Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Islamabad Ke Safe City Hone Ke Bekar Dawe

Islamabad Ke Safe City Hone Ke Bekar Dawe

اتوار میرے لئے چھٹی کا دن نہیں ہوتا۔ صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھتا ہوں۔ اسے ٹائپ کے لئے بھجوا دینے کے بعد گھر آئے اخبارات کا پلندہ اٹھاتا ہوں اور "ہر خبر پر نظر"کی ریاضت میں مشغول ہوجاتا ہوں۔ اتوار 2نومبر2025ء کی صبح گھر آئے "نوائے وقت" کے صفحہ نمبر7پر نمایاں انداز میں یک کالمی خبر چھپی تھی۔ اس کی سرخی نے مجھے چونکا دیا۔ سرخی تھی: "سابق صدر ایوب خان کے پڑپوتے کے گھر واردات، ایوب خان کی قیمتی اشیاء سمیت 80لاکھ کا سامان چوری"۔

سرخی دیکھنے کے بعد خبر کا متن پڑھا تو دریافت ہوا کہ پاکستان کے پہلے فیلڈ مارشل صدر ایوب خان کے پڑپوتے محمد تیمور ایوب خان اسلام آباد کے سیکٹرF-8/2کی گلی نمبر25میں رہتے ہیں۔ یہ گلی میرے گھر کے قریب واقع ہے۔ تھانے میں درج ہوئی ایف آئی آر کے مطابق اس میں ایک "نامعلوم خاتون" گیٹ پھلانگ کر ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی اور وہاں موجود اور نصب چاندی کے کئی برتن اور نوادرات چوری کرلئے۔ خبر میں یہ تفصیل موجود نہیں تھی کہ واقعہ کس دن اور کتنے بجے ہوا۔ صاحب خانہ گھر ہی پر تھے یا کہیں اور گئے ہوئے تھے اور انہیں یہ خبر کیسے ملی کہ ایک عورت گیٹ پھلانگ کر ان کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی تھی۔

میرے باقاعدہ قارئین کو یاد ہوگا کہ گزشتہ ماہ کے وسط میں لکھے ایک کالم کے ذریعے میں نے بھی اپنے ہاں ہوئی چوری کا ذکر کیا تھا۔ اس چوری کی مرتکب بھی ایک خاتون تھی۔ یہ واقعہ 14اکتوبر منگل کی صبح چار بج کر چالیس منٹ پر پیش آیا تھا۔ ہمارے ہاں خاتون چھوٹے دروازے کی کنڈی کو باہر سے کھول کر اندر گھسی تھی۔ ڈرائنگ روم کے ذریعے اندر آنا چاہا تو ہمارے کتوں نے شور مچادیا۔ ان کے ڈرسے اسے ڈرائنگ روم کا تالہ توڑنے یا کھولنے کی جرأت نہ ہوئی۔ گھبراکر بیس منٹ کارخ کیا اور سرونٹ کوارٹر میں داخل ہوکر ملازم میاں بیوی کے موبائل فون، بٹوے اور پرس لے کر نکل گئی۔

منگل کی صبح اٹھ کر ملازموں نے اپنے ساتھ ہوئی واردات کا ذکر کیا تو میری چھوٹی بیٹی نے ہمارے ہاں لگے 6کیمروں کا تفتیشی اہلکاروں کی طرح جائزہ لیا۔ اس کی تفتیش کی بدولت جو فوٹیج دریافت ہوئی اس سے عیاں ہوا کہ ہمارے ہاں گھسنے کی واردات کا ارتکاب ایک خاتون نے کیا تھا۔ ہمارے گیٹ کے قریب اس کا چہرہ پورٹریٹ کی صورت بھی ریکارڈ ہوا۔ ایف آئی آردرج کرواتے ہوئے وہ فوٹیج بھی پولیس کے حوالے کردی گئی۔ مجھے یہ گماں تھا کہ نادرا کے ریکارڈ اور "سیف سٹی" کیمروں کی مدد سے مذکورہ خاتون کا بآسانی سراغ لگایا جاسکتا ہے۔

اپنے ہاں ہوئی واردات سے اس کے باوجود دل گھبراگیا۔ جذبات سے مغلوب ہوکر ایک کالم لکھا اور اسلام آباد کا وہ دور یاد کیا جب اکثر میں اپنے گھر کو تالہ لگائے بغیر بھی گھنٹوں باہر گزار دیا کرتا تھا۔ وجہ اس کی جوانی کی طرم خانی نہیں تھی۔ نہ ہی غیرشادی شدہ ہونے کی وجہ سے میرا رویہ غیر ذمہ دارانہ تھا۔ بنیادی وجہ اسلام آباد کا عمومی ماحول تھا جہاں 1990ء کی دہائی تک گھروں میں چھوٹی موٹی چوریاں ہوا کرتی تھیں۔ اکثر ان کے ذمہ دار چند گھریلو ملازمین ہوتے۔ اجنبی افراد کی جانب سے گھر میں گھس کر چوری کی واردات عجوبہ تصور ہوتی تھی۔

میرا کالم چھپنے کے دوسرے دن محلے داروں کے ذریعے علم ہوا کہ ان کے ہاں نصب کیمروں نے بھی دریافت کیا ہے کہ صبح4سے 5بجے کے درمیان ایک عورت ان کے گھر بھی گھسی تھی۔ چوری کے لئے مرکزی گھر میں داخل ہونے کے بجائے سرونٹ کوارٹر کا رخ کیا اور وہاں سے ملازمین کے فون اور بٹوے وغیرہ لے کر فرار ہوگئی۔ ایوب خان مرحوم کے پڑپوتے سے میری شناسائی نہیں۔ محض اپنے ساتھ ہوئی واردات کی بنیاد پر یہ باور کرسکتا ہوں کہ شاید ان کے کیمروں نے بھی گھر میں گھسی خاتون کی نقل وحرکت ریکارڈ کی ہوگی۔ محسوس ہورہا ہے کہ ایک ہی خاتون اکتوبر کے پہلے ہفتے سے اسلام آباد کے ایک ہی سیکٹر یعنی F-8/2کے گھروں کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔

جس سیکٹر کاذکر ہورہا ہے اس کے چاروں طرف مصروف سڑکیں ہیں۔ کئی برسوں تک یہ سیکٹر اسلام آباد کا "مرکز" شمار ہوتا رہاہے۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری کا بلاول ہاؤس اسی سیکٹر میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ او پی ایف کا گرلز کالج بھی ہے۔ جس کی چھت اور دیواروں پر کیمرے نصب ہیں۔ مارگلہ تھانے سے یہ دونوں مقامات، میرا اور صدر ایوب کے پڑپوتے کا گھر، بہت قریب ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ ایک ہی سیکٹر کی چند مخصوص گلیوں کو نشان زد کرنے کے بعد ان میں گھسی خاتون کا سراغ مسلسل وارداتوں کے باوجود لگایا کیوں نہیں جاسکا۔

اس سوال کا جواب فراہم کرنے کو مگر انتظامیہ کا کوئی شخص دستیاب نہیں ہوگا۔ وہ زمانے لد گئے جب کسی اخبار کے اندرونی صفحات پر چوری کی تین سے چار سطری خبر متعلقہ تھانے کے انچارج کو شرمندہ اور پریشان کردیتی تھی۔ میرا نہیں خیال پرانے دور کے پولیس افسروں کی طرح آج کے افسروں کے پاس بھی ایسا عملہ موجود ہے جو اردو اخباروں میں چھپی خبروں کو غور سے پڑھ کر جرائم کی ایک فہرست تیار کرکے "صاحب" کے حوالے کرتا تھا۔ نام نہاد "ڈیجیٹل دور" بھی آپ کو احساس تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہورہا ہے۔ اسلام آباد کے بارے میں "سیف سٹی" ہونے کے دعوے ہوتے ہیں جہاں افراد کی نقل وحرکت پر کیمروں کے ذریعے کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے۔ فرض کیا اسلام آباد کو سیف سٹی بنانے کے لئے نصب ہوئے کیمرے کام نہیں کررہے تب بھی میرے اور چند محلے داروں کے گھروں میں نصب کیمروں نے اس خاتون کی آمدورفت ریکارڈ کرلی ہے جو گزشتہ ماہ سے مسلسل چوری کی وارداتوں میں ملوث ہے۔

اس خاتون کی آمدورفت ریکارڈکرلینے کے بعد ہم محض ریکارڈ ہوئی فوٹیج پولیس کو فارورڈ کرسکتے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ "سیف سٹی" میں نصب دیگر کیمروں کی ریکارڈنگ اور نادرا میں موجود ڈیٹا کی مدد سے واردات کا سراغ لگالیا جائے گا۔ میں یہ تسلیم کرنے سے ڈھٹائی کے ساتھ انکار کرتا ہوں کہ نظر بظاہر اکتوبر کے پہلے ہفتے سے اسلام آباد کے F-8/2 کی چند مخصوص گلیوں میں متحرک خاتون کو یہ علم نہیں کہ جن گھروں میں وہ گھستی ہے ان میں سے اکثر کے ہاں ریکارڈنگ کرنے والے کیمرے بھی نصب ہیں۔ وہ مگر "ریکارڈ" ہونے کی پرواہ نہیں کررہی۔ وارداتوں کا ارتکاب کئے چلی جارہی ہے۔

صدرایو ب خان کے پڑپوتے کے ہاں مگر سرونٹ کوارٹر کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ چوری کئے بٹوے اور موبائل فون چادروں میں چھپائے جاسکتے ہیں۔ محمد تیمور ایوب خان کے ہاں البتہ گھر میں گھس آنے کے بعد خاتون نے ڈرائنگ روم کا رخ کیا اور وہاں سے دس کے قریب چاندی کے برتن اور نوادرات اٹھالئے۔ جو اشیاء اٹھائی گئیں ان کا اوسطاََ وزن دو سے چار کلو کے درمیان تھا۔ کسی منظم گروہ کی پشت پناہی کے بغیر ایسی اشیاء اٹھالے جانا ممکن ہی نہیں۔ دیکھتے ہیں کہ اسلام آباد کی ماڈل پولیس اس کا بھی سراغ لگاسکتی ہے یا نہیں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran