Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Kash Patel Ke Mehakme Ki Kholi Nayi Kahani

Kash Patel Ke Mehakme Ki Kholi Nayi Kahani

بدھ کی صبح اچانک ایک خبر نمودار ہوئی جس نے کئی گھنٹوں تک لیپ ٹاپ کھول کر تحقیق کو مجبور کردیا۔ جو "خبر" ملی وہ درحقیقت 25جون 2025ء کو امریکہ کے تفتیشی ادارے ایف بی آئی کی جانب سے جاری ہوئی پریس ریلیز پر مبنی تھی۔ میں شاید اسے توجہ کے قابل ہی نہ سمجھتا۔ اس میں لیکن ان دنوں ایران کے پاکستان میں مقیم سفیر جناب رضا امیری مقدم کو تصویر سمیت ان تین افراد میں نام لے کرشامل کیا گیا ہے جو مارچ 2007ء میں سیاحت کے مرکز شمار ہوتے جزیرہ کیش سے ہوئے ایک امریکی شہری کے اغواء کے ذمہ دار ٹھہرائے گئے ہیں۔

جو امریکی اغواء ہوا وہ امریکہ کی منشیات فروشی کا سراغ لگانے والی ایجنسی کے علاوہ ایف بی آئی کا بھی ملازم رہا تھا۔ ایف بی آئی کا دعویٰ ہے کہ کئی برس قبل وہ اپنے کام سے ریٹائر ہوگیا تھا۔ اس کے اغواء ہوجانے کے بعد مگر امریکہ ہی کی مشہور خبررساں ایجنسی (AP)یعنی ایسوسی ایٹڈ پریس آف امریکہ نے چند برس قبل یہ دعویٰ کیا کہ مارچ 2007ء میں اسے سی آئی اے نے ایران میں ابھی تک نامعلوم رہے مشن کے لئے "ٹھیکے" پر مامور کیا تھا۔

ایران کا جزیرہ کیش سیاحت کے لئے بہت پرکشش ہے۔ اسے "فری ٹریڈزون" بھی قرار دیا گیا ہے۔ امریکی پاسپورٹ کے حامل افراد بھی اس جزیرے میں بآسانی جاسکتے ہیں۔ "فری ٹریڈزون" اور سیاحت کے لئے پرکشش ہونے کی وجہ سے دنیا کے دیگر سیاحتی مراکز کی طرح اس جزیرے میں بھی جرائم پیشہ گروہ بہت متحرک ہیں۔ ایسے گروہوں میں روس کے مافیا نما گروہ سرفہرست ہیں۔ جو امریکی اغواء ہوا اس کا نام Levinson Robert ہے۔ اس کے قریبی لوگ اسے باب (Bob)پکارتے ہیں۔ اپنی آسانی کے لئے ہم بھی اسے باب ہی پکاریں گے۔

امریکی خبررساں ایجنسی نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ باب خود کو روس کے جرائم والے مافیا کا ماہر گردانتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ سی آئی اے نے اسے جزیرہ کیش میں ایسے ہی کسی گروہ کے اراکین و طریقہ واردات کا سراغ لگانے کے لئے بھیجا ہو۔ ایرانی حکومت غالباََ اس کی "جاسوسی مہارت" کا براہِ راست نشانہ نہیں تھی۔ بہرحال کیش میں کچھ دن گزارنے کے بعد وطن لوٹنے کے ارادے سے اس نے وہ ہوٹل 9مارچ 2007ء کے دن چھوڑ دیا جہاں کیش میں "تعطیلات" گزارنے کے دوران وہ قیام پذیر تھا۔ ہوٹل سے نکل کر لیکن وہ ایئرپورٹ نہیں پہنچا اور اب تک کسی کو بھی اس کا اتہ پتہ معلوم نہیں ہے۔

باب کی بیوی کو آج سے تقریباََ26سال قبل 54سکینڈ کی ایک ویڈیو وصول ہوئی تھی۔ اس ویڈیو میں وہ کسی کاغذ سے پڑھ کر "غلط" انگریزی میں اپنی رہائی کے لئے مدد کی اپیل کررہا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ باب کے خاندان نے اس ویڈیو کو منظر عام پر لانے میں بہت دیر لگائی۔ اپریل 2021ء میں جب یہ منظر عام پر آئی تو باب کی فیملی اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے پائی کہ اس نے اتنے دنوں تک باب کی بھیجی ویڈیو اور تصاویر کو میڈیا اور لوگوں سے مخفی کیوں رکھا۔ اے پی کی خبر میں لیکن یہ دعویٰ بھی تھا کہ باب کی بیوی کا منہ بند رکھنے کے لئے سی آئی نے اسے اڑھائی لاکھ امریکی ڈالر دئے تھے۔

امریکی خبر رساں ایجنسی کا یہ دعویٰ مان لیا جائے کہ اسے سی آئی اے نے "ٹھیکے" پر روسی جرائم پیشہ گروہوں کا سراغ لگانے ایران کے جزیرہ کیش بھیجا تھا تو یہ امکان بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اسے ایسے ہی کسی جرائم پیشہ گروہ نے اغواء کرلیا ہوگا جن کی جاسوسی کے لئے اسے مامور کیا گیا تھا۔ اس امکان کو مگر امریکی حکومت زیر غور لانے کو آمادہ ہی نہیں۔ ہر برس کے مارچ میں باب کے اغواء کی "برسی" کے دن اس کا ذکر کرتی ہے۔ مذکورہ روایت پر عمل کرتے ہوئے ایف بی آئی نے ایرانی انٹیلی جنس کے دومبینہ ایجنٹوں -محمد بصیری اور احمد خزاعی- کو اس کے "اغواء " کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کردیا۔ بتدریج ان کے نام اور تصاویر بھی باب کے اغواء کی برسی کے دن چھپنا شروع ہوگئیں۔

اس بار مگر روایت سے ہٹ کر 25جون 2025ء کے دن باب کے اغواء کے بارے میں ایک مختلف پریس ریلیز جاری ہوئی ہے۔ اس میں محمد بصیری اور احمد خزاعی کے بجائے رضا امیری مقدم، غلام محمد نیا اور تقی دانشور کو باب کے اغواء کا ذمہ دار ٹھہرا گیا ہے۔ باب کے اغواء کے ذمہ داروں اور طریقہ کار کا سراغ لگانے میں مدد دینے والوں کے لئے 2کروڑ امریکی ڈالر کے انعام کا وعدہ بھی ہوا ہے۔ مارچ 2007ء میں اغواء ہوئے امریکی شہری کے اغواء کا جو وہاں کی مختلف سراغ رساں ایجنسیوں کا باقاعدہ ملازم رہا ہے اتنے برس بعد پاکستان میں مقیم ایرانی سفیر کو ذمہ دار ٹھہرانا حیران کن امر ہے۔ میری ان سے ایک بھی ملاقات نہیں رہی۔ ان کے بیک گرا?نڈ سے بھی قطعاََ ناآشنا ہوں۔

ایف بی آئی کا مگر یہ دعویٰ ہے کہ وہ ایرانی انٹیلی جنس کے اعلی افسر رہے ہیں اور اس کے لئے یورپ پر نگاہ رکھتے تھے۔ فرض کیا پاکستان میں متعین ایرانی سفیر واقعی ایرانی انٹیلی جنس کے افسر رہے ہیں تب بھی "یورپی امور" کے مبینہ طورپر نگران ہوتے ہوئے ان کا امریکی شہری کے اغواء سے تعلق جوڑنا دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ باب کے اغواء کے ایک اور ذمہ دار ٹھہرائے غلام محمد نیا البانیہ میں ایران کے سفیر رہے ہیں۔ مارچ 2007ء کے بعد سے باب کے اغواء کی برسی پر ایف بی آئی نے جتنی بھی پریس ریلیزیں 25جون 2025ء سے قبل جاری کیں ان میں سے ایک میں بھی رضا امیری مقدم صاحب کا نام نہیں لیا گیا ہے۔ 25جون 2025ء کے روز ان کی باب کے اغواء کے مبینہ ذمہ داروں میں شمولیت میرے وسوسوں بھرے دل کو کئی سوالات اٹھانے کو مجبور کررہی ہے۔

امریکی ایف بی آئی کا سربراہ ان دنوں ایک بھارتی نڑاد کاش پٹیل ہے۔ وہ اور اس کا ادارہ گزشتہ کئی ہفتوں سے مسلسل دبائو میں ہے۔ ٹرمپ کے دل وجان سے فدائی چند افراد اصرار کررہے ہیں کہ کاش پٹیل اور اس کے ادارے نے Epsteinنامی شخص کے جرائم کے بارے میں تیار ہوئی فائل مبینہ طورپر "غائب" کردی ہے۔ ٹرمپ سے ناراض ہوجانے کے بعد ایلان مسک نے اس فائل کا ذکر کیا تھا۔ جس شخص کے بارے میں یہ فائل تیار ہوئی ہے وہ امریکہ اور برطانیہ کے طاقتور ترین افراد کو کم سن بچیوں کے ساتھ بیہودہ حرکتوں میں ملوث ہونے کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔

ٹرمپ کے Maga (امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائو) والے نعرے کے پرجوش حامی اپنے پوڈکاسٹ میں مسلسل یہ دعویٰ کئے چلے جارہے ہیں کہ جنسی جرائم کا سہولت کار درحقیقت اسرائیل کی انٹیلی جنس کا ایجنٹ تھا اور اس کا مقصد امریکہ اور برطانیہ کے طاقتور حلقوں کو سہولت کاری کے بعد "بلیک میل" کرنا تھا۔ جس انداز میں اس مبینہ ایجنٹ کے بارے میں "فائل" گم ہوئی اس کا ذکر کرتے ہوئے کاش پٹیل کا استعفیٰ مانگا جارہا تھا۔ غالباََ اس دبائو سے توجہ ہٹانے کے لئے کاش پٹیل کے محکمے نے ایک نئی کہانی کھول دی ہے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran