2013ء میں ایک دوکان میں گھسا تو ایک کتاب پر نظر پڑگئی۔ اس کا عنوان تھا: (Kashmir: The Unwritten History) کشمیر کی غیر مطبوعہ یا غیر تحریر شدہ تاریخ"۔ اسے دیکھتے ہی فرض کرلیا کہ شاید اس کتاب میں مقبوضہ کشمیر کے بارے میں اب تک اَن لکھی باتیں بیان کی گئی ہوں گی۔ شیلف سے نکال کر مگر اس کے پیش لفظ وغیرہ پر سرسری نگاہ ڈالی تو حیران و متجسس ہوا۔
مذکورہ کتاب کو آسٹریلیا کے ایک نوجوان لکھاری کرسٹوفر سنیڈن (Snedden Christopher) نے اسلام آباد اور آزادکشمیر کے متعدد تحقیقی پھیروں کے بعد نہایت محنت سے لکھا تھا۔ اس کا اصرار تھا کہ "آزادی کشمیر" کی جنگ محض پختون قبائلی گروہوں ہی نے نہیں لڑی تھی۔ پاکستان میں شمولیت کے جذبات درحقیقت جنوب مغربی کشمیر کے علاقوں میں نہایت شدت کے ساتھ ابھرے تھے۔ ان کی بدولت ہی آزادکشمیر کا قیام عمل میں آیا۔ اس خطے کے سیاسی، انتظامی اور معاشی حقائق نے مگر اس خطے کو بتدریج اسلام آباد کا محتاج بنادیا ہے۔ "محتاجی" کے احساس کو ٹھوس اعدادوشمار کے ذریعے اجاگر کرتے ہوئے کرسٹوفر نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ آزادکشمیر کی نوجوان نسل مذکورہ احساس کی وجہ سے اضطراری کیفیات سے دو چار ہورہی ہے۔ اسلام آباد اور پاکستان کی سیاسی قیادت کے لئے لازمی ہے کہ نوجوانوں کے دلوں میں ابلتے جذبات پر توجہ دیتے ہوئے ان کا حل ڈھونڈے۔
میں نے وہ کتاب خریدنے کے بعد اس میں بیان کردہ چند خیالات کو خطِ کشیدہ کے ذریعے اجاگر کرتے ہوئے دو دنوں میں پڑھ لی۔ بعدازاں کتاب اور اس میں بیان کردہ حقائق وخدشات کو ایک کالم میں بھی بیان کردیا۔ کالم چھپنے کے بعد مگر آزادکشمیر کے کسی سیاستدان یا "ماہر امور کشمیر" نے مجھ سے تعریف یا تنقید کے لئے رابطہ نہ کیا۔ دلی میں بیٹھ کر کشمیر کے بارے میں عموماََ انگریزی اخبارات میں تبصرے لکھنے والے 8 سے زیادہ افراد نے البتہ ای میل کے ذریعے میرے لکھے کالم کے حوالے سے چند سوالات اٹھائے۔ کرسٹوفر نے اپنی کتاب میں بیگم سرفراز اقبال کابھی خصوصی شکریہ ادا کیا تھا۔ بیگم صاحبہ کی شفقت مجھے بھی اکثر کئی موضوعات پر تحقیق یا تفصیلات جمع کرنے کو اُکسایا کرتی تھی۔ ان کی ایک صاحبزادی ڈاکٹر ثمینہ اقبال آسٹریلیا کی پرتھ یونیورسٹی کی بہت دھانسو استاد ہیں۔ بیگم صاحبہ کے مجھ جیسے چہیتوں نے مگر اس عالم فاضل "بچی" کوگھر کی مرغی ہی تصور کیا۔ کالم چھپنے کے بعد ڈاکٹر ثمینہ اقبال نے میری کرسٹوفر سے ٹیلی فون پر لمبی بات بھی کروائی۔
صحافت کو بطور کل وقتی پیشہ اختیار کرتے ہی سیاست اور عالمی امور اور اس تناظر میں پاک-بھارت تعلقات پر رپورٹنگ میری ذمہ داریوں میں شامل رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کی اہمیت کا احساس ان ذمہ داریوں کی وجہ سے دو چند ہوا۔ شرمندگی کی بات مگر یہ ہے کہ میں اپنے "آزادکشمیر" سے کہیں زیادہ "مقبوضہ کشمیر" کے حقائق اور اہم کرداروں کے بارے میں آگاہ رہتا ہوں۔ مظفر آباد کے سیاستدانوں میں سے مرحوم سردار قیوم سے چند ملاقاتیں ہوئیں۔ بیرسٹر سلطان محمود سے کافی عرصہ بے تکلف تعلقات رہے۔ ان دونوں سے مگر آزادکشمیر کی سیاسی حرکیات سمجھنے کی بصیرت حاصل کرنے سے محروم رہا۔
پرنٹ صحافت سے ٹی وی صحافت کا رخ کیا تو مشتاق منہاس کے ساتھ مل کر ایک شو کرتے ہوئے برادرانہ تعلقات استوار ہوگئے۔ 2015ء کے بعد وہ صحافت چھوڑ کر آزادکشمیر کی سیاست کی نذرہوگئے۔ اس کے باوجود ان سے سیاسی حقائق کے بارے میں شاذ ہی گفتگو ہوئی۔ مجھ جیسے نام نہاد پڑھے لکھے اور "ہر خبر پر نگاہ رکھنے والے" دانشور نما صحافی آزادکشمیر کے بارے میں بنیادی طورپر لاعلم ہیں۔ میری محدود سوچ کے مطابق آزادکشمیر میں میرپور بھی شامل ہے جہاں کے باسیوں کی اکثریت دوسری جنگِ عظیم ختم ہونے کے بعد برطانیہ منتقل ہوگئی تھی۔ اس کے علاوہ باغ کا ذکر مشتاق منہاس سے اکثر سنا ہے۔ مظفر آباد کی خوب صورتی سراہتے ہوئے بھی وہاں کی سیاسی سوچ سے قطعاََ ناواقف رہا۔
آزادکشمیر کی سیاست میں عدم دلچسپی کی بنیادی وجہ یہ بھی رہی کہ وہاں 1985ء کے بعد ہوئے ہر انتخاب کے بعد ہمیشہ وہ جماعت ہی برسرِ اقتدار آتی رہی جو اسلام آباد میں بھی حکومت میں ہوتی۔ یہ سلسلہ 2018ء تک قائم نظر آیا۔ عمران خان کے پاکستان کا وزیر اعظم بن جانے کے بعد آزادکشمیر کے انتخابات میں بھی تحریک انصاف کا پلڑا حیران کن حد تک بھاری رہا۔ بانی تحریک انصاف کو اقتدار میں "نئے چہرے" متعارف کروانے کی عادت ہے۔
اس عادت کی وجہ سے انہوں نے عبدالقیوم نیازی کو آزادکشمیر کا وزیر اعظم منتخب کروالیا۔ وہ مگر عثمان بزدار یا محمود خان کی طرح زیادہ عرصہ چل نہیں پائے۔ ان کے خلاف "بغاوت" ہوگئی تو اسلام آباد میں اونچی عمارتیں تعمیر کرنے کی وجہ سے مشہور سردار تنویر الیاس وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوگئے۔ وہ بھی مگر آزادکشمیر اسمبلی کی اکثریت کو مطمئن نہ رکھ پائے۔ بالآخر چودھری انوارالحق کو سپیکر شپ چھوڑ کر تمام (جی ہاں تمام) سیاسی جماعتوں کی حمایت سے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنا پڑا۔
"منتخب سیاسی قیادت" میں "اپوزیشن" کا وجود ہی نہ رہا تو عوامی ایکشن کمیٹی کے نام سے ایک تحریک کھڑی ہوگئی۔ گزشتہ چند مہینوں میں زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل اس کمیٹی نے دوبار آزادکشمیر کی "منتخب حکومت" کو جس کی اسمبلی میں "اپوزیشن" دکھاوے کو بھی موجود نہیں اپنے احتجاج سے دھول چاٹنے کو مجبور کیا ہے۔ حال ہی میں جو تحریک چلی اس پر قابو پانے کے لئے وفاقی حکومت کے نمائندوں کو عوامی ایکشن کمیٹی سے "آزادکشمیر" کے مسائل حل کرنے کے لئے مذاکرات کرنا پڑے۔ ان مذاکرات کے بعد آزادکشمیر کی "منتخب اسمبلی" اور وزیر اعظم کا عہدہ بے وقعت ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود آزادکشمیر کے بے وقعت دِکھنے والے وزیر اعظم کے دفتر میں نجانے کونسی "کشش" باقی رہ گئی ہے جس نے پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ عہدہ حاصل کرنے کو اُکسایا ہے۔ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ پیپلز پارٹی کی راہ میں ا س حوالے سے کوئی رکاوٹ کھڑی کرنا نہیں چاہ رہی۔ فیصلہ بلکہ یہ کیا ہے کہ آزادکشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت بن جانے کے بعد "اپوزیشن" میں بیٹھا جائے گا۔
آزادکشمیر میں نئے انتخابات غالباََ 8 سے 10 ماہ بعد ہوں گے۔ ان مہینوں میں "اپوزیشن" کا رول ادا کرتے ہوئے نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ اپنی سیاسی ساکھ بحال کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس امید کے ساتھ کہ وفاق میں شہباز حکومت کے ہوتے ہوئے آئندہ انتخابات اسے آزادکشمیر کی حکومت بھی دلوادیں گے۔ سوال اٹھتا ہے کہ اگر واقعتا سیاست نے یہ رخ اختیار کرنا ہے تو پیپلز پارٹی آزادکشمیر میں فقط چند مہینوں کی حکومت لینے کو کیوں بے چین ہے؟
اس کے علاوہ حکومت لینے کی خواہش میں مبتلا ہوئی پیپلز پارٹی کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عوامی ایکشن کمیٹی سے کچھ وعدے ہوئے ہیں۔ فرض کیا پیپلز پارٹی کا وزیر اعظم ان وعدوں کو نظرانداز کرتا نظر آیا تو آزادکشمیر میں ایک نیا "بحران" کھڑا ہوسکتا ہے جسے حل کرنے لئے وفاق میں بیٹھی شہباز حکومت شاید زیادہ دلچسپی نہ دکھائے۔ جو سوالات میرے ذہن میں اٹھے ہیں انہیں پیپلز پارٹی کے کسی رہ نما کے روبرو رکھے بغیر اس کالم میں بیان کردئیے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ شاید کہیں سے تشفی بخش جوابات مل جائیں۔