آئین میں 27ویں ترمیم کے پاس ہوجانے کے بعد سپریم کورٹ کے دو عزت مآب جج اپنے عہدوں سے احتجاجاََ مستعفی ہوگئے ہیں۔ ایسی ایک خبر لاہور ہائی کورٹ سے بھی آئی ہے۔ مذکورہ استعفوں کے بعد تبدیلی کو بے چین ہمارے متوسط طبقے کے ایک مؤثر حلقے میں امید یہ باندھی جارہی ہے کہ موجودہ حکومتی بندوبست کے خلاف بھی ویسی ہی ایک تحریک چل سکتی ہے جو جنرل مشرف کے زوال کاباعث ہوئی تھی۔ فی الوقت میں اس امید کی حوصلہ افزائی یا حوصلہ شکنی کے قابل نہیں۔ جس تحریک کا حوالہ دیا جارہا ہے اس پر اتوار کی شام بستر میں گھسنے سے پہلے توجہ دی تو ذہن میں یادوں کا سیلاب امڈ آیا۔
پاکستان میں 2002ء کے انتخابات سے قبل جب ٹی وی صحافت متعارف ہونے کے منصوبے بن رہے تھے تو میں اس جانب جانے کو ذہنی طورپر تیارنہیں تھا حالانکہ اس کا بھرپور آغاز اس ادارے سے بھی ہورہا تھا جس کے انگریزی اخبار کے لئے خارجہ امور پر رپورٹنگ اور پارلیمانی کارروائی پر رپورٹنگ کرتے ہوئے میں نے کچھ شہرت کمائی تھی۔ مجھے اس کی جانب سے ٹی وی صحافت کا رخ کرنے کی پیشکش بھی ہوئی مگر انکار کردیا۔ بعدازاں اگرچہ ثابت ہوا کہ میرے اکثر فیصلوں کی طرح یہ فیصلہ بھی احمقانہ تھا۔
پچھتاوے کے دنوں میں چند ایسے واقعات بھی ہوگئے جنہوں نے مجھے پرنٹ صحافت سے دلبرداشتہ کردیا۔ 2007ء میں میرے دوست سید طلعت حسین آج ٹی وی کے ڈائریکٹر نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز تھے۔ انہوں نے مجھے مائل کرنا شروع کردیا کہ میں ٹی وی صحافت آزماکر تو دیکھوں۔
2007ء کے آغاز میں ٹی وی صحافت کو راغب کرنے کے لئے انہوں نے تجویز پیش کی کہ چونکہ اس برس عام انتخابات کروانے کا فیصلہ ہوچکا ہے تو میں اپنے پارلیمانی تجربے کی بدولت ملک بھر سے قومی اسمبلی کے چند حلقوں کا انتخاب کروں۔ وہاں سے جو صاحب 2002ء کے انتخاب میں قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے تھے ان کے حلقے میں جاکر موصوف کی کارکردگی کا جائزہ لوں اور اس امکان کو زیر بحث لائوں کہ ان کا کونسا مدمقابل کیوں اور کس وجہ سے ایک تگڑا امیدوار ثابت ہوسکتا ہے۔ ٹی وی کے دھندے سے آگاہ لوگ جانتے ہیں کہ کوئی آئیڈیا تیار ہوجائے تو اس کی آزمائش کے لئے ایک پروگرام تیار کیا جاتا ہے۔ اسے دھندے کی زبان میں پائلٹ کہا جاتا ہے۔
میں طلعت حسین کے تجویز کردہ آئیڈیا کو فیلڈ میں جاکر آزمانے کے لئے لاہور کے اس حلقے کا تجزیاتی پائلٹ تیار کرنے کو آمادہ ہوگیا جہاں سے 2002ء کے انتخابات کے دوران چودھری اعتزاز احسن قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے تھے۔ 2007ء کے مجوزہ انتخابات کے لئے ان کے مقابلے میں شیخ روحیل اصغر میدان میں اترنے کی تیاری کررہے تھے۔ ان دونوں صاحبان سے میری شناسائی تھی۔ اس کافائدہ اٹھاتے ہوئے ان دونوں سے رابطہ کیا اور پائلٹ ریکارڈ کرنے کی تیاری کرنا شروع کردی۔ بالآخر طے یہ ہوا کہ 9مارچ 2007ء کو دوپہر کے کھانے کے قریب چودھری اعتزاز احسن کے زمان پارک والے گھر سے ریکارڈنگ کا آغاز ہوگا۔
یہ دن طے کرتے ہوئے میرے وہم وگماں میں بھی نہیں تھا کہ 9مارچ 2007ء ایک اور حوالے سے ہماری تاریخ کے اہم ترین دنوں میں شمار ہوسکتا ہے۔ اپنی ریکارڈنگ کے لئے چند گائیڈلائنز تیار کرنے کے لئے میں نے اس روز لاہور کے ایک ہوٹل میں ناشتے کے بعد خود کو کمرے میں بند کرکے کچھ نوٹس تیار کئے۔ ان کی تیاری کیلئے ٹی وی کو بھی آف رکھا۔ نوٹس تیار کرلینے کے بعد چودھری اعتزاز احسن کے ہاں جانے کی تیاری شروع کردی۔
چودھری صاحب سے شناسائی کا آغاز1970ء کی دہائی کے آخری سالوں میں ہوا تھا۔ جنرل ضیاء کے دور میں ان کی جمہوریت بحالی تحریک میں بھرپور شرکت نے شناسائی کو دوستی میں بدل دیا۔ اسی دوستی کی بدولت ان کی اہلیہ محترمہ بشریٰ اعتزاز احسن نے ہمیشہ بڑی بہنوں والی شفقت برتی۔ اتفاق یہ ہوا کہ 9مارچ 2007ء کی دوپہر میں ان کے گھر پہنچا تو وہ گھر سے باہر گاڑی میں نکل رہی تھیں۔ میں نے ان کی گاڑی کاگھر سے باہر آنے کا انتظار کیا۔ سلام کرنے ان کے پاس گیا تو انہوں نے دُکھ بھری تلخی کے ساتھ مجھ سے پنجابی میں سوال پوچھا کہ میں نے ٹی وی سکرین پر "پاکستان کی تحقیر" دیکھی ہے یا نہیں۔ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو وہ مزید مضطرب ہوگئیں۔ یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگئیں کہ "اپنے دوست (اعتزاز احسن) کی شکل دیکھتے ہی تم جان لو گے۔
گھر کے اندر داخل ہوکر میں چودھری صاحب کے دفتر نماکمرے میں داخل ہوا تو وہ اپنی میز پر ٹی وی سکرین پر نگاہ جمائے ہوئے بہت اداس بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھ کر اٹھے مگر گرم جوشی عنقا تھی۔ انہوں نے فرض کرلیا کہ نام نہاد سیاسی رپورٹر ہوتے ہوئے مجھے اس روز ہوئے واقعہ کا علم ہوگا۔ میں نے نہایت عاجزی سے اپنی لاعلمی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی وجہ بھی بیان کردی۔ میرے اعتراف اور اس کی وجوہات جان لینے کے بعد چودھری صاحب نے آگاہ کیا کہ 9مارچ 2007ء کی صبح اُن دنوں کے چیف جسٹس افتخار چودھری کو جنرل مشرف نے بطور صدرِ پاکستان اپنے دفتر طلب کیا۔
وہاں وزیر اعظم شوکت عزیز کے علاوہ فوجی اور سول انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان کی موجودگی میں افتخار چودھری کو چند فائلیں دکھاکر استعفیٰ دینے کو مجبور کیا گیا۔ ٹی وی سکرینوں پر مذکورہ ملاقات کی صرف تصویر چلائی گئی ہے۔ وہ تصویر بقول چودھری اعتزاز احسن مشرف کی "رعونت" اور افتخار چودھری کی "تذلیل" کا "اشتہار" تھی۔ چیف جسٹس نے تاہم استعفیٰ دینے سے انکار کردیا۔ ایوان صدر میں موصوف پر پانچ گھنٹے تک برقرار رکھا دبائو کسی کام نہ آیا۔ افتخار چودھری کے انکار سے مشتعل ہوکر جنرل مشرف آئین کے آرٹیکل 209کو بروئے کار لاتے ہوئے انہیں معطل کردے گا۔
چودھری صاحب کا بیان کردہ تجزیہ بعدازاں درست ثابت ہوا۔ افتخارچودھری کے خلاف بدعنوانی کے الزامات کے تحت ایک ریفرنس تیار کرکے جوڈیشل کمیشن بھجوادیا گیا۔ جسٹس جاوید اقبال اس ریفرنس کا فیصلہ ہونے تک قائم مقام چیف جسٹس تعینات کردئیے گئے۔ 9مارچ 2007ء کے روز جذباتی اعتبار سے انتہائی پریشان ہونے کے باوجود چودھری اعتزاز احسن نے میرا آزمائشی پروگرام ریکارڈ کروانے میں بھرپور تعاون کا مظاہرہ کیا۔ دوسرے دن کی صبح مگر وہ بستر سے اٹھتے ہی اسلام آباد روانہ ہوگئے اور افتخار چودھری کی بحالی کے لئے چلائی تحریک کے نمایاں رہنما?ں میں شامل ہوگئے۔ ان ہی کی تجویز پر افتخار چودھری اعتزاز احسن کی گاڑی میں بیٹھ کر "کاررواں " کی صورت لاہور جاکر وہاں کے ہائی کورٹ کے احاطے میں منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کے لئے آمادہ ہوئے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔
9مارچ 2007ء کے دن ذاتی مشاہدے میں آئے واقعات یاد کرتے ہوئے یہ کالم لکھتے وقت "تقابلی جائزہ" لینے کو بھی مجبور ہوگیا ہوں۔ 2007ء کے مارچ تک جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالے 8برس گزرچکے تھے۔ انہوں نے بطور صدر پاکستان آرمی چیف کی وردی پہنے ہوئے چیف جسٹس پاکستان کو "طلب" کیا تھا۔ طلبی کی جوجھلکیاں ٹی وی سکرینوں کے لئے بھجوائی گئیں وہ واقعتا نادانستگی میں اقتدار کی رعونت کا بھرپور اظہار تھیں۔ اِن دنوں 9مارچ 2007ء کے برعکس ایوان صدر میں ایک سیاستدان دوسری مرتبہ اس عہدے کے لئے منتخب ہوکر براجمان ہے۔
منصور علی شاہ اور اطہر من اللہ کو صدر پاکستان نے طلب کرکے چند فائلیں دکھاکر مستعفی ہونے کو مجبور نہیں کیاہے۔ نظر بظاہر ایک منتخب پارلیمان ہی نے آئین میں 27ویں ترمیم منظور کی۔ اُس کی چند شقوں نے ان دونوں ججوں کو یہ سوچنے کو اُکسایا کہ مذکورہ شقیں عدلیہ کی آزادی "سلب" کرنے کے ارادے سے متعارف کروائی گئی ہیں۔ وہ جنہیں انگریزی میں Opticsیعنی "جو نظر آتا ہے" کہا جاتا ہے کئی حوالوں سے 9مارچ 2007ء کے دن رونما ہوئی آپٹکس سے مختلف ہیں۔ ان کی بنیاد پر تاریخ کے دہرائے جانے کا دعویٰ کرنا مشکل ہے۔ اس کے باوجود فی الوقت خود کو عقل کل تصور کرتے ہوئے حتمی رائے سے گریز سے اجتناب ہی بہتر ہوگا۔