول جانے والے بچوں کو چھٹی ہوجانے کے بعد وہاں سے واپس لاسکیں۔ عموماََ ایسا "خانساماں" مالکان کو مجبور کرتا ہے کہ اس کی بیوی کو اضافی رقم دے کر کپڑے دھونے اور انہیں استری کرنے کے علاوہ بچوں کی دیکھ بھال کے لئے مامور کردیا جائے۔ اوسط متوسط طبقے کے گھر میں آپ کو صبح غسل خانے کی صفائی کے لئے آنے والے کے علاوہ اب محض دو ملازم نظر آتے ہیں۔

میاں بیوی کو سرونٹ کوارٹر مل جائے تو وہ ٹی وی اور کولر کے طلب گار بھی ہوتے ہیں۔ ان کے دو بچے ہوں تو ان کے سکول جانے سے بھی آپ نہیں گھبراتے بلکہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ "منڈے(لڑکے) کی تلاش میں لیکن آپ کے ملازموں کے بچوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے تو وہ عموماََ ازخود یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ سرونٹ کوارٹر چھوڑ کر اسلام آباد کی کسی کچی بستی میں منتقل ہوجائیں۔ ظاہر ہے وہاں بنائے مکانات "غیر قانونی"ہیں۔ وہ جب بن رہے ہوتے ہیں تو حکومت ان کی تعمیر روکنے کی کوشش بددلی سے کرتی ہے۔

قانون کی نگاہ میں "غیر قانونی بستی" میں کچھ گھریلو ملازمین نے قسطوں پر دو کمرے بھی خرید رکھے ہیں۔ وہ صبح سوزوکیوں میں لدکر کام کرنے جاتے ہیں اور شام کو واپس گھر لوٹنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے افرد کی اکثریت چند برس قبل اسلام آباد کے مارگلہ روڈ کے پچھواڑے میں برسوں سے موجود سید پور گاؤں میں تعمیر ہوئی "کچی بستیوں" میں منتقل ہوگئی۔ ایک کثیر تعداد بری امام کے مزار کے قریب بنی ایک اور بستی میں بھی رہائش پذیر ہے۔ ان دونوں مقامات سے آپ کے گھر آنے والوں نے بجلی کے بلوں کے علاوہ پٹرول کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے کی بنیاد پر اپنی تنخواہ میں اضافے کے مطالبے شروع کئے۔

چند ہفتے قبل مگر یہ فیصلہ ہوا ہے کہ "سید پور"کو اسلام آباد کا "ماڈل ویلج" بنایا جائے۔ پوٹھوہار کی ثقافت کو غیر ملکیوں سے روشناس کروانے کے لئے پرانی وضع کے بنائے "تاریخی مکانوں" کو ان کی اصل صورت میں بحال کیا جارہا ہے۔ اس بحالی کی خاطر ان "غیر قانونی مکانوں" کو دھڑا دھڑ گرایا جارہا ہے جہاں سے آپ کے ہاں کام کرنے والے ملازم آتے تھے۔ بے گھر ہوئے افراد اب ملبہ بنے مکانوں کے قریب کھلے آسمان تلے موجود ہیں۔ ان کے مرد گھروں میں کام کے لئے جانے کے بجائے اسلام آباد کی دیگر کچی بستیوں میں رہائش کے لئے ایک دو کمرے ڈھونڈ رہے ہیں۔ انہیں رہائش مل بھی گئی تو ملازمت کی جگہ تک آنے کے لئے انہیں دو مختلف مقامات پر گاڑیاں بدلنا ہوں گی۔ کچھ ملازموں کی ایک چوتھائی رقم شاید ملازمت کی جگہ پہنچنے کا کرایہ دینے پر خرچ ہوجائے گی۔ گھر کا کرایہ اور بجلی کا بل ادا کرنے کے بعد وہ اپنے بچے کیسے پالیں گے؟ اس سوال کے بارے میں سوچتا ہوں تو سرچکرانا شروع ہوجاتا ہے۔

مجھے خدشہ ہے کہ اسلام آباد کو جدید تر اور خوب صورت ترین بنانے کا جو جنون ہمارے آقائوں کو حال ہی میں لاحق ہوا ہے بالآخر اسلام آباد کے کم تنخواہ والے یا متوسط طبقے کے افراد کو گھریلو ملازمین کی معاونت کے بغیرزندہ رہنے کو مجبور کردے گا۔ ملازم پیشہ میاں بیوی اس سہولت سے محروم ہوکر حکومت کے بارے میں جو محسوس کریں گے اس کا اندازہ ہمارے آقا لگاہی نہیں سکتے۔ نجانے انہیں یہ حقیقت سمجھ کیوں نہیں آرہی کہ ہر نوعیت کی حکومت کے استحکام کے لئے ضروری ہے کہ وہاں کا متوسط طبقہ اپنی زندگی کے بارے میں خوشی محسوس کرے۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران میں نے نظر بظاہر خوش حال دِکھتے گھرانوں کو خوشی تو دور کی بات ہے امید سے بھی محروم پایا ہے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran