سوچا تھا مرنے سے پہلے ایک کتاب ضرور لکھوں گا۔ اس کتاب کے لئے "کھڑکی توڑ رش" کے لالچ میں بہت سی معلومات خبروں یا کالموں میں تفصیل سے بیان کرنے کی بجائے یادداشت کے خانے میں ڈالتا رہا۔ بڑھاپے کی طرف بڑھتے ہوئے مگر اب دریافت ہورہا ہے کہ یادداشت کا خانہ عموماََ کمزور ہوتا ہے۔ اس پر بھروسہ بے وقوفی ہے۔ اہم معاملات کو نوٹس لکھ کر مستقبل کے لئے محفوظ کرنے ہی میں عافیت ہے۔
کتاب لکھنے کے لئے ریکارڈ شدہ مواد کے علاوہ کم از کم ایک سال نہایت منظم انداز میں کام بھی درکار ہے اور یہ فقط اسی صورت ممکن ہے اگر کوئی شخص آپ کو کتاب لکھنے کے لئے اتنی پیشگی رقم فراہم کردے جو آپ کو روزمرہّ ضروریات کے بارے میں بے فکر کردے۔ اس کے بغیر کتاب "لکھنا" نہیں"چھاپنا" پڑتی ہے۔ آپ دوستوں میں اسے "تحفتاََ" بانٹ کر خود کو "صاحبِ کتاب" ہونے کے گماں میں مبتلا کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے مجھے روز کی روٹی روز کمانا ہوتی ہے۔ کتاب لکھنے کے امکانات سے لہٰذا محروم ہوچکا ہوں۔
اس محرومی کا البتہ گزشتہ تین دنوں سے نہایت شدت سے ملال لاحق ہورہا ہے۔ افغانستان میں ان دنوں جو طالبان برسرِاقتدار ہیں ان کے عروج کے پہلے تین سال میں نے بہت قریب سے دیکھے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں جب آرمینیا نے نگورنوکارا باخ پر قوم پرستی کے جنون میں مبتلا ہوکر حملہ کرکے وہاں نسلوں سے آباد آذری گھرانوں کو مادرِ وطن کی جانب دھکیلا تو آذربائیجان سینکڑوں پر مشتمل مہاجرین کو مناسب امداد فر اہم کرنے کے قابل نہیں تھا۔ سوویت یونین سے آزادی کے بعد وہ سیاسی عدم استحکام کے طویل مہینوں کے بعد بالآخرموجودہ آذری صدر کے والد کی قیادت میں ایک مستحکم حکومت بنانے کے قابل ہوا۔ حیدر علیوف موصوف کا نام تھا۔ اقتدار کی سیاست پر ان کی گرفت حیران کن تھی۔ غالباََ اسی باعث وہ کمیونزم کے نام پر قائم سوویت یونین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارے -پولٹ بیورو- کے رکن بنے۔ مسلم شناخت والی کسی اور "سوویت ری پبلک" کے سربراہ کو ایسا اعزاز نہیں ملا تھا۔
میں نے آذربائیجان کے دو سفر کے دوران تین سرکاری کھانوں میں مرکزی ٹیبل پر بیٹھ کر صدر علیوف مرحوم کا مشاہدہ کیا ہے۔ موصوف نہایت توجہ سے مہمانوں کی گفتگو سنتے اور اپنی ذات یاملک کے بارے میں بڑھک بازی سے ہمیشہ اجتناب برتتے۔ اس کے باوجود انہیں کامل یقین تھا کہ تیل کی دولت سے مالا مال آذربائیجان جو ثقافتی اعتبار سے بھی شاندار روایات وتاریخ کا حامل ہے بالآخر دنیا کے اہم ترین ممالک میں شمار ہوگا۔ اسے مگر اپنا مقام حاصل کرنے کیلئے سیاسی استحکام اور وقت درکار ہے۔
محترمہ بے نظیربھٹو کے دورِ حکومت میں لیکن آرمینیا کے مقابلے میں آذربائیجان فوجی واقتصادی اعتبار سے ایک کمزور ملک تھا۔ نگورنو کاراباخ سے زبردستی دھکیلے گھرانوں کے لئے قائم ہوئے مہاجر کیمپوں میں انہیں شدید سردی اور بچوں کو بیماری سے بچانے کے وسائل وافر مقدار میں میسر نہیں تھے۔ پاکستان نے اس تناظر میں مدد کا فیصلہ کیا۔ گرم بستر، لحافوں اور ادویات کی ایک کھیپ کے ساتھ ان دنوں کے وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی صاحب کو C-17طیارہ لے کر باکو پہنچنے کا حکم ہوا۔ ان کے ذمے یہ فرض بھی لگایا گیا کہ اپنے قیام باکو کے دوران وہ سفارت خانے کی مدد سے آذربائیجان حکومت سے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ پاکستان نگورنوکاراباخ سے دھکیلے مہاجرین کے لئے مزید کیا کرسکتا ہے۔
نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں مجھے پہلی بار جاپان اور دوسری مرتبہ جرمنی جانے والے صحافیوں کے وفد میں شامل کیا گیا تھا۔ دونوں مرتبہ ایئرپورٹ سامان سمیت پہنچنے کے بعد مگر اطلاع یہ دی گئی کہ میرا نام اس فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ اقتدار سے فراغت کے بعد نواز شریف مردان میں ایک جلسے سے خطاب کرنے کے لئے جاتے ہوئے تھوڑی دیر کو اسلام آباد رُکے۔ ان کی اس شہر آمد سے چند دن قبل میرے والد کا انتقال ہواتھا۔
مجھے فون پر اطلاع دی گئی کہ وہ میرے ہاں افسوس کے لئے آنا چاہتے ہیں۔ جس گھر میں ان دنوں کرائے پر رہ رہا تھا ہرگز اس قابل نہیں تھا کہ وہ نواز شریف جیسی شخصیت کا خیر مقدم کرسکے۔ میں نے اپنے سسر مرحوم سے درخواست کرکے سابق وزیر اعظم کو وہاں بلوالیا۔ ان کے ساتھ آنے والوں میں مشاہد حسین سید اور چودھری نثار علی خان آج بھی زندہ ہیں۔ دُعائے فاتحہ کے بعد میاں صاحب نے نہایت خلوص سے پنجابی میں مجھ سے دریافت کیا کہ بطور صحافی میں دریافت کرسکا ہوں کہ مجھے عین آخری وقت پر جاپان اور جرمنی کے دورے میں شرکت سے کیوں روکا گیا تھا۔ گھر آئے مہمان کے ساتھ خوش اخلاقی ہماری تہذیب ہے۔ اپنی جھکی طبیعت پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے میں نے مسکراتے ہوئے فقط یہ کہا کہ ان دنوں وہ وزیر اعظم تھے۔ انہیں میرے ساتھ ہوئے سلوک کی خبر فوراََ مل گئی تھی۔ وہ چاہتے تو ذمہ داروں کا تعین کرسکتے تھے۔ اب اس معاملے کو رات گئی بات گئی کی طرح ٹالنا ہی بہتر ہے۔
جاپان اور جرمنی کے حوالے سے میرے ساتھ جو ذلت آمیز سلوک ہوا، اسے ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے خود سے عہد کیا کہ آئندہ کسی وزیر اعظم کے ہمراہ جانے والے صحافیوں میں خود کو شامل نہیں کروں گا۔ میری بدقسمتی کہ میرے اس فیصلے کے چند ہی دن بعد محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم کے دفتر لوٹ آئیں۔ وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے چند روز بعد انہوں نے چین جانے کا فیصلہ کیا۔ میرا نام ان کے تجویز کردہ صحافیوں کی فہرست میں سرِ فہرست تھا۔ مجھ سے تاہم جب وزارت اطلاعات نے مذکورہ دورے کے لئے پاسپورٹ مانگا تو میں نے انکار کردیا۔ میرا انکار محترمہ کو ناگوار گزرا۔ اس کے دوسرے دن جاپان کا قومی دن تھا۔ اس حوالے سے سفارت خانے میں ہوئی تقریب میں وہ میرے پاس آئیں اور سرگوشی میں اپنے غصے کا اظہار کیا۔ میں اس کے باوجود اپنی ضد پر قائم رہا اور آج بھی اس پر قائم رہنے کا ارادہ ہے۔
تمہید لمبی ہوگئی۔ اصل بات کی طرف لوٹتے ہیں۔ سردار آصف احمد علی مرحوم کوآذربائیجان بھیجتے ہوئے وزیر اعظم نے انہیں کہا کہ بہتر ہوگا، C-17میں وہ چند صحافیوں کو بھی لے جائیں تاکہ وہ پاکستان کے عوام کو آذربائیجان کی اہمیت سے آگاہ کریں۔ اس ضمن میں انہوں نے میرا نام بھی لیا۔ لیکن اس اطلاع کے ساتھ کہ اسے "نجانے کیا ہوگیا ہے"۔ سردار صاحب فقط مسکرائے اور کہا کہ میرے ان سے ذاتی نہیں بلکہ خاندانی مراسم ہیں۔ ان کے لحاظ میں انہیں انکار کرنا ناممکن ہوگا۔ وہ درست ثابت ہوئے۔ مجھ سے رابطہ ہوا۔ میں انکار کرنہیں سکتا تھا۔ میری تجویز پر دو مرحوم اور میرے بہت ہی عزیز دوست اور شاندار صحافی محمد یاسین صاحب اور محترم انجم نیاز بھی آذربائیجان کے سفر کو تیار ہوگئے۔
ہم مگر براہ راست آذربائیجان موسم کی خرابی کے باعث اتر نہ پائے۔ رات گزارنے کے لئے ترکمانستان کے اشک آباد میں قیام کرنا پڑا۔ "اشک آباد کی شام" کے نام سے فیض احمد فیض نے ایک نظم لکھ رکھی ہے۔ شام کے آخری گھنٹوں میں اشک آباد اترنے کے بعد ہوٹل میں اپنے کمرے کا رخ کرنے کے بجائے میں شہر کو نکل گیا۔ میری خواہش تھی کہ وہ "خوبیاں" دریافت کروں جنہوں نے فیض صاحب کو "اشک آباد کی شام" پر نظم لکھنے کو مائل کیاتھا۔
شہر کی سڑکوں پر آوارہ گردی میں مصروف تھا تو مجھے ایک درمیانی قد والے شخص نے پاکستانی شلوار قمیض پہنے ہوئے "نصرت صاحب" کہہ کر پکارا۔ میں حیران ہوکر ان کے پاس پہنچا تو وہ زبردستی میرے "میزبان" ہوکر ایک ریستوران میں لے گئے۔ ان صاحب کا نام جان بوجھ کر نہیں لکھ رہا ہوں۔ ان سے گفتگو کی بدولت علم ہوا کہ پاکستان ان دنوں کپاس کی شدید قلت کا سامنا کررہا ہے۔ ترکمانستان کے ہاں جبکہ ریکارڈ توڑ فصل ہوئی ہے اور وہ اسے سستے داموں پاکستان برآمد کرنے کو تیار ہے۔
سوویت یونین کو پاکستان کی مدد سے شکست دے کر اقتدار میں آئے "مجاہدین" مگر ان "ٹوپک سالار(وارلارڈز)" پرقابو پانے میں ناکام ہیں جو ترکمانستان سے پاکستان آنے والی کپاس کو قدم قدم پر بھتہ مانگتے ہوئے روک رہے ہیں۔ " پاکستان کو اس کا علاج سوچنا ہوگا۔ "ان صاحب نے یہ بات کہی تو وہ مجھے "طاقتور روابط" کے حامل کاروباری شخص لگے۔ ان کا تعلق بلوچستان میں آباد پشتونوں سے تھا۔ اس شناخت نے میرے شبے کو مزید تقویت دی۔
اگلے دن کی صبح ترکمانستان سے رخصت کرنے کے لئے ایئرپورٹ تک جاتے ہوئے ایک سفارت کار کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر میں نے ترکمانستان سے پاکستان آنے والی کپاس کی راہ میں کھڑی مشکلات کی تصدیق حاصل کرلی۔ اس سفارت کار نے کندھے اچکا کر اگرچہ اطمینان دلایا کہ قندھار سے جلد ہی ایک تحریک ابھرنے والی ہے جو "مجاہدین" کو سبق "سکھادے گی"۔ وطن لوٹا تو چند ہی دنوں میں اطلاع ملی کہ قندھار میں ملاعمر نامی ایک "طالب" کی قیادت میں طالبان نام کی تحریک "ٹوپک سالاروں" کے خلاف منظم ہوکر بقیہ افغانستان کو "آزاد" کروانے کا ارادہ باندھ چکی ہے۔ تحریک طالبان سے یوں اس کے عروج کے دنوں سے میری شناسائی کا آغاز ہوگیا۔