Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Kul Jamati Conference Aur Asal Jamhuriat

Kul Jamati Conference Aur Asal Jamhuriat

فیلڈ مارشل ایوب خان کے دورِ صدارت میں ہوش سنبھالا تھا۔ وہ بالواسطہ انتخابات کی بدولت 1964ء کے برس بانیِ پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دے کر پاکستان کے باقاعدہ، صدر منتخب ہوئے تھے۔ میرے محلے کے سادہ لوح افراد کی اکثریت ان کی کامیابی کو جھرلو، کا کرشمہ سمجھتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مگر ان دنوں کے کسی بھی سیاستدان کے بارے میں اچھے خیالات کا اظہار بھی نہ کرتی۔ جو سیاست دان ماضی کی حکومتوں میں شامل رہے تھے ان سے نفرت سے زیادہ بے اعتنائی کا اظہار ہوتا۔ ایوب خان کو وہ کئی خامیوں، کے باوجود ملک میں استحکام وتھوڑی خوشحالی فراہم کرنے کا کریڈٹ دیتے۔

اپنی اجتماعی ساکھ کھو دینے کی وجہ سے تمام ایوب مخالف سیاسی جماعتوں کے سربراہ تمام تر باہمی اور نظریاتی، شمار ہوتے اختلافات کے باوجود عمر کے آخری حصے میں داخل ہوئی مادرِ ملت، کے ہاں گئے۔ نئی نسل کو یاد کرانا ہوگا کہ وہ بانیِ پاکستان کی بہن تھیں۔ بہرحال ان سے فریاد کی گئی کہ ملک کو آمریت سے نجات دلانے کے لیے وہ ایوب خان کا مقابلہ کریں۔ مادرِ ملت، کے لقب نے میرے ان دنوں ضرورت سے زیادہ معصوم ذہن کو یہ سوچنے کو مجبور کردیا کہ انھیں ہرایا ہی نہیں جاسکے گا۔ وہ بالآخر صدارتی انتخاب ہارگئیں تو میں سیاسی، خیالات سے ناآشنا ہونے کے باوجود صدمے سے ایک ہفتے تک ہکلا کر بولنے کی کوشش کرتا رہا۔

بچپن اور جوانی گزار کر اب عمر کے آخری حصے میں داخل ہورہا ہوں۔ ہمارے ہاں پاک فوج کے سربراہ کو حالیہ پاک-بھارت جنگ کے بعد فیلڈ مارشل کا مرتبہ مل چکا ہے۔ وہ مگر ملک کے صدر نہیں ہیں۔ ایوان صدر میں جمہوریت ہماری سیاست ہے، کے اصول پر 1967ء میں قائم ہوئی پاکستان پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری بیٹھے ہیں۔ اس سے قبل بھی وہ 2008ء سے 2013ء تک ہمارے منتخب صدر رہے ہیں۔ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر پنجاب کے ایک دہائی تک وزیر اعلیٰ رہے شہباز شریف فائز ہیں۔ وہ بھی ایک منتخب اسمبلی کے قائد ایوان ہونے کی بنا پر اس منصب کے اہل ہوئے۔

جو دِکھتا ہے اس کے برعکس خلقِ خدا کی اکثریت یہ محسوس کرتی ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ کوئی اور نظام چل رہا ہے۔ پڑھے لکھے افراد اسے ہائبرڈ، کہتے ہیں۔ آسان اردو میں اسے آدھا تیتر آدھا بٹیر، کہا جاسکتا ہے۔ اس نظام سے نجات کے بعد اصل جمہوریت، کی بحالی کے لیے ایک بار پھر تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان، کے نام سے اپوزیشن جماعتوں کا جو اتحاد کئی دن پہلے قائم ہوا تھا اسے آل پارٹیز کانفرنس، کے انعقاد کے بعد اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل ایک وسیع تر اتحاد کی صورت دینے کی کوشش ہورہی ہے۔

کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد جس ہوٹل میں ہونا تھا انتظامی دبائو سے گھبراکر بکنگ کے لیے ایڈوانس رقم لینے کے باوجود آخری لمحوں پر بکری ہوگیا۔ تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان، میں حال ہی میں شامل ہوکر متحرک ہوئے مصطفی نواز کھوکھر نے مگر ہمت نہ ہاری۔ اپنے فارم ہائوس کو کل جماعتی کانفرنس کے انعقاد کے لیے مہیا کردیا۔

یوں کرتے ہوئے موصوف نے اپنے والد کی روایت پر عمل کیا۔ بدترین حالات میں نواز شریف کے نام سے منسوب پاکستان مسلم لیگ کو اسلام آباد کے کسی بھی ہوٹل نے اپنا ہال دینے سے انکار کردیا تھا۔ جگہ نہ ملنے کی وجہ سے پریشان ہوئے نوازشریف کے حامیوں کو حاجی نواز کھوکھر مرحوم نے اسلام آباد کے F-8سیکٹر میں واقع اپنے گھر کے لان میں مدعو کرلیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بے شمار وجوہات نے مرحوم کو بالآخر نواز لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کو مجبور کردیا۔ مصطفی نواز کھوکھر اپریل 2022ء تک اسی جماعت میں متحرک رہے۔ اس کے بعد مگر جدائی ہوگئی۔

جس روز کل جماعتی کانفرنس، کا انعقادہوا تھا عین اسی دن تحریکِ انصاف کے تقریباً 14اراکین قومی وصوبائی اسمبلیوں کے علاوہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شبلی فراز کو 9مئی کے حوالے سے انسداد دہشت گردی عدالت نے دس برس کی سزا سنادی۔ اس سے قبل وزیر آبادسے قومی اسمبلی کے رکن احمد چٹھہ اور بھکر سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوکر قائد حزب اختلاف تسلیم ہوئے احمد بھچر بھی 9مئی ہی کے حوالے سے ایسی سزا کے مستحق ٹھہرائے گئے تھے۔ انھیں سزا سنائے جانے کے محض 48گھنٹے کے بعد الیکشن کمیشن نے ان کی نااہلی کا اعلان کردیا۔ ان کی خالی کردہ نشستوں پر ضمنی انتخاب کا شیڈول بھی جلد ہی متوقع ہے۔

سیاستدانوں کی وطن عزیز میں سیاست کے لیے نااہل، ٹھہرائے جانے کی روایت قیام پاکستان کے چند ماہ بعد ہی شروع ہوگئی تھی۔ پروڈا، نام کا ایک قانون بنا تھا جس کے تحت سندھ کے مردِ آہن، کہلاتے ایوب کھوڑو کو کرپشن کے الزامات لگاکر سیاست سے نکالا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعدازاں یہ کرپٹ، شخص پاکستان کا وزیر دفاع بھی رہا کیونکہ موصوف نے سابقہ مغربی پاکستان کو ون یونٹ، کی شکل دے کر صوبائی شناخت کو مٹانے کے عمل میں حصہ ڈالنے کو واجب تصور کیا۔

ہماری نئی نسل کو نااہلی، اگریوسف رضاگیلانی کی یاد نہ رہی ہو تب بھی نواز شریف والی تو ہر صورت یاد ہوگی۔ گیلانی صاحب کی نااہلی پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے فرعون نما چیف جسٹس افتخار چودھری کے ہاتھوں ہوئی۔ وکلاء تحریک، کی بدولت اپنے منصب پر لوٹنے کے بعد چودھری صاحب خود کو وہ مسیحا تصور کرنا شروع ہوگئے تھے جس کا افتادگانِ خاک کرپشن کے خاتمے کے لیے صدیوں سے انتظار کررہے تھے۔ وزیر اعظم گیلانی کو وہ مجبور کرتے رہے کہ سوئس حکومت کو خط لکھ کر ان دنوں بھی پاکستان کے صدر زرداری کی ناجائز دولت، کا پتا لگایا جائے۔ گیلانی اپنے ملک کے صدر کی اس چٹھی کے ذریعے بدنامی کے لیے رضا مند نہ ہوئے تو انھیں توہینِ عدالت کا مجرم ٹھہراکر وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کردیا گیا۔

نواز شریف کی ثاقب نثار کے سپریم کورٹ کے ہاتھوں تاحیات نااہلی، کی داستان تو نوجوان نسل کو ازبر ہے۔ وقت بدلا تو ان کی نااہلی مگر ختم ہوگئی۔ ان کی نااہلی کی بدولت وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر اگست 2018ء میں فائز ہوگئے۔ اب اپریل 2022ء میں وزارتِ عظمیٰ سے برطرفی کے بعد عمران خان بھی جیل ہی میں چلائے چند مقدمات کی وجہ سے نچلی عدالتوں سے طویل سزا پانے کے بعد سیاست میں حصہ لینے کے لیے نااہل، ہوگئے۔

یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف ایک حوالے سے خوش نصیب، تھے کہ انھیں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ نے طویل مگر روزانہ کی بنیاد پر ہوئی سماعتوں کے بعد نااہل کیا تھا۔ عمران خان اور ان کے ساتھی نچلی سطح کی عدالتوں کی جانب سے سنائے فیصلوں کی وجہ سے نااہل، ہورہے ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ سیاستدانوں کی نااہلی، کا چلن جاری رہا تو شاید مرنے سے قبل ہی مجھے وہ دن بھی دیکھنا پڑے گا کہ ایس ایچ او کے ہاتھوں کسی سنگین الزام کے تحت گرفتاری کے بعد اجتماعی طورپر کرپٹ اور نااہل، سیاستدانوں میں سے چند عدالت میں پیش کرنے سے قبل ہی سیاست میں حصہ لینے کے لیے نااہل، ٹھہرادیے جائیں گے۔

سیاستدانوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح نچانے والوں کو بخوبی علم ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنے حریف کی نااہلی، پر مٹھائیاں بانٹتے ہیں کیونکہ وہ انھیں نظام میں فٹ ہونے، کی امید فراہم کرتی ہے۔ میرے بچپن سے بڑھاپے تک جو بھیکل جماعتی کانفرنسیں، ہوئیں وہ ہمیشہ ماضی کی غلطیاں دہرانے سے گریز کے وعدے کرتی رہیں۔ نیلسن منڈیلا سے متاثر ہوکر اب ایسی کانفرنسوں میں ٹرتھ اینڈ ری کنسیلیشن، کا ذکر بھی شروع ہوچکا ہے۔ سچ بولنے کا معاملہ مگر آنے والے کل پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

مثال کے طورپر مصطفی نواز کھوکھر کے فارم ہائوس پر جو کل جماعتی کانفرنس ہوئی اس میں تحریک انصاف کے چند صف اوّل کے رہنما بھی موجود تھے۔ اسد قیصر ان میں نمایاں ترین تھے۔ موصوف 2018ء سے 2022ء تک قومی اسمبلی کے سپیکر رہے ہیں۔ کل جماعتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اگر وہ ہائبرڈ، نظام کی تخلیق کا زمانہ اور طریقہ کار اپنے ذاتی تجربے کی بدولت ہم جاہلوں کو سمجھادیتے تو شاید ٹرتھ اینڈ ری کنسیلیشن، کے لیے ہمیں مستقبل کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔

سیاستدانوں کے برعکس ٹی وی اینکر کاشف عباسی نے اس ضمن میں اخلاقی دلیری کا مظاہرہ کیا اور نہایت دیانتداری سے یہ اعترا ف کیا کہ ایک پیج، کی سہولت کی بدولت عمران حکومت کے دوران بھی چند صحافیوں کے چہرے ٹی وی سکرینوں کے لیے حرام ٹھہرادیے گئے تھے۔ آج وہ بھی ویسی ہی گمنامی بھگت رہے ہیں۔ اپنے دورِ اقتدار کی غلطیوں کا کھلے دل سے اعتراف اوران کے بارے میں پرخلوص شرمندگی کے اظہار کے بغیر سوکل جماعتی کانفرنسیں بھی وطن عزیز میں اصل جمہوریت، کا قیام یقینی نہیں بنا سکتیں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran