Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Putin Ke Maha Russia Ke Ahya Ki Zid Aur Trump Ki Karobari Hikmat e Amli

Putin Ke Maha Russia Ke Ahya Ki Zid Aur Trump Ki Karobari Hikmat e Amli

امریکی صدر ٹرمپ کو اس کا باپ کرائے پر دئے فلیٹوں اور دوکانوں سے پیسے وصول کرنے بھیجا کرتاتھا۔ جو عمارتیں اس کے والد نے تعمیر کی تھیں مکانوں کی تعمیر کے لئے بنائے مقامی قوانین کو شاذ ہی خاطر میں لایا کرتی تھیں۔ اسی باعث ٹرمپ خاندان کو اکثر "بلڈنگ انسپکٹروں" سے واسطہ پڑتا۔ ٹرمپ کا والد اپنے بیٹے کو ان سے "مک مکا" کی ترغیب دیتا۔ اس کی ہر ممکن کوشش ہوتی کہ معاملہ عدالتوں تک نہ پہنچے۔ عدالتوں سے خوف کے با وجود وہ "بلڈنگ انسپکٹروں" کے بھیجے نوٹس نظرانداز کرنے سے اپنی گیم کا آغاز کرتا۔ نوٹس بھیج بھیج کر تنگ آئے بلڈنگ انسپکٹر سے بالآخر "مک مکا" کی راہیں ڈھونڈنا شروع کردیتا۔

بچپن سے نوجوانی میں داخل ہوتے ہوئے دنوں میں جمع تجربات کو وہ آج بھی نہیں بھولا ہے۔ اس کی لکھی کتاب The art of the dealکا بغور مطالعہ کریں الجھے معاملات کا واحد حل اس کی دانست میں"کچھ دے دلاکر" جھگڑا ختم کردینا ہے۔ کاروباری زندگی میں شاید اس کے سکھائے اصول بارآور ثابت ہوسکتے ہیں۔ ریاستوں کے مابین جھگڑوں کو سلجھانا مگر "کچھ دے دلاکر" ممکن نہیں۔

حالیہ پاک-بھارت جنگ کو خوفناک بن جانے سے اس نے یقیناََ اپنے سفارتی معاونین کے ذریعے کامیابی سے روکا ہے۔ دونوں ملک مگر یہ سوچ کر رضا مند ہوگئے کہ 87گھنٹوں کی جنگ کے دوران انہوں نے اپنے تئیں طے کردہ اہداف حاصل کرلئے تھے۔ بھارت نے 6اور 7مئی کی درمیانی رات پاکستان کے تین شہروں کو میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ ان کی بدولت بقول اس کے "دہشت گردوں کی نرسریاں" تباہ کردیں۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے وہ بھول گیا کہ "دہشت گرد" عمارتوں کے محتاج نہیں ہوتے۔ انہیں کوئی "نظریہ" متحرک کرتا ہے۔

"نظریہ" کے ہوتے ہوئے دہشت گردی کی تربیت کے لئے آپ کا اپنا گھرہی کافی ہے۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جاسکتی کہ کمیونسٹ روس کے قبضے میں آئے افغانستان کو "جہاد" کے ذریعے آزاد کروانے کے لئے پاک-افغان سرحد کے قریبی قصبوں میں پاکستان ہی نہیں دنیا کے کئی مسلم ملکوں سے نوجوان "مہمان مجاہدوں" کی صورت آنا شروع ہوگئے تھے۔ ریاستِ پاکستان نے انہیں اس وقت سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت نظرانداز کیا۔ افغانستان "جہاد" کی بدولت آزاد ہوگیا تو امریکہ نے اس قضیے سے جندچھڑالی۔ اس نے جند چھڑائی تو ردعمل میں نائن الیون ہوا۔

نائن الیون کا ریاستِ پاکستان تو کیا کسی عام پاکستانی سے بھی آج تک کوئی تعلق ثابت نہیں ہوا۔ ماضی کے "جہادی" جب امریکہ نے اپنے مفاد کی خاطر بھلادئے تو نائن الیون کے ذریعے انہوں نے اپنے وجود کا احساس دلایا۔ امریکہ نے طیش میں آکر افغانستان پر "دہشت گردی کے خلاف" جنگ مسلط کردی۔ اس کی دو دہائیوں کے دوران "جہادیوں" کی بے شمار ایسی قسمیں نمودار ہوچکی ہیں جو کسی بھی ریاست کے قابو میں نہیں۔ وہ انگریزی محاورے والے" Wolves Lone (تنہا بھیڑیے)" بن چکے ہیں۔

بہتر یہ ہی تھا کہ پہلگام میں ہوئی دہشت گردی کے بعد بھارت پاکستان کے ساتھ رابطہ کرتا۔ دونوں ممالک اس سفاک دہشت گردی کے ذمہ داروں کا مل کر سراغ لگاتے۔ خودہی مدعی اور منصف ہوئی بھارتی رعونت 6اور7مئی کی درمیانی رات عیاں ہوئی۔ سات مئی کی صبح اس کے سیکرٹری خارجہ نے اپنے تئیں"حساب برابر" کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے ایک حوالے سے گویا جنگ ختم کرنے کا اعلان بھی کردیا۔

پاکستان کے لئے یک طرفہ کارروائی کے بعد ملفوف الفاظ میں پیش کردہ "جنگ بندی" کا قبول کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ ایک خودمختار ملک ہوتے ہوئے ہم بھارت کو خودہی مدعی اور منصف ٹھہرانے والا چودھری تسلیم نہیں کرسکتے تھے۔ اس کی جارحیت کا بھرپور جواب ہماری قومی ذمہ داری ہی نہیں اپنی بقاء یقینی بنانے کے لئے بھی لازم تھا۔ وہ ذمہ داری نبھالی گئی تو جنوبی ایشیاء میں بھارتی بالادستی کا خواب پاش پاش ہوگیا۔

پاکستان نے گویا فقط 6اور 7مئی کی درمیانی رات ہوئے حملے کا حساب ہی برابر نہیں کیا بلکہ اپنی فضاؤں پر کامل برتری ثابت کرنے کے بعد بھارتی سرحد کے اندر موجود جدید ترین طیارے اور دفاعی نظام کی اوقات بھی ثابت کردی۔ اسے ثابت کردینے کے بعد امریکی صدر کی جانب سے جنگ بندی کی خواہش کا احترام سفارتی اعتبار سے ایک بہترین چال تھی۔ بھارت اگرچہ نہایت ڈھٹائی سے آج بھی ٹرمپ کا کردار تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اس کی وجہ سے اپنی مصنوعات کی امریکہ برآمد کے لئے ناقابل برداشت ڈیوٹی کا بوجھ برداشت کررہا ہے جو میری دانست میں غرور کی قیمت ہے۔

امریکی صدر کی نفسیات کے چند پہلو اجاگر کرنے کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ بند کروانے میں اس کا ذکر تمہید کے صورت تقابلی جائزہ لینے کیلئے ہوا ہے۔ گزشتہ جمعہ سے ٹرمپ روس اور یوکرین کے مابین جنگ بندی کی کوششوں میں مصروف ہے۔ یہ جنگ بند کرواتے ہوئے مگر وہ چند حقائق کونظرانداز کررہا ہے جو معاشی اور عقلی اعتبار سے "احمقانہ" محسوس ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ کا بغور مطالعہ مگر یہ بتاتا ہے کہ اکثر ملکوں کے مابین قضیے محض معاشی وجوہات کی بنا پر نہیں ہوتے۔ جنگوں میں الجھی قوموں کی "اجتماعی یادداشت ان میں کلیدی کردار کی حامل ہوتی ہے۔ میری ناقص رائے میں روس کی یوکرین پر اپریل 2022ء سے مسلط کردہ جنگ درحقیقت روسی قوم کی اجتماعی یادداشت کا سفاک ترین اظہار ہے۔

روسی صدر پوٹن نے یوکرین کو کبھی "آزاد" اور جدا ملک تصور ہی نہیں کیا۔ وہ یوکرین کو "مہاروس" کا حصہ سمجھتا ہے۔ ایک حوالے سے اس کی سوچ درست بھی ہے کیونکہ اس میں مسیحیت کا جو رحجان آبادی کی اکثریت میں مقبول ہے وہ کئی صدی قبل یوکرین ہی کے ذریعے روس میں داخل ہوا تھا۔ اسی طرح روسی زبان میں یوکرینی الفاظ کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ روس کا طبعزاد ناول نگار- گوگول- درحقیقت یوکرین سے تعلق رکھتا تھا۔ یوکرین کی آبادی میں روسی زبان بولنے والے اس ملک کے مشرقی صوبوں میں تقریباََ اکثریت میں ہیں۔ یورپ کے قریب اور بحیرئہ اسود کے ساحلوں پر آباد قصبے اگرچہ کئی حوالوں سے کثیر القومی ومذہبی کہے جاسکتے ہیں۔ یوکرین کا صدر بذات خود یہودی النسل ہے۔

اپنی "یوکرینی" شناخت اجاگر کرنے کے لئے وہ ولادیمیرنام کو ویسے نہیں لکھتا جیسے روسی زبان میں لکھا جاتا ہے۔ کئی صدیوں تک پھیلی روس-یوکرین جدائی اور اکائی نہایت پیچیدہ موضوع ہے۔ اس کے سبب 2022ء سے شروع ہوئی لڑائی کے اسباب بھی بے شمار پہلوؤں کے حامل ہیں۔ ٹرمپ کے مقابلے میں پوٹن "تاریخی ورثہ اور فریضے" کی اہمیت بہت تفصیل سے جانتا ہے۔ اپنے کئیریر کا آغاز اس نے کمیونسٹ روس کی مشہور زمانہ کے جی بی انٹیلی جنس ایجنسی سے کیا تھا۔ کمیونسٹ روس کے زوال کو وہ آج بھی تاریخ کا عظیم المیہ گردانتا ہے۔ "مہا روس" کا احیاء اس کی تقریباََ ضد ہے۔ ٹرمپ اسے "بلڈنگ انسپکٹر" کی طرح "کچھ دے دلاکر" مطمئن نہیں کرسکتا۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran