Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Qudarti Nizam Se Cher Char Ka Nateeja

Qudarti Nizam Se Cher Char Ka Nateeja

جغرافیہ بہت ظالم شے ہے۔ انسان تمام تر کاوشوں کے باوجود اس کے بنیادی تقاضوں سے نجات حاصل نہیں کرپایا ہے۔ ان تقاضوں سے چھیڑچھاڑ ہی نے بلکہ ہمارے دور کے ماحول کو سنگین ترین مشکلات سے دو چار کردیا ہے۔ ہر دوسرے روز موسلادھار بارش کی وجہ ہم مون سون سیزن کے بجائے "کلائوڈبرسٹ" کو ٹھہرادیتے ہیں۔ یہ واقعہ بحیرہ عرب سے ہزاروں برسوں سے آئی ہوائوں کی وجہ سے رونما نہیں ہوتا ہے۔ وجہ اس کی "مغربی ہوائوں" میں نمی کا وہ تناسب ہے جو بادل سنبھال نہیں پاتا۔ "پھٹ" جاتا ہے۔

مون سون کی ہوائوں کی طرح ہزار ہا سال سے ہمارے ہاں کوہ ہمالیہ کے دامن اور اس کی چوٹیوں پر موجود گلیشیر بھی ہیں۔ برف کے یہ بھاری بھر کم ڈھیر موسم گرما میں پگھل کر ہمارے دریائوں میں اکثر سیلاب برپا کرتے رہے ہیں۔ ہمارے خطے کے، جسے تاریخی اعتبارسے وادی سندھ پکارا جاتا ہے، تمام بڑے شہر دریائوں کے کنارے ہی آباد ہوئے تھے۔ ان میں سے چند دریائوں میں آئی طغیانی کی وجہ سے اب یہ اپنے مقام پر موجود نہیں رہے۔ دریا نے رُخ بدلا تو نئے مقام پر ایک نیا شہر آباد ہوگیا۔

برطانوی سامراج اس خطے میں قابض ہوا تو پنجاب کو فقط مقبوضہ ہندوستان ہی نہیں بلکہ اپنی تمام کالونیوں کے لئے "فوڈباسکٹ" بنانے کے جنون میں مبتلا ہوگیا۔ اسی جنون کے تحت اس نے دریائوں سے نہریں نکال کر نئے رقبے آباد کئے۔ یہ رقبے اپنے وفاداروں کو بطور انعام سستے داموں الاٹ کئے۔ اسی باعث ہمارے خطے میں فدویانِ انگریز کی صورت ایسے "خاندانی جاگیردار" نمودار ہوئے جو اپنے علاقوں میں"رعایا" پر کڑی نگاہ رکھتے ہوئے انہیں غلام بنائے رکھتے۔

انگریز افسر کے دفتر میں کرسی مل جانا مگر ان کی نظر میں بہت بڑی "عنایت" شمار ہوتی۔ افسروں کے ہاں موسمی پھلوں سے بھری"ڈالیاں" بھیجنے کا راج بھی ان ہی دنوں شروع ہوا تھا۔ کرپشن کے خلاف دن رات ٹی وی سکرینوں اور یوٹیوب پر دہائی مچانے والوں کو آج تک سمجھ نہیں آئی کہ تحفے تحائف کے ذریعے "سرکار ماں باپ" کو رجھانے کا رحجان فقط برطانوی دور ہی میں نہیں بلکہ اس سے قبل قائم ہوئی سلطنتوں اور بادشاہوں کے ادوار ہی میں شروع ہوگیا تھا۔ ہم اس عادت سے آج بھی نجات نہیں پاسکے ہیں۔

اصل موضوع کی جانب لوٹتے ہوئے اصرار یہ کرنا ہے ہمارے دریائوں میں پانی کی آمد اور اس کے بہائو کا ایک قدرتی نظام ہے جس سے چھیڑ چھاڑ تاریخ کی چند دہائیوں میں تو بہت مفیدمحسوس ہوتی ہے۔ اس کے دور رس اثرات مگر "کلائوڈبرسٹ" وغیرہ کی صورت نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں بھی گزشتہ کئی برس سے قدرتی ماحول کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے تباہ کن نتائج ہمارے سامنے آرہے ہیں۔

قیام پاکستان کے فوراََ بعد کے سالوں میں بھارت یہ سوچنا شروع ہوگیا کہ وادیٔ سندھ کو ہزاروں سالوں سے میسر دریا نئے ملک کے کام نہ آئیں۔ دریائوں کی روانی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نے بالآخر دونوں ملکوں کو سندھ طاس معاہدہ پر مجبور کیا۔ اس معاہدے کی بدولت جہلم، چناب اور سندھ تو ہم نے اپنے لئے بچالئے۔ راوی کے کنارے صدیوں سے آباد لاہور کا دریا مگر بھارت کے سپرد کردیا۔ اس معاہدے کی وجہ سے لاہور میں روزمرہّ استعمال کا پانی حاصل کرنے کے لئے اب سینکڑوں فٹ تک کھدائی کرنا پڑتی ہے۔ لاہور کی صبح ویسی نہیں رہی جیسی میرے بچپن میں ہوا کرتی تھی۔ آبادی میں بے پناہ اضافہ بھی اس کا کلیدی سبب ہے۔ گاڑیوں اور موٹرسا ئیکلوں کا دھواں ہفتے میں کئی دن ہمیں چمکتے سورج کی جھلک دیکھنے سے بھی محروم رکھتا ہے۔

راوی سے محروم ہوجانے کے باوجود جماندرو لہوری ہوتے ہوئے میں سندھ طاس معاہدے کی اہمیت کو نہایت دیانتداری سے تسلیم کرتا ہوں۔ مودی کی ہندوتوا سرکار مگراس سے مسلسل ناخوش ہے۔ گزشتہ برس دو خطوط کے ذریعے اس نے پاکستان اور بھارت کے مابین باہمی مذاکرات کے ذریعے مذکورہ معاہدہ پر"نظرثانی" کی خواہش کا اظہار کیا۔ نیک نیتی سے ہوئی "نظرثانی" واقعتا ہو تو راوی سے محروم ہوئے علاقوں کا تقریباََ سراب بن جانا بھی زیر بحث آسکتا ہے۔ رعونت اور نیک نیتی مگر ایک دوسرے کی ضد ہیں اور مودی حکومت ان دنوں حیران کن رعونت کا مظاہرہ کررہی ہے۔

اپریل کا آخری ہفتہ شروع ہوتے ہی مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام پر خوفناک دہشت گرد حملہ ہوا تو کسی بھی نوعیت کا ثبوت فراہم کئے بغیر بھارت نے اس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرادیا۔ ہمیں"سزا دینے" کے لئے یہ اعلان بھی کردیا کہ بھارت اب سندھ طاس معاہدہ معطل کررہا ہے۔ "معطلی" کے اعلان کے بعد 6مئی سے 10مئی تک پاکستان پر جنگ بھی مسلط کردی گئی۔ امریکی مداخلت سے وہ جنگ ایٹمی ہونے سے رک گئی مگر سندھ طاس معاہدے کی معطلی اپنی جگہ موجود ہے۔ جنگ بندی کے بعد ہوئی اپنی کئی تقاریر کے دوران بھارت کے وزیر اعظم "میرے کسانوں" کی "سندھودریا" سے محرومی کا رونا رورہے ہیں۔

سندھ طاس معاہدے کے بعد پاکستان کے حصے میں آئے دریائوں کے پانیوں کا رخ موڑنے کے لئے طویل تحقیق اور بے پناہ وسائل کے علاوہ بھاری بھر کم سرمایہ بھی درکار ہے۔ اس کے لئے کم ازکم دس برس تک انتظار کرناہوگا۔ نئے ڈیموں وغیرہ کی تعمیر کے بغیر پاکستان کا پانی منفی ذہن سے روکتے اور کھولتے ہوئے ہمیں چند کلیدی فصلوں کی بروقت بوائی سے روکنے کے علاوہ کسان کے خون پسینے سے جوان ہوتے پودے کو بہت سا پانی یک دم چھوڑ کر "سیلاب" کی نذر کیا جاسکتا ہے۔ آج سے چند دن قبل تک مودی سرکار ایسے ہی خیالات پر عملدرآمد کا سوچ رہی تھی۔

اس کے حصے میں آیا دریائے سلتج مگر ایک بار پھر بپھرگیا ہے۔ بھارت کے پاس اپنی زمینوں کو سیلاب سے بچانے کا اس کے علاوہ کوئی طریقہ ہی نہیں کہ وہ سیلاب کے پانی کو اپنا قدرتی راستہ لیتے ہوئے پاکستان پہنچنے دے۔ جموں کے دریائے توی کے ساتھ بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ قدرتی آفت کے روبرو بے بسی بھی مودی سرکار کو سندھ طاس معاہدہ کی معطلی منسوخ کرنے کو تیار نہیں کررہی۔ سندھ طاس معاہدے کے ذریعے دونوں ملکوں نے "واٹر کمیشن" قائم کررکھے ہیں۔ ان کے باقاعدہ سربراہ بھی تعینات ہوئے ہیں۔

تاریخی طورپر یہ ہوتا رہا کہ دونوں ملکوں کے انڈس واٹر کمیشن ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہوئے پانی کی صورتحال کے بارے میں تازہ ترین معلومات کا تبادلہ کیا کرتے تھے۔ سندھ طاس معاہدے کی "معطلی" کو ایک حوالے سے برقرار رکھنے کے لئے بھارت نے پاکستان کو اپنے اسلام آباد میں موجود سینئر ترین سفارتکاروں کے ذریعے آگاہ کیا ہے کہ جموں کے دریائے توی میں سیلاب کا خطرہ ہے اور ستلج کا پانی پاکستان آرہا ہے۔

سندھ طاس معاہدے کے ذریعے قائم ہوئے بندوبست کو بھلاکر ہمیں دریائی پانی کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کرنا اپنے تئیں ایک خوشگوار پیش قدمی ہے۔ اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے بھی پاکستان کو مصررہنا ہوگا کہ سندھ طاس معاہدے کی بلاچوں چراں پیروی کی جائے۔ وگرنہ اس خطے کا مقدرقدرتی آفتوں کی بدولت مچی بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran