Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Nepal Ke Halaat Se Inqilabi Jazbat Ki Taza Hoti Yaadein

Nepal Ke Halaat Se Inqilabi Jazbat Ki Taza Hoti Yaadein

دو دن قبل میں نے سوشل میڈیا پر ایک تصویر دیکھی تو بہت کچھ یاد آگیا۔ جو تصویر دیکھی اس میں نیپال کے کسی سکول کے بچے نکروں والا یونیفارم پہن کر حکومت مخالف مظاہروں میں حصہ لے رہے تھے۔ ان کے ہاتھ میں پلے کارڈ تھے جن پر لکھی نیپالی میں پڑھ نہیں سکتا تھا۔ یہ تصویر دیکھتے یہ مجھے 1968ء یاد آگیا۔ رنگ محل مشن ہائی سکول لاہور کا طالب علم تھا۔ ہمارے سکول میں بھی یونیفارم لازمی تھی۔ سکول میں حاضری لگواکر لیکن میں چپکے سے باہر نکل کر پیدل چلتے ہوئے انارکلی بازار سے گزرکر مال روڈ پہنچ جاتا۔

مجھے قوی امید ہوتی کہ لاہور ہائی کورٹ یاریگل چوک پر طلباء یا وکلاء کا کوئی جلوس ایوب خان کی حکومت کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے ہوئے ہوگا۔ وہ مل جاتا تو نہایت خوشی سے اس میں شامل ہوجاتا۔ پھیپھڑوں کا پورا زور لگاکر ایک نعرے کے جواب میں مردہ باد بھی کہتا۔ دل میں یہ خیال آیا کہ نیپالی حکومت کے خلاف بھی ویسے ہی جذبات پیدا ہورہے ہوں گے جو 1968ء میں پاکستان کے عوام ایوب حکومت کے خلاف محسوس کررہے تھے۔ نیپال کے حقائق کا تجربہ کرنے کے بجائے البتہ بچپن سے جوانی میں داخل ہوتے ہوئے اپنے دل میں کھولتے "انقلابی جذبات" کی یادوں میں کھوگیا۔

چند گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے تو سوشل میڈیا کے ایک اور پھیرے نے مگر احساس دلایا کہ نیپال "انقلاب" کی جانب نہایت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ "انقلاب" کا ذکر کرتے ہوئے روایتی اور سوشل میڈیا نے یہ اطلاع بھی دی کہ مذکورہ تبدیلی کی قیادت Gen-Zکے ہاتھ میں ہے۔ Gen-Zاس نسل کو پکارا جاتا ہے جو 1997ء سے 2012ء کے درمیان پیدا ہوئی ہے۔ انٹرنیٹ، سمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم سے بخوبی واقف ہے۔ امریکہ میں سماجی رویوں کا جائزہ لینے والے ایک ادارے نے ایک برس کی تحقیق کے بعد یہ دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ نسل اپنے دن کے 6سے سات گھنٹے سمارٹ فون اور اس پر موجود سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کی نذر کردیتی ہے۔

یہ روایتی میڈیا اور ریاستی اور سیاسی اداروں پر اعتبار نہیں کرتی۔ اپنے مستقبل کے بارے میں غیر محفوظ محسوس کرتی ہے۔ اپنے دل میں ابلتے جذبات کو سوشل میڈیا کے ذریعے اکثر طنزیہ انداز میں بیان کرتی ہے۔ ان کے اندازِ طنز سے Memesبنتے ہیں۔ انہیں آج کے دور کے کارٹون کہا جاسکتا ہے۔ اس نسل کا ایک مؤثر حصہ لیکن اپنے جذبات کو نہایت تلخ زبان میں بیان کرتاہے۔ اس کے دل میں مجھ جیسے صحافیوں اور روایتی سیاستدانوں کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔

ذکر بہرحال نیپال کا ہورہا تھا۔ میں پیشہ وارانہ وجوہات کی بناء پر اس ملک کئی بار گیا ہوں۔ وہاں کے نوجوان سیاست میں بہت دلچسپی لیتے نظر آتے تھے۔ مجھے ان کے ساتھ لمبی گپ لگاکر بہت خوشی محسوس ہوتی۔ خاص طورپر کالجوں کی ان بچیوں سے بہت متاثر ہوا جو کئی بین الاقوامی کانفرنسوں میں غیر ملکی صحافیوں کی معاونت کرتی تھیں۔ ان خواتین کی زبان سے شعروشاعری یا فلموں کے ذکرکے بجائے مارکس، لینن اور مائوزے تنگ کے خیالات سن کر حیرانی ہوتی۔ مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ نیپال میں کمیونسٹ تحریک بہت تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔ اس کی وجہ سے بادشاہی نظام کا خاتمہ ہواا ور نیپال میں کئی برسوں تک حکمران رہی نیپالی کانگریس کو انتخابات میں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کمیونسٹ اقتدار میں آنے کے باوجود مگر نیپالی عوام کو مطمئن نہ کرپائے۔ ان میں کئی دھڑے بھی نمودار ہوگئے جن میں"مائونواز" دھڑا سب سے کٹرکمیونسٹ تصور ہوتا تھا۔

کمیونسٹ اور خاص طورپر خود کو مائو نواز کہلواتی جماعتیں اپنے نظریات کے حوالے سے بہت کٹر اور غریب نواز تصور کی جاتی ہیں۔ پارلیمان پہنچ کر مگر "ہم ہوئے کہ تم ہوئے-سب اسی زلف(ہوسِ دولت)کے اسیر "ہوگئے والا معاملہ ہوگیا۔ منگل کی صبح تک نیپال کا وزیر اعظم خادپرشاد شرمااولی تھا۔ وہ بچپن ہی سے کمیونسٹ تحریک کا متحرک کارکن تھا اور اس کی وجہ سے اس کے خلاف 14سال سزا کا حکم ہوا۔ اس سزا کے آخری دنوں میں نیپال کے شاہ نے اس کی جاں بخشی کردی تھی۔

اولی کو 2021ء میں اندازہ ہوگیا تھا کہ اسے مخلوط حکومت بنانا ہوگی۔ "مخلوط حکومت" کی مجبوریوں سے اُکتاکر 2023ء میں اس نے پارلیمان کی تحلیل کا اعلان بھی کردیا۔ نیپال کے سپریم کورٹ نے مگر اس کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا۔ پارلیمان بحال ہوئی تو اولی نے دوبارہ وزیر اعظم کے منصب کو سنبھال لیا۔ اس پر براجمان رہنے کے لئے اس نے اپنی جماعت کے علاوہ کانگریس اور مائو نواز حکومت کے ساتھ مل کر حکومت چلانے کا فیصلہ کیا۔ نیپال کی پارلیمان میں"اپوزیشن" کا وجود ہی نہ رہا۔ پارلیمانی اپوزیشن کی عدم موجودگی نے جو خلا پیدا کیا اس نے ایک نوجوان گلوکار بلندراسنگھ کو جوبالن کے نام سے مشہورہے "انقلابی نغمات"کی وجہ سے مقبول ترین گلوکار بنادیا۔

اپنی مقبولیت کی بدولت 2023ء میں وہ نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو کے میئر کا انتخاب بطور "آزاد" امیدوار بھاری اکثریت سے جیت گیا۔ عمر اس کی اس وقت 35سال ہے۔ وہ انجینئرنگ کا طالب علم رہا ہے اور اپنے علم کو اس نے نیپال کے دارالحکومت میں کوڑے کرکٹ کے پہاڑوں کو مسمار کرنے کے لئے استعمال کیا۔ جدید بنیادوں پر ہوئی ویسٹ مینجمنٹ کے بعد اس نے کھٹمنڈو میں موجود تاریخی مقامات کو سیاحوں کے لئے مزید پرکشش بنانے کی ہر ممکن کوشش بھی کی۔ ان کوششوں نے اسے عوام میں مزید مقبول بنادیا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ نیپال کے حالات سنبھالنے کے لئے اسے عارضی وزیر اعظم بنایا جاسکتا ہے۔

اولی کو اپنی جان بچانے کے لئے نیپال سے بھاگنا پڑا ہے۔ اس سے نفرت کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ساری زندگی "کمیونزم" کا وردکرنے والا "غریب دوست" اولی اقتدار میں آکر جاہ پرست ہی نہیں بلکہ پرتعیش زندگی گزارنے کی ہوس میں مبتلا ہوگیا۔ اقتدار برقرار رکھنے کی غرض سے موصوف نے اپنے اصول بھلاکر نیپالی کانگریس کے ان نمائندوں کو بھی کابینہ کا حصہ بنالیا جن کے خلاف کرپشن کے سنگین الزامات تھے۔ ایسا ہی رویہ اس نے مائونواز کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ بھی اختیار کیا۔

نیپال میں غربت ٹھوس انداز میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ ایسے ملک میں ہرسال تقریباََ8لاکھ نیپالی غیرملک چلے جاتے ہیں۔ لاکھوں نیپالی بھارت کے ساتھ کھلابارڈر ہونے کی وجہ سے بہار اور یوپی میں ذلت بھری مشقت کے ذریعے اپنے گھر والوں کے لئے رزق کماتے ہیں۔ اتنی غربت کے ہوتے ہوئے بھی اولی کے ساتھ حکومت میں شامل وزراء کے بیٹے، بیٹیاں، پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں امریکہ اور یورپ کی مشہور یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے لئے جاتے رہے۔ ان کے فیس بک اور انسٹاگرام اکائونٹ سےGen-Zکے نمائندے تصاویر نکال کر سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں پر ڈال کر یہ پیغام دیتے رہے کہ نیپال کا حکمران طبقہ کتنی بے دردی سے نیپال کے عوام کی غربت اور بدحالی کو بھلائے ہوئے ہے۔

سوشل میڈیا پر نیپال کے حکمران طبقات کی اولادوں کی عیش بھری زندگی کی تصاویر نمایاں ہونی شروع ہوئیں تو اپنی جوانی میں امراء￿ کیخلاف نفرت کی آگ بھڑکانے والے وزیر اعظم اولی کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ سوشل میڈیا کے 26کے قریب پلیٹ فارم بند کردئے جائیں۔ اس کے فیصلے کے بعدآپ واٹس ایپ کے ذریعے غیر ملکوں میں مقیم عزیز ترین رشتے داروں سے رابطہ بھی نہیں کرسکتے تھے۔

Gen-Zنے سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف جلوس نکالا تو اولی کی حکومت نے پولیس کو ان پر بے دریغ گولیاں برسانے کا حکم دیا۔ اس کے نتیجے میں 19نوجوان جان سے گئے سینکڑوں شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچائے گئے۔ حکومتی استبداد مگر اولی اور جین- زی کی تحریک روکنے میں ناکام رہا اور کئی وزرائکو جان بچانے کے لئے ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر نیپال سے فرار ہونا پڑا ہے۔ فرار ہوئے وزراء￿ کے گھروں کو مگر ناراض نوجوانوں نے نذرآتش کردیا۔ ایک سابق وزیر اعظم کے آبائی گھر میں لگائی آگ کی وجہ سے اس کی بیوی جھلس کر مرگئی ہے۔ نیپال کے وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ رہے افراد کو بھی برسرعام مارا پیٹا اور ذلیل ورسوا کیا گیا ہے۔

نیپال کے حالات پر غور کریں تو فوری خیال ذہن میں یہ آتا ہے کہ وہاں کے حکمرانوں نے برسوں سے اپنے عوام کے بارے میں جو لاتعلقی اختیارکررکھی تھی اس کے نتیجے میں یہ تو ہونا ہی تھا۔ جان کی امان پاتے ہوئے میں اس سوچ سے اختلاف کرتا ہوں۔ "احتجاج" پرامن نہ رہے تو بربریت میں بدل جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے جو ابتری اور خلفشار پھیلتا ہے وہ ریاست کے طاقتور اداروں اور حکمران اشرافیہ کو متحد ہونے کو مجبور کردیتا ہے۔ "عرب بہار" کے نتیجے میں یہ ہی ہوا تھا اور نیپال میں اب بتدریج وہاں کی فوج"حالات سنبھالنے" کے نام پر آگے بڑھ رہی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ Gen-Zاپنی تحریک کا ایسا انجام دیکھنا چاہ رہی تھی۔ تیر مگر کمان سے نکل چکا ہے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran