خارجہ امور پر رپورٹنگ کرتے ہوئے زندگی گزاردی۔ بیک ڈور ڈپلومیسی یا خفیہ سفارت کاری کی اہمیت مگر گزشتہ دو دنوں میں حقیقی معنوں میں دریافت کی ہے۔ بدھ کی رات خود پر زبردستی نیند مسلط کرنے سے قبل پاکستان کے وزیر اطلاعات کا Xپر ایک پیغام دیکھا۔ اس کے ذریعے عطا اللہ تارڑ یہ عندیہ دیتے نظر آئے کہ طالبان کے ہٹ دھرم رویے کے باعث استنبول میں پاکستان اور ان کے نمائندوں کے مابین ہونے والے مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔
صبح اٹھنے کے تھوڑی دیر بعد وزیر دفاع خواجہ آصف صاحب کا سوشل میڈیا کے اسی پلیٹ فارم پر لکھا ایک اور پیغام دیکھنے کو ملا۔ طالبان کے خلاف تندوتیز زبان استعمال کرتے ہوئے وہ پاکستان کو ایک اور جنگ کے لئے تیار کرتے سنائی دئیے۔ میں ترکی کے شہر استنبول میں کام کرنے والے چند صحافی دوستوں سے روابط بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوگیا۔ مجھے گماں تھا کہ اپنا تجربہ اور اثر استعمال کرتے ہوئے وہ مجھے پاک-افغان مذاکرات کے بارے میں ترک ذرائع سے گفتگو کے بعد حقیقی صورتحال سے آگاہ کرپائیں گے۔ دو لوگوں سے بالآخر دوپہر کے قریب رابطہ ہوگیا۔ انہوں نے میرے لئے حقائق معلوم کرنے کی کوشش کا وعدہ کیا۔
بدھ کی صبح سے شام تک سوشل میڈیا ہی نہیں بلکہ روایتی میڈیا بھی مسلسل یہ پیغام دیتا سنائی دیا کہ استنبول میں ہونے والے مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔ اب طالبان سے دہشت گردوں کی پشت پناہی کا ٹیڑھی انگلی کے استعمال سے حساب لینا ہوگا۔ افغانستان کے روایتی اور سوشل میڈیا سے دریں اثنائپاکستان کو یاد دلانے کی کوششیں شروع ہوگئیں کہ ان کا ملک سلطنتوں کا قبرستان رہا ہے۔ برطانوی سامراج کو انہوں نے کابل سے 19ویں صدی کے اختتامی سالوں میں ذلت آمیز انداز میں فرار ہونے کو مجبور کردیا تھا۔ اس کے بعد والی صدی میں باری آئی سوویت یونین کی جو لاکھوں فوجیوں اور جدید ترین اسلحہ ہوتے ہوئے بھی افغانستان کو وسطی ایشیائکے مسلم اکثریتی ممالک کی طرح اپنی کمیونسٹ ایمپائر کا حصہ نہ بناسکا۔
رواں صدی شروع ہوئی تو نائن الیون سے مشتعل ہوکر امریکی افواج اپنے اتحادیوں سمیت کابل پر مسلط ہوگئی۔ 20برس تک اربوں ڈالر جدید ترین اسلحہ کے استعمال اور بے تحاشہ انسانی جانوں کے زیاں کے باوجود اگست 2021 میں دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے ملک کی فوج کو بھی لیکن ذلت آمیز انداز میں افغانستان سے رخصت ہونا پڑا۔ ایک نہیں تین ایمپائر کو شکست سے دو چار کرنے والے افغانستان کا پاکستان جیسا بے تحاشہ مسائل میں گھرا ملک کیا بگاڑلے گا۔ سوشل میڈیا پر سینہ ٹھونک کر پاکستان کو للکارنے والوں کو منہ توڑ جواب دینے کے لئے پاکستان کے ڈیجیٹل مجاہد بھی متحرک ہوگئے۔ یوں محسوس ہوا کہ دونوں ممالک کے شہریوں کی اکثریت پاکستان اور افغانستان کے مابین ایک فیصلہ کن جنگ کی شدت سے منتظر ہے۔
بدھ کی شام سات بجے کے قریب مگر استنبول سے صحافی دوستوں نے پیغام دیا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا میزبان ہونے کی حیثیت میں ہمارا دیرینہ اور پرخلوص دوست ترکیہ سفارت کاری کے تمام ذرائع بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہوئے کوشش کررہا ہے کہ مذاکرات کی خاطر استنبول آئے وفود اپنے اپنے ممالک واپس نہ جائیں۔ ان کے مابین کسی نہ کسی طرح مذکرات کا ایک اور دور شروع ہوجائے۔ رات گئے یہ کاوشیں کامیاب ہوتی بھی نظر آئیں۔
پاکستان اور طالبان کے درمیان مگر منگل سے بدھ کی رات گئے تک سرکاری سطح پر تلخیوں کا جس انداز میں اظہار ہوا اور جنہیں سوشل میڈیا پر چھائے دونوں ملکوں کے ڈیجیٹل مجاہدین نے تخت یا تختہ والے معرکہ میں تبدیل کرنا چاہا ان کے ہوتے ہوئے مذکرات کا ایک اور راؤنڈ اگر کوئی مثبت سمت دریافت کرنے میں کامیاب ہوگیا تب بھی پاکستان اور طالبان اپنے ضرورت سے زیادہ جذباتی ہوئے حامیوں کو بکری ہوتے نظر آئیں گے۔ سوشل میڈیا کے دور میں تندوتلخ زبان استعمال کرنے کے بعد صلح جوئی کی سمت مڑنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
کاش پاکستان اور طالبان کے وزیر دفاع کے مابین ملاقات کی بدولت دوحہ میں ہوئی جنگ بندی کے بعد یہ اعلان نہ کیا جاتا کہ دونوں فریقین کے وفود مذاکرات کے ایک اور راؤنڈ کے لئے استنبول میں ملیں گے۔ جنگ بندی کو دیرپا امن میں بدلنے کے لئے سفارتی اعتبار سے بہت مغز کھپائی کرناہوتی ہے۔ دریں اثناء اس امر کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ متحارب قوتوں کے حامیوں کے جذبات ٹھنڈے کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ انگریزی میں اسے Cooling Off وقفے کا نام دیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا کے X جیسے پلیٹ فارم کے ہوتے ہوئے مگر کولنگ آف والا وقفہ تلاش کرنا مشکل ترین ثابت ہورہا ہے۔ روایتی میڈیا کو حکومتیں ہدایات دے کر اپنی مرضی کی سمت چلاسکتی ہیں۔ بیانیہ سازی تاہم سوشل میڈیا کے سپرد ہوجائے تو مسلسل نفرت ہی بھڑکاتی ہے۔ استنبول مذاکرات سوشل میڈیا کی نفرت فروغ روش ہی کی وجہ سے دیرپاامن تلاش کرنے کے بجائے طالبان اور پاکستان کے درمیان حتمی جنگ یقینی بناتے نظر آئے۔ سفارت کاری کا عاجز طالب علم ہوتے ہوئے میں یہ سوچنے سے قاصر ہوں کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے مسلسل دعویٰ کے بعد طالبان اور پاکستان اپنے حامیوں کو کس طرح صلح کی جانب بڑھنے کو قائل کرپائیں گے۔
بیک ڈور ڈپلومیسی یا خفیہ سفارت کاری کی اہمیت کا اس تناظر میں شدت سے احساس ہوا ہے۔ دوحہ کے بعد اگر پاکستان اور طالبان کے نمائندے بغیر اعلان کئے استنبول میں قطر اور ترکیہ کے ثالثوں کے ہوتے ہوئے خفیہ مذاکرات میں مصروف ہوتے تو روایتی میڈیا اس سے قطعاََ بے خبر رہتا۔ اس کی بے خبری پاکستان اور طالبان کو صحافیوں کے ذریعے اپنے پسند کے بیانیے فروغ دینے کو نہ اُکساتی۔ سرکاری سطح پر ہوئی بیانیہ سازی ڈیجیٹل کمانڈوز کو نفرت کی آگ بھڑکائے رکھنے کے مواقع بھی فراہم نہ کرتی۔
فون پر انگلیاں گھمانے کے عادی ہوئے دانشور اور صحافی اس حقیقت کو سفاکی سے نظرانداز کررہے ہیں کہ جنگ T-20 جیسا لطف اندوز مقابلہ نہیں ہوتی۔ اس میں انسانی جانوں کا زیاں ہی نہیں ہوتا، جنگ میں الجھے فریقین کے ہاں معمول کی زندگی جمود کی نذر ہوجاتی ہے۔ بے ثباتی کا احساس انسانوں کی توانائی مفلوج بنادیتا ہے۔ جنگ سے گریز ہی میں عافیت ہے اور اس ضمن میں ہر فریق کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔