Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Pak Afghan Mamlat Aur Amir Khan Muttaqi Ka Daura e Bharat

Pak Afghan Mamlat Aur Amir Khan Muttaqi Ka Daura e Bharat

کسی بھی نوعیت کی لگی لپٹی کے بغیر میں یہ دعویٰ کرنے کی حماقت کا مرتکب ہورہا ہوں کہ طالبان حکومت پر ان دنوں فیصلہ سازی کے حوالے سے مسلط افراد کے ہوتے ہوئے پاکستان کے افغانستان کے ساتھ دیرپاامن والے تعلقات قائم ہوہی نہیں سکتے۔ اس مقصد کے لیے برادر ممالک کی خواہش پر ہوئے مذاکرات کے ادوار نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوں گے۔

جوبڑھک لگائی ہے اس کی بنیاد وہ بیانیہ، ہے جو طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے 6روزہ دورے کے بعد کابل پر مسلط حکومت نے اپنایا ہے۔ میری ناقض رائے میں مذکورہ بیانیے کی تشکیل میں متقی کے دورئہ دیوبند نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ موصوف نے وہاں دکھاوے کو ایک امتحان دے کر سہارن پور میں 1866ء کے برس قائم ہوئے مدرسے کے دارالحدیث کی سند بھی حاصل کرلی ہے۔ دیوبند کے اکابرین کے علاوہ متقی کی جمعیۃ العلمائے ہند کی قیادت سے بھی طویل ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے نتیجے میں وطنیت، کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا۔ یاد رہے کہ وطن سے پیار، کی اس سوچ ہی کی بدولت دیوبند علماء کی اکثریت نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی۔

متقی کے دورئہ بھارت تک طالبان وطنیت، یا قوم پرستی سے زیادہ احیائے اسلام، کے لیے متحرک نظر آیا کرتے تھے۔ ایمان، کی بنیاد پر ان کے پاکستان ہی نہیں دنیا کے کسی بھی مسلمان ملک سے جہاد، کی خاطر افغانستان آئے نوجوانوں سے بھائی چارے کے رشتے قائم ہوئے۔ اسامہ بن لادن کو اسی بنیاد پر نائن الیون کے بعد امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کردیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں 21سال تک امریکا اور اس کے اتحادیوں کی افواج کے خلاف مسلسل مزاحمت اختیار کرنا پڑی۔ بالآخر امریکا کو سمجھ آگئی کہ افغانستان کو ابراہام لنکن کا سوچا جمہوری، ملک بنایا نہیں جاسکتا۔ طالبان کے ساتھ قطر کے دارالحکومت میں مذاکرات کا آغاز ہوا۔ تقریباً دس برس تک جاری رہے مذاکرات کے اختتام پر دوحہ معاہدہ، ہوا۔ اسی معاہدے کی بدولت امریکی افواج افغانستان سے انخلاء کو رضا مند ہوئیں۔ انخلاء پر رضا مندی کے باوجود وہ ذلت آمیز انداز میں افغانستان چھوڑتی نظر آئیں۔

امریکا کی افغانستان سے ذلت آمیز واپسی کا اُن دنوں پاکستان کے وزیر اعظم کے منصب پر بیٹھے عمران خان نے اسے غلامی کی زنجیریں کاٹنے، کے مترادف ٹھہراتے ہوئے خیرمقدم کیا۔ خواجہ آصف تحریک انصاف کی سوچ کے انتہائی مخالف ہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے بھی امریکا کی افغانستان سے ذلت آمیز واپسی کا عمران خان ہی کے انداز میں جشن منایا۔

دوحہ مذاکرات پر کامل عمل درآمد سے قبل یہ قلم گھسیٹ یکے بعد دیگرے لکھے کالموں کے ذریعے متنبہ کرتا رہا کہ طالبان کی بطور فاتح کابل واپسی کے چند سنگین مضمرات بھی ہوسکتے ہیں۔ پیشہ وارانہ وجوہات کی بنیاد پر افغانستان کے بارہا سفر کرنے کے بعد میں افغان عوام کی اجتماعی سوچ، سے آشنا ہوا۔ مختصر ترین لفظوں میں بیان کروں تو ان کی نظر میں پاکستان پنجاب، ہے اور پنجاب، کو افغانستان کی اجتماعی یادداشت رنجیت سنگھ سے ہی نتھی کرتی ہے۔ پڑھے لکھے افغانوں کی اکثریت بھی اس امر سے غافل ہے کہ پنجاب کا سب سے بڑا شہر اور اس صوبے کا دارالحکومت -لاہور- افغانستان سے آئے سید علی ہجویری کے حوالے سے داتا کی نگری، پکارا جاتا ہے۔ محمود غزنوی کے لاڈلے غلام ایاز کی قبر سوہا بازار لاہور کے باہر واقع ہے۔ افغانستان کے بانی احمد شاہ ابدالی پنجاب ہی کے شہر ملتان میں پیدا ہوئے تھے اور آج بھی ان کی یاد میں اس شہر میں ابدالی روڈ، موجود ہے۔

طالبان کبھی پنجابی طالبان، کو اپنا برادر مجاہد شمار کرتے تھے۔ اگست 2021ء کے بعد حالات مگر بدل چکے ہیں۔ منطقی اعتبار سے سوچیں تو طالبان احیائے اسلام، کو افغانستان تک محدود رکھنا کیوں چاہیں گے۔ اپنے ذاتی تجربات کے حوالے سے لکھے کئی میرے کالموں پر حکمرانوں نے توجہ دینے کی ضرورت محسوس ہی نہ کی۔ سب کو اعتماد تھا کہ طالبان کے کابل لوٹ آنے کے بعد افغانستان سے بھارتی اثرونفوذ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ پاکستان اور افغانستان کے رشتے اس کی وجہ سے دودھ وشکر ہوجائیں گے۔

امریکا کی افغانستان سے رخصت کے بعد طالبان کے پاکستانی برادران، نے ریاستِ پاکستان کی علامتوں اور امن وامان یقینی بنانے کے ذمہ داروں پر حملے شروع کردیے۔ پولیس ان سے سہم کر خیبرپختونخوا کے کئی علاقوں میں غروب آفتاب کے بعد گشت کرنے سے گریز کرنے لگی تو طالبان کے پاکستانی برادران نے پاکستان کی فوجی چوکیوں پر حملے شروع کردیے۔ ان حملوں کے دوران امریکا کا جدید ترین اسلحہ استعمال ہوا تو افغانستان سے رخصت ہوتے ہوئے امریکی افواج افغانستان میں چھوڑنے کو مجبور ہوئیں۔ ان ہتھیاروں کی بدولت رات کے اندھیرے کو دن کی روشنی میں بدلنے کی صلاحیت کے ساتھ فوجی چوکیوں پر حملے ہوئے۔ تھانوں کو ڈورن کے ساتھ باندھے بموں سے تباہ کیا گیا اور ایسی بندوقتیں بھی کثرت سے استعمال ہونے لگیں جو ہدف پر آئے فرد کی جسمانی گرمی کا تعاقب کرتے ہوئے اسے موت کے گھاٹ اتاردیتی ہیں۔

پاکستان نے بارہا اعلیٰ سطحی وفد کابل بھیج کر طالبان حکومت کو ان کے پاکستانی برادران، کی حرکتوں سے آگاہ کیا۔ کابل سے مگر جھوٹے وعدے اور تسلیاں ہی ملتی رہیں۔ بالآخر پاکستان افغانستان میں موجود طالبان کے پاکستانی برادران، کے ٹھکانوں پر براہِ راست حملوں کو مجبور ہوا۔ حالیہ جنگ بندی کے اعلان سے قبل کابل میں ہوا ایک حملہ طالبان کو نئی بیانیہ سازی، پر مجبور کرنے کا باعث ہوا۔

طالبان کے ایک وزیر سرحدات وقبائلی امور بھی ہیں۔ نام ان کا ملانوری ہے۔ جمعرات کے روز انھوں نے انتہائی ڈھٹائی سے اعلان کردیا کہ کسی بھی افغان، کے لیے پاک افغان سرحد، موجود نہیں ہے۔ فقط ایک خیالی لکیر ہے، جسے کوئی بھی افغان تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ وسیع تر تناظر میں دیکھیں تو افغانوں کی اکثریت کا ٹھوس ایمان ہے کہ افغانستان کی سرحد اٹک پر ختم ہوتی ہے۔ قصہ مختصر طالبان کے اس وزیر نے افغانستان کے ایک سابق وزیر اعظم اور 70ء کی دہائی میں ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر صدر ہوئے سردار دائود کے ایجاد کردہ پختونستان، کے تصور کو زندہ کردیا ہے۔ اسلامی اخوت، کا جذبہ اس سوچ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

ملانوری کے مذکورہ بیان سے قبل بے تحاشا افغان -جن کی اکثریت 2021ء سے بیرون ملک رہنے کو مجبور ہے- سوشل میڈیا پر اپنے پیغامات کے ذریعے اس سوچ کو فروغ دے رہے تھے کہ افغان عوام کی اکثریت کو پاکستان اور طالبان کے مابین ہوئے جھگڑے سے لاتعلق رہنا چاہیے۔ یہ خالق(پاکستان) اور مخلوق(طالبان) کے مابین لڑائی ہے۔

نوری کا بیان آتے ہی مگر خالق ومخلوق، کی لڑائی سے لاتعلقی کی تلقین کرنے والے بھی مردمانِ افغان (افغان عوام)، کی اجتماعی یادداشت سے مغلوب ہوئے افغانستان کی سرحد کو اٹک تک پھیلنے کے لیے بے چین سنائی دینے لگے۔ طالبان کا احیائے اسلام، متقی کے دورئہ بھارت کے بعد افغان وطن وقوم پرستی کے جذبات میں تبدیل ہوا ہے۔ اس کا ادراک مجھے اپنے ریگولر وسوشل میڈیا پر زیر بحث آیا نظر نہیں آیا۔ طالبان نے پاکستان کے خلاف افغانستان کی اجتماعی یادداشت پر مبنی ایک طاقتور بیانیہ بنالیا ہے۔ وہ پاکستان کے وجود وبقا کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو افغانستان سے معاملات طے کرتے ہوئے اسے ذہن میں رکھنا ہوگا۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran