وطن عزیز کو سیاستدانوں کا روپ دھارے "چوروں اور لٹیروں" سے نجات دلانے پر توجہ مبذول کئے ہوئے ہمارا ریگولر اور سوشل میڈیا دہشت گردی کے اسباب اور اس کے مختلف دھاروں کو عوام کے روبرو لانے میں قطعاََ ناکام رہاہے۔ مذہب کے نام پر فروغ پائی انتہا پسند تنظیموں میں داعش خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارموں کو اس نے دنیا بھر کو "خلافت اسلامی" کے احیاء سے نیک راہ پر چلانے کے لئے متاثر کن انداز میں استعمال کیا ہے۔ اس کے پیغام نے امریکہ اور بے تحاشہ یورپی ممالک میں برسوں سے مقیم مسلمان نوجوانوں ہی کو نہیں بلکہ خواتین کو بھی اس امر پر اُکسایا کہ وہ اپنے گھر چھوڑ کر عراق اور شام کے دور دراز علاقوں میں پہنچ کر "خلافت اسلامی" کے قیام کے لئے "جہاد" میں مصروف ہوجائیں۔
ان نوجوانوں کی "ذہن سازی" کے عمل کو سماجی علوم کے کئی محققین کے علاوہ یورپ کے کئی تخلیقی فلم سازوں اور ڈرامہ سیریل بنانے والوں نے بھی نہایت لگن سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ہمارے ہاں مگر اس تنظیم پر علمی اور صحافتی انداز میں توجہ دینے والوں کی تعداد ہاتھ کی انگلیوں سے بڑھ کر نہیں۔ ان کی جانب سے ہوا کام بھی چند انگریزی اخبارات کے صفحات پر کبھی کبھار نظر آتا ہے۔ شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک "حالاتِ حاضرہ" کے بارے میں ہمیں"باخبر" رکھنے کے دعوے دار شاذہی اس تنظیم کو زیر بحث لاتے ہیں۔
اس تنظیم کا پاکستان میں اثر اگرچہ اتنا تگڑا ہے کہ دوسری بار امریکہ کا صدارتی انتخاب جیتنے کے فوری بعد ٹرمپ نے اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے ہماری ریاست کو مطلع کیا کہ اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے دوران کابل ایئرپورٹ کے ایبی گیٹ کے قریب خودکش دھماکے کا ماسٹر مائنڈ ہمارے بلوچستان میں افغان سرحد کے قریب ایک مقام پر چھپا ہواہے۔ ایبی گیٹ پر جو دھماکہ ہوا اس کی وجہ سے دس کے قریب امریکی فوجی بھی ہلاک ہوئے تھے۔ اس کا ذمہ دار شرف اللہ کو ٹھہرایا گیا جو افغانستان سے شام گیا اور وہاں سے ماسکو پہنچ کر ایک میوزک ہال میں ہولناک دہشت گردی کے ایک واقعہ کا ارتکاب بھی یقینی بنایا۔
امریکی خفیہ ایجنسیوں کی دی ٹپ پر ہمارے ریاستی ادارے متحرک ہوئے تو نشان زد دہشت گرد گرفتار کرلیا گیا۔ اس کی گرفتاری اور امریکہ حوالگی نے صدر ٹرمپ کا جی خوش کردیا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعداپنی پارلیمان سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے پاکستان کا داعش کے ایک سرگرم کارکن کی گرفتاری کے حوالے سے نام لے کر خصوصی شکریہ ادا کیا۔ ٹرمپ سے پاکستان کی ایسی تعریف کی توقع نہیں تھی۔ عمومی خیال یہ تھا کہ اپنے پہلے دور اقتدار کی طرح وہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کے ساتھ دوستی کو مضبوط تر بنانا چاہے گا۔ امریکہ میں مقیم عاشقان عمران جبکہ یہ امید بھی باندھے ہوئے تھے کہ اقتدار سنبھالتے ہی وہ پاکستان پر ان کے محبوب قائد کی رہائی کے لئے دبائو بڑھائے گا۔
داعش سے وابستہ ایک ہائی پروفائل شخص کی گرفتاری اور امریکہ حوالگی نے 6اور7مئی کی درمیانی رات پاکستان پر ہوئے بھارتی حملے کے بعد صدر ٹرمپ کو دونوں ممالک کے مابین جنگ بند کروانے کو مائل کیا۔ ریاست پاکستان اس ضمن میں اس کے کردار کو کھلے دل سے سراہتی ہے۔ مودی سرکار مگر نہایت ڈھٹائی سے اصرار کئے چلے جارہی ہے کہ امریکہ نے پاکستان اور بھارت کی جنگ رکوانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے۔
پہلگام واقعہ کے بعد پاک-بھارت جنگ مگر آج کا موضوع نہیں۔ آپ کی توجہ اس جانب دلانا ہے کہ داعش نام کی تنظیم پاکستان میں متحرک ہوچکی ہے۔ اس کی ہمارے خطے میں اٹھان طالبان کے "زیر کنٹرول" افغانستان میں ہوئی۔ اس پر قابو پانے کے بجائے طالبان نے اپنی جان اور حکومت بچانے کے لئے انہیں نہایت مکاری سے پاکستان کی سرحد کے قریب علاقوں میں متحرک ہونے دیا۔ خیبرپختونخواہ میں وہ اپنے "برے دنوں" کے میزبان اور ساتھی پاکستانی طالبان کی مچائی دہشت گردی کو نظرانداز کئے رکھتی ہے۔ بلوچستان نظر بظاہر داعش کے حوالے کردیا گیا ہے۔
بدھ کے روز داعش کے دنیا بھر میں حقیقی ترجمان تسلیم ہوئے ایک جریدے میں منگل کی شام کوئٹہ میں سردار عطاء اللہ مینگل کی چوتھی برسی کے موقعہ پر ہوئے خودکش دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی گئی ہے۔ ذ مہ داری قبول کرتے ہوئے اس دہشت گرد کا (غالباََ فرضی) نام اور تصویر بھی شائع کردی گئی۔ جس جلسے کا ذکر ہورہاہے اس کا اہتمام اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی نے کیا تھا۔ اس اجلاس سے خطاب کے لئے پختون خواہ ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی بھی خصوصی طورپر مدعو کئے گئے تھے۔
اختر مینگل اور محمود خان اچکزئی کی سیاست سے پاکستانیوں کی ایک مؤثر تعداد اتفاق نہیں کرتی۔ اس کے باوجود یہ حقیقت بھی جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ اختر مینگل بلوچستان کی ایک توانا آواز ہے۔ محمود خان اچکزئی 1990ء سے قومی اسمبلی کے کئی بار رکن منتخب ہونے کی وجہ سے ملک بھر میں جانے جاتے ہیں۔ پارلیمانی سیاست کے ساتھ ان کی ثابت قدم وابستگی نے تحریک انصاف کے بانی کو یہ سوچنے کو مائل کیا کہ اگر عمر ایوب خان عدالت سے کوئی ریلیف نہ لے پائے تو انہیں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر نامزد کردیا جائے گا۔ حالانکہ نواز شریف کی تیسری حکومت کے دوران تحریک انصاف کے بانی اچکزئی صاحب کی نواز دوستی سے نہایت ناخوش تھے۔
منگل کی رات سردار عطاء اللہ مینگل کی چوتھی برسی کے موقعہ پر ہوئے جلسے کے اختتام پر جلسہ گاہ سے باہر داعش نے جو خودکش دھماکہ کیا ہے اس کا واضح مقصد بلوچستان کو ایک توانا آواز(اخترمینگل) اور پاکستان کے ممکنہ قائد حزب اختلاف(اچکزئی) کی جان لینا تھا۔ خدانخواستہ داعش ان دونوں کو قتل کرنے میں کامیاب ہوجاتی تو بلوچستان میں ویسے ہی فسادات پھوٹ سکتے تھے جو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سندھ میں دیکھنا پڑے تھے۔ مجھے داعش کے قیام کی تاریخ اور اسباب کا تھوڑا علم ہے۔ سکیورٹی کے امورسے عملاََ نابلد ہوں۔
اپنی لاعلمی کا اعتراف کرتے ہوئے بھی یہ سوچنے کو مجبور ہوں کہ اختر مینگل اور اچکزئی کی خود کش بمبار کے ذریعے جان لے کر بلوچستان میں ابتری کی آگ بھڑکاتے ہوئے داعش درحقیقت پاکستان کے ساتھ اپنے ایک صف اوّل کے رہ نما کی گرفتاری اور امریکہ حوالگی کا "حساب برابر" کرنا چاہتی تھی۔ یہ سوچ اگر غلط بھی ہے تو اس حقیقت کو کم از کم جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ داعش پاکستان میں متحرک ہوچکی ہے۔ ہمیں اس پر کڑی نگاہ رکھنا ہوگی۔