سوشل میڈیا کا غور سے جائزہ لیں تو احساس ہوتا ہے کہ افغان نڑاد امریکی-زلمے خلیل زاد- ان دنوں کابل میں بیٹھا طالبان حکومت کی ترجمانی کے فرائض بھی سرانجام دے رہا ہے۔ "بھی" کا لفظ میں نے سوچ سمجھ کر لکھا ہے کیونکہ زلمے خلیل زاد طالبان حکومت کے طاقتور افراد سے ملاقاتوں کے علاوہ انہیں چند غیر ملکی سرمایہ کاروں سے ملواتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں ابھی تک اس موقعہ پرست کی دال نہیں گلی۔ ٹرمپ اور اس کے حامیوں کو بلکہ گلہ ہے کہ زلمے خلیل زاد نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد امریکی افواج کی افغانستان سے واپسی کا جو "بندوبست" دریافت کیا تھا وہ عملاََ کسی کام نہیں آیا۔ اگست 2021ء میں امریکہ کو بلکہ نہایت ذلت آمیز انداز میں افغانستان سے رخصت ہونا پڑا۔ اس تناظر میں اپنی خفت مٹانے کے لئے زلمے عموماََ پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنائے رکھتا ہے۔
ٹرمپ کے وائٹ ہائوس لوٹنے سے قبل اسے یقین تھاکہ اقتدار سنبھالتے ہی دوسری بار منتخب ہوا صدر ٹرمپ حکومتِ پاکستان پر عمران خان کی رہائی کیلئے دبائو بڑھائے گا۔ اس کی امیدیں مگر خام خیالی ثابت ہوئیں۔ ٹرمپ تواتر سے پاکستان کے وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل کو "شاندار" افراد پکارتے ہوئے اپنا دوست قرار دے رہا ہے۔ پاک-بھارت جنگ کو ایٹمی" ہونے سے روکنے کا کریڈٹ لیتے ہوئے اس نے اب کی بار اس خدشے کا اظہار بھی کردیا ہے کہ شاید اسے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ممکنہ جنگ کو بھی روکنا پڑے گا۔ ہوسکتا ہے کہ کابل میں بیٹھے ہوئے زلمے خلیل زاد طالبان کو اس امر پر اُکسارہا ہو کہ وہ پاکستان کو ان کے ساتھ جنگ برپا کرنے کو مجبور کریں۔ دونوں ممالک میں اگر جنگ چھڑگئی تو ٹرمپ اسے رکوانا چاہے گا اور شاید اس وقت اسے زلمے خلیل زاد بھی یاد آجائے۔
اپنے Xاکائونٹس پر تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کے خلاف پیغامات لکھنے کا عادی ہوا زلمے خلیل زاد ان دنوں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف پر خصوصی توجہ دے رہا ہے۔ اتوار کے روز موصوف نے خواجہ آصف کا نام لے کر انہیں "افغانستان دشمن" ہی نہیں بلکہ "پختون دشمن" بھی پکارا ہے۔ افغان امور کے ماہر مشہور ہوئے اس شخص کے مذکورہ پیغام نے مجھے Xہی پر ایک پیغام لکھنے کو مجبور کیا۔ اس کے ذریعے یاد دلایا کہ 1990ء کی دہائی میں خواجہ آصف اور اسفند یار ولی قومی اسمبلی کے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھا کرتے تھے اور ان دونوں کے مابین گہری دوستی تھی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران خواجہ آصف حکومتی بنچوں کو دیوار سے لگانے کے لئے جو حربے اختیار کرتے وہ اسفند یار ولی کی کامل مشاورت سے مرتب کئے جاتے۔ ان دونوں کے مابین ذاتی تعلق اس وقت بھی بہت گہرا رہا جب کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کے معاملے پر عوامی نیشنل پارٹی نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ سے دور ہوگئی۔ زلمے خلیل زاد کو مگر ان حقائق کا علم نہیں تھا۔ خواجہ آصف کی پنجابی شناخت ہی اس کی نظر میں یہ طے کرنے کو کافی تھی کہ وہ "پختون دشمن" ہیں۔
ہر پنجابی کو "پختون دشمن" شمار کرنے کا رحجان ان دنوں افغان طالبان کے بہت کام آرہا ہے۔ پنجابیوں کی مبینہ پختون دشمنی افغانستان کی اجتماعی یادداشت میں غالب اہمیت کی حامل ہے۔ "احیائے اسلام" کے دعویٰ کی بنیاد پر ابھرے طالبان مگر وطن پرستی کے ان جذبات کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لئے مستقل بھڑکائے چلے جارہے ہیں۔ چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک "محقق" کا یہ دعویٰ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ وسطی پنجاب میں آباد لوگوں کی اکثریت مہاراجہ رنجیت سنگھ کو اپنا "ہیرو" گردانتی ہے۔ میں لاہور میں پیدا ہوا ہوں۔ اندرون شہر کی گلیوں میں پیدل چلتے ہوئے سکول اور کالج میں تعلیم حاصل کی۔ رنگ محل مشن ہائی سکول جاتے ہوئے مجھے سنہری مسجد اور تانبے وپیتل کے بنے برتنوں کی دوکانوں کے سامنے سے گزرنا ہوتا تھا۔
1965ء کی پاک-بھارت جنگ تاشقند معاہدے پر ختم ہوئی تو 1967ء میں ہندوستان سے سکھ یاتری جتھوں کی صورت لاہور آنا شروع ہوگئے۔ بچپن سے سکھوں کے "بارہ بجے" والے لطیفے سن رکھے تھے۔ کسی سکھ کو مگر عملی زندگی میں دیکھا نہیں تھا۔ یاتری لاہور آنا شروع ہوئے تو سکول سے گھر لوٹتے ہوئے انہیں کشمیری بازار کی دوکانوں میں دیکھا جاتا۔ اکثر وہ کسی ریڑھی پر تازہ جوس بھی خریدتے نظر آتے۔ سکھوں کو دیکھتے ہی ہم دو تین لڑکے ان کے قریب آکر "سردار جی ٹیم کی ہویا اے(سردار جی آپ کی گھڑی میں کیا وقت ہے؟)"والا سوال پوچھ کر قہقہے لگاتے ہوئے بھاگ جاتے۔
گرمیوں کی ہر شام میں اپنے گھر سے پیدل چل کر شاہی مسجد اور قلعے کے سامنے سے گزرکر ان دنوں منٹو پارک اور اب اقبال پارک یا مینارِ پاکستان کہلاتے میدان میں جاتا۔ میٹرک پاس کرنے تک مجھے یہ علم ہی نہیں تھا کہ حضوری باغ کے بعد میرے بائیں ہاتھ جو عمارت آتی ہے وہ رنجیت سنگھ کی سمادھی ہے۔ پنجابی میں اسے "رنجیت سنگھ دی مڑھی" کہا جاتاتھا۔ رنجیت سنگھ مگر کون تھا اس کے بارے میں ہرگز لاعلم تھا۔ ہماری نسل کی اجتماعی یادداشت میں سکھوں کو بلکہ قیام پاکستان کے دوران ہوئے فسادات کا حقیقی ذمہ دار ٹھہرایا جاتا تھا۔ آج بھی بے تحاشہ لوگ اپنے ماضی کو یاد کرتے ہوئے اپنے خاندان کی بھارتی پنجاب کے مختلف شہروں سے پاکستان ہجرت کا تذکرہ کرتے ہوئے "سکھ دستوں" کی چیرہ دستیاں یاد کرتے ہیں۔
اس تناظر میں جب پہلی بار 1984ء میں بھارت جانا ہوا تو سکھوں پر اندراگاندھی کے قتل کے بعد ہوئے مظالم کو ہمدردانہ جذبات کے ساتھ سمجھنے میں بہت دیر لگی۔ تین دن کے دل دہلادینے والے فسادات کے بعد دلی میں مقیم سکھ بہت گھبرائے ہوئے تھے۔ تنہائی میں مجھے مل جاتے تو خود کو "پاکستان سے آئے مہاجر" کہتے۔ راولپنڈی اور لائلپور(فیصل آباد)کا بہت چائو سے ذکر کرتے۔
ہڑپہ کے دور سے قائم پنجاب فقط مہاراجہ نجیت سنگھ کی شخصیت سے منسوب کیا ہی نہیں جاسکتا۔ اس کا دور البتہ تاریخ کا اہم ترین باب ہے جو آیا اور گزرگیا۔ اس دور کے بارے میں پاکستان کے پنجابیوں کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں لیکن چند پڑھے لکھے پنجابیوں نے اپنی "شناخت" ڈھونڈتے ہوئے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی خوبیاں بھی ڈھونڈلیں۔ معروضی اعتبار سے جائزہ لیں تو یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ مہاراجہ نے کمال ہوشیاری اور دلیری سے انگریزوں کو پنجاب پر اپنی زندگی میں قابض ہونے نہیں دیا۔ اس کی موت کے بعد مگر برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت کمزورپڑگئی۔ پنجاب ابتری کا شکار ہوا اور اس دورِ فتن میں "سکھاشاہی" کا لفظ متعارف ہوا جو درحقیقت "وارلارڈز" کی مقامی شکل تھی۔ افغانستان میں بھی "جہاد" کے بعد "ٹوپک سالار" کا لفظ مشہور ہوا۔ یہ ان "مجاہدین" کے بارے میں استعمال ہوتا جو "اپنے علاقے" سے گزرنے کے لئے راہداری نقدی کی صورت طلب کرتے تھے۔ طالبان افغانستان کو ان "ٹوپک سالاروں" سے آزاد کروانے کے نام پر ہی ابھرے تھے۔
"سکھا شاہی" کسی ایک قوم سے وابستہ کی نہیں جاسکتی۔ یہ درحقیقت کامل ابتری اور بندوق برداروں کے جتھہ راج کا نام ہے۔ افغانستان بھی اس سے محفوظ نہیں رہا۔ 2025ء کے مسائل کو اجتماعی یادداشتوں اور تعصبات کا اسیر ہوکر سمجھا اور حل نہیں کیاجاسکتا۔