Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Islamabad Metropolitan Corporation Ka Tax Aur Digital Economy Ke Daway

Islamabad Metropolitan Corporation Ka Tax Aur Digital Economy Ke Daway

عمران خان صاحب کی خواہر نسبتی محترمہ مریم ریاض وٹو صاحبہ کا دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکر گزار ہوں۔ آج سے چند روز قبل میرے بیان کردہ چند واقعات (جن کا تعلق ان کی بہن کی اسیری سے تھا) سن کر وہ تلملااٹھیں۔ جھٹ سے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس کے لیے ایک پیغام لکھ ڈالا۔ اس پیغام میں مجھے جھوٹا قرار دینے کے علاوہ یہ حقیقت بھی اجاگر کی کہ میری داڑھی سفید ہوچکی ہے اور میری ٹانگیں قبر میں لٹکی ہوئی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جن واقعات کا میں نے ذکر کیا تھا ان کو مزید پریشان کن بناکر میرے بھائی وسیم بادامی کے ٹاک شو میں بیان کردیا۔ لطف اگرچہ اس صورت آتا اگر وہ وسیم کے مقبول عام شو میں بھی مجھے قبر میں پائوں لٹکائے ایک جھوٹا شخص قرار دیتیں۔ یوں تھوڑی شہرت نصیب ہوجاتی جس کا میں ہمیشہ سے بھوکا رہا ہوں۔

محترمہ مریم ریاض وٹو کو میری ٹانگیں قبر میں لٹکی نظر آئیں۔ حکومت مگر اس کا ادراک کرنے میں مسلسل ناکام ہورہی ہے۔ اسلام آباد کی میٹرو پولیٹن کارپوریشن ہے۔ اس کا یہاں کے رہائشی گھروں سے سالانہ ٹیکس وصول کرنے والا ایک ادارہ بھی ہے۔ گزشتہ چار برسوں کی طرح اس باربھی اس نے ہمارے گھرسے پراپرٹی ٹیکس کے نام پر اتنی ہی رقم کا مطالبہ کیا ہے جو آپ اپنی زیر ملکیت گھر کے کرائے سے آمدنی کی بنیاد پر ادا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ رقم اس رقم سے تقریباً دو گنا ہوتی ہے جو آپ اس گھر میں رہنے کی صورت ادا کرتے ہیں جسے تعمیرکرنے کے بعد آپ اس میں خود ہی رہائش پذیر ہوں۔

1980ء کی دہائی میں میرے ساس اور سسر نے کئی برسوں کی بچت کے بعد اسلام آباد میں ایک پلاٹ خریدا تھا۔ میرے سسر حکومتِ پاکستان کی نامزدگی پر چھ برس تک تھائی لینڈ میں اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے میں تعینات رہے۔ چھ برس گزارنے کے بعد وطن لوٹنے سے قبل کرائے کے مکان میں رہنے کے بجائے انھوں نے قریبی رشتے داروں کی مدد سے مذکورہ پلاٹ پر گھر تعمیر کروالیا۔ جس دن سے یہ گھر تعمیر ہوا ہے اسے ایک ماہ کے لیے بھی کسی دوسرے شخص کو کرائے پر نہیں دیا گیا۔

میرے سسر کا انتقال ہوا تو تنہا اور بیمار ساس صاحبہ کی خدمت گزاری کے لیے میں اور میری بیوی اس گھر منتقل ہوگئے۔ میری دونوں بچیاں اسی گھر میں پل کر بڑی ہوئیں۔ ساس صاحبہ کے انتقال کے بعد ہم بدستور اسی گھر میں مقیم رہے۔ میری بیوی اپنے بھائیوں سے اصرار کرتی رہی کہ یہ مکان برسوں کے استعمال کی وجہ سے خستہ حال ہوچکا ہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ اسے گراکر حصوں میں بانٹ لیا جائے۔ ماں باپ کی عقیدت اور بچپن کی یادیں تینوں بہن بھائیوں کو یہ حوصلہ فراہم کرنے میں بھی رکاوٹ رہیں کہ مکان کو جیسے ہے جہاں ہے کی بنیاد پر بیچ دیا جائے۔ حالانکہ اسلام آباد کے تقریباً مرکز میں واقع اس مکان کی پراپرٹی دھندے کے عروج کے دنوں میں بھاری بھر کم معاوضوں کی پیش کش سمیت بے شمار پارٹیاں ہمارے گھر کے پھیرے لگاتی رہیں۔ بالآخر فیصلہ یہ ہوا کہ مکان میری بیوی اور بھائی کی ملکیت ہی رہے گا۔ ایک بھائی بیرون ملک مقیم ہے جس نے قسطوں میں اپنا حصہ وصول کرلیا۔

مکان کی ملکیت اپنے پاس رکھنے کے باوجود اسے گرانے کی جرأت نہیں ہورہی تھی۔ ہر دوسرے دن کسی نہ کسی مسئلے کے حل کے لیے بجلی یا پانی کے کاریگروں کو بلانا پڑتا۔ ربّ کا لاکھ شکر کہ اگست 2018ء میں وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی عمران حکومت نے جن اینکروں کو ٹی وی سکرینوں پر معاشی بوجھ، قرار دیا اُن میں میرا نمبر ون تھا۔ زندگی میں پہلی بار استعفیٰ دینے کے بجائے نوکری سے نکالے جانے کی ذلت نصیب ہوئی۔ امید تھی کہ ٹی وی سکرینوں کو مجھ جیسے تخریب پسندوں سے فارغ کرنے کے بعد عمران حکومت کم از کم دس برس تک حکمران رہے گی۔ میری زندگی میں لہٰذا ٹی وی سکرینوں پر واپسی کی امید نہ تھی۔ کالم نویسی کی طرف فل ٹائم لوٹنا پڑا۔

بے روزگاری کے دن کاٹنے کے لیے میں نے ضد کی کہ ساری زندگی کی مشقت سے جو بھی جمع کیا ہے اس کے ذریعے ورثے میں ملی زمین پر پرانا گھر گرا کر نیا تعمیر کیا جائے۔ میری ضد نے باقی خاندان کو بالآخر رضا مند کردیا۔ صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھنے کے بعد اخبارات کا پلندہ لے کر لان میں آبیٹھتا اور گھر کی تعمیر کی نگرانی ٹھیکے داروں کی طرح شروع کردیتا۔ میری لگن کی وجہ سے ریکارڈ مدت میں مکان مکمل ہوگیا۔

مکان مکمل ہوجانے کے بعد میری بیوی کو پہلے برس پراپرٹی ٹیکس کی مد میں جو بل آیا اسے ادا کردیا تو ایک مہربان دوست نے مطلع کیا کہ جو رقم ہم نے ادا کی ہے وہ کرائے پر چڑھائے مکان سے وصول کی جاتی ہے۔ اپنے خریدے یا بنائے مکان میں اگر آپ خود رہائش پذیر ہوں تو پراپرٹی ٹیکس اس رقم کا آدھا ہوتا ہے جو ہم نے ادا کی۔ اس اطلاع کے ساتھ میں نے پراپرٹی ٹیکس والے ادارے سے رابطہ کیا تو مجھے ملی اطلاع کی تصدیق ہوئی۔ تصدیق ہوگئی تو میں نے التجا کی کہ براہِ مہربانی ریکارڈ میں درج کردیا جائے کہ ہم اس مکان میں خود ہی رہتے ہیں۔ اسے کرائے پر نہیں چڑھایا۔ نہ اپنی زندگی میں چڑھانے کا ارادہ ہے۔ ریکارڈ کی درستی کے وعدے کے بعد مطمئن ہوگیا۔

ایک برس بعد مگر دوبارہ وہی بل آیا جو کرائے پر چڑھائے مکان سے وصول کیا جاتا ہے۔ مجھے پریشان دیکھ کر ایک جونیئر ساتھی نے وہ بل درست کروادیا۔ یہ بھی یقین دلایا کہ ریکارڈ درست کروادیا گیا ہے۔ رواں مہینے کے وسط میں لیکن ایک بار پھر سالانہ ادائیگی کے لیے اسی رقم کا تقاضا ہوا ہے جو کرائے پر چڑھائے مکان سے وصول کی جاتی ہے۔ قبر میں ٹانگیں لٹکائے پریشان ہوں۔ پراپرٹی کے دفتر سے دوبارہ رجوع کرنا ہوگا۔ جب پورا دفن ہوگیا تو میری بیوہ کو پراپرٹی ٹیکس والوں کے دفتر کے چکر لگانا پڑیں گے۔

آج سے چند ہفتے قبل عرض کیا تھا کہ حبس کے اس موسم میں ہر دوسرے روز اخبارات کے صفحۂ اوّل پر برانڈڈ سوٹ پہنے وزیروں اور اعلیٰ سطحی افسران کے اجلاسوں کی جو تصویرچھپتی ہے اکثر اس کا مقصد وطن عزیز کو دورِحاضر کے مطابق ڈیجیٹلائز کرنا، معیشت کو کیش لیس بنانا اور آپ کو سرکاری دفتروں کے پھیرے لگانے سے محفوظ رکھنا ہے۔ یہ لکھنے کے بعد نہایت عاجزی سے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ کیش لیس اکانومی اورفیس لیس گورننس کے طریقے ڈھونڈنا وقت کا زیاں ہے کیونکہ ہماری بیوروکریسی شہریوں کو غلام سمجھتی ہے۔ وہ جان بوجھ کر سسٹم کو آپ ڈیٹ اور ڈیجیٹلائزنہیں کرنا چاہتی۔ ایسا ہوجائے تو قبر میں ٹانگیں لٹکانے کی عمر میں پہنچ جانے کے باوجود مجھ جیسا بدنصیب منت ترلے کے لیے ان کے دفتر کے پھیرے کیوں لگائے گا۔ اقبال نے ہمارے ضمیر میں خوئے غلامی، دریافت کررکھی ہے۔ اس سے چھٹکارا پانا ناممکن ہے۔ سفید داڑھی اور قبر میں لٹکی ٹانگیں بھی اس ضمن میں مددگار ثابت نہیں ہوں گی۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran