ایک لمحے کو فون کھول کر سوشل میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم خصوصاََ ایکس پر جائوتو وہاں سب سے زیادہ معتوب ان دنوں وہ صحافی ہیں جو پیمرا کے دئیے لائسنس کے تحت چلائے ٹی وی چینلوں کے لئے کام کرتے ہیں۔ ان کی سکرینوں پر چھائے اینکر خواتین وحضرات سے مسلسل سوال ہورہے ہیں کہ وہ ان دنوں ان ہی موضوعات پر کیوں چپ سادھے ہوئے ہیں جن کے بارے میں کبھی سینہ پھلاکر طولانی خطاب فرمایا کرتے تھے۔ کسی دور میں ٹی وی سکرینوں پر کھڑکی توڑ رش لینے والے اینکر خواتین وحضرات کی ملامت روایتی اخبارات کے لئے روز کی روٹی روز کمانے کی خاطر قلم گھسیٹنے والوں کو گمنامی کی اہمیت کا احساس دلاتی ہے۔ وہ احساسِ تحفظ بھی جو رات کے اندھیرے میں بتیاں گل کردینے کے بعد آپ کو نیند کی آغوش میں لے جاتا ہے۔
رواں صدی کے آغاز سے کم از کم 15برسوں تک شہری متوسط طبقے کے تقریباََ ہر گھر تک پہنچے اینکر خواتین وحضرات کو معتوب کرتے ہوئے فراموش کردیا جاتا ہے کہ ریاست نے ان پر لگام ڈالنے کا فیصلہ 2007ء کے اختتام ہی میں کرلیا تھا۔ اس برس ٹی وی صحافت نے وکلاء کی چلائی عدلیہ بحالی تحریک کا ڈٹ کر ساتھ دیاتھا۔ عوام کو اس وہم میں مبتلا کیا کہ عدلیہ کی آزادی ریاست کو ماں جیسا بنادے گی۔ جولائی 2007ء میں لیکن افتخار چودھری عدلیہ بحالی تحریک کی بدولت چیف جسٹس کے عہدے پر لوٹے تو ریاست ویسی کی ویسی ہی رہی۔
افتخار چودھری بھی پھونک پھونک کر قدم اٹھانے لگے۔ یہ فیصلہ لینے میں "احتیاطاََ" بہت دیرلگادی کہ فوج کی کمانڈ چھوڑنے کے باوجود جنرل مشرف بطور "منتخب" صدر ایوانِ صدر میں مزید پانچ سال تک براجمان رہ سکتے ہیں یا نہیں۔ افتخار چودھری کی "بے خودی اور ہوشیاری" پر مبنی "احتیاط" نے حکمران اشرافیہ کی صفوں میں جو کنفیوژن پیدا کیا اس کی وجہ سے جنرل مشرف 3نومبر2007ء کے روز "ایمرجنسی پلس" لگانے کو مجبور ہوئے۔ یہ "مارشل لاء" کی ایک نئی شکل تھی۔ اس کا نفاذ ہوتے ہی ٹی وی سکرینوں سے آٹھ اینکر خواتین وحضرات "غائب" ہوگئے۔ میں بے ہنر بھی ان میں شامل تھا۔
سکرینوں سے ہٹائے جانے کے باوجود ہم لوگوں نے مختلف شہروں میں جاکر پریس کلبوں اور عدالتوں کے باہر فٹ پاتھوں پر "لائیو" شو ریکارڈ کرنا شروع کردئیے۔ اپنی دانست میں شہر شہر جاکر براہ راست لوگوں سے رابطے استوار کرنے کی کوشش کی۔ جلد ہی مگر احساس ہوا کہ یہ وقت اور وسائل کا زیاں ہے۔ لوگوں کی توجہ ویسے بھی انتخابی مہم پر مبذول ہوچکی تھی۔ مشرف کے معطل کئے جج اسلام آباد میں ان کے لئے مختص سرکاری گھروں میں "نظربند" تھے۔ ان کے محلے کے گرد خاردارتاریں لگ چکی تھیں۔ اپنا یہ عالم تھا کہ ٹی وی سکرین سے ہٹائے جانے کی وجہ سے "ہیرو" محسوس کرنے کے باوجود اکثر یہ بھی ہوتا کہ سرِ راہ کچھ افراد ملتے تو دیانتدارانہ حیرت سے سوال کرتے کہ آج کل سکرین پر نظر کیوں نہیں آرہے۔ میں یہ سوال سن کر "، وہ رہے وضو کرتے" والے ملال میں مبتلا ہوجاتا۔
دیانت داری کی بات ہے کہ ٹی وی سکرینوں پر توانائی کے علاوہ "حق گوئی" کے گماں کو 2008ء میں منتخب ہوئی پیپلز پارٹی کی حکومت نے برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ آصف علی زرداری کی ذاتی دلچسپی کی بدولت ٹی وی سکرینوں سے غائب کئے ا ینکر خواتین وحضرات ہیرو کی صورت واپس لوٹے۔ سکرین پر لوٹتے ہی مگر حق وصداقت کے علمبردار اینکر خواتین وحضرات کی اکثریت نے عدلیہ کی آزادی "یقینی" بنانے کے لئے افتخارچودھری کی چیف جسٹس کے منصب پر بحالی کاتقاضہ شروع کردیا۔ بالآخر وہ نواز شریف کی جانب سے لاہور سے نکالے لانگ مارچ کے سبب اپنے منصب پر لوٹ آئے تو روزانہ کی بنیاد پر ازخود نوٹس کے ذریعے حکومت کو کٹہرے میں کھڑاکرنا شروع ہوگئے۔
مجھ جیسے خوفزدہ لوگ عاجزی سے ٹی وی سکرینوں پر التجا کرتے رہے کہ افتخار چودھری کا تمام سیاستدانوں کو "چور لٹیرے اور جعلی ڈگریوں والے" ثابت کرتے مشن کا ساتھ دیتے ہوئے حق گو اینکر خواتین وحضرات اسی درخت کی شاخیں کاٹ رہے ہیں جو انہیں ریاستی تپش سے بچائے ہوئے ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 2013ء تک قابل ستائش صبر کے ساتھ شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک اپنی قیادت کی سکرینوں پر تذلیل برداشت کی۔ سیاستدانوں کو مگر سبق مل گیا کہ ٹی وی سکرینوں پر چھائے "ہیرو" کسی کے "سگے" نہیں۔ انہیں فقط اپنی مقبولیت درکار ہے۔ سیاستدان کا صحافی کے ساتھ برسوں پرانا باہمی عزت واحترام کا رشتہ یوں بغیر اعلان کئے ختم ہوگیا۔
سیاسی چھائوں سے محروم ہوجانے کے بعد ٹی وی صحافت پر کنٹرول آسان ہوگیا۔ ریاست نے اسے قواعد وضوابط کی لگام ڈالی تو "باریاں لینے والے چور اور لٹیروں " کے خلاف ابھری تحریک انصاف نے بھرپور سوشل میڈیا مہم کے ذریعے ان کی اخلاقی ساکھ بھی تباہ کردی۔ انہیں "لفافوں " کے علاوہ "بدکردار" بھی بنادیا۔ حق وصداقت کے اظہار کے لئے سوشل میڈیا روایتی میڈیا کے مقابلے میں ایک توانا متبادل کی صورت ابھرا۔ سیاستدانوں اور صحافیوں میں نفاق کے بعد "آزاد عدلیہ" کے ثاقب نثار جیسے ججوں کے لئے بھی آسان ہوگیا کہ وہ تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم سے "رسیدیں " مانگتے ہوئے قوم کے مسیحاہوئے نظر آئیں۔ منتخب سیاستدانوں کے خلاف "آزاد"عدلیہ کی جانب سے برپا کی اس جنگ کا بھی عوام میں مقبول ومعروف اینکر خواتین حضرات نے کھل کر ساتھ دیا۔ اس کے نتیجے میں بانی تحریک انصاف کے لئے بھی "تبدیلی" کی علامت بن کر ابھرنا آسان ہوگیا۔
پیمراکے قواعد وضوابط میں جکڑے صحافیوں کی مذمت کرتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کردی جاتی ہے کہ 2014ء کے برس سے تقریباََ ہر روز اسے نت نئے قواعد وضوابط کی زنجیروں میں جکڑا گیا ہے۔ "چیک اینڈ بیلنس" کے نام پر تیار ہوئی یہ زنجیریں عمران خان کے دورِ حکومت میں مزید یکسوئی سے نافذ ہوئیں۔ روایتی میڈیا کا "مکو ٹھپ" دیا گیا تو پیکا کے نام سے تیار کئے قوانین نے سوشل میڈیا کو بھی لگام ڈالنے کی تیاری شروع کردی۔
دنیا کی ہر ریاست خواہ وہ کتنی ہی "جمہوری" کیوں نہ ہو عدلیہ اور صحافت کو "آزادی" کے نام پر "بالادست"ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ پاکستان ان دنوں ایسے مراحل سے گزر رہا ہے جہاں صحافت کو "قواعد وضواط" کا پابند بنالینے کے بعد عدلیہ کو بھی "نارمل" بنایا جارہا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ دو"روایتی ستونوں " پر قابو پالینے کے بعد اب توجہ سوشل میڈیا کی بدولت "انقلاب" برپا کرنے کو بے چین کاوشوں کے کنٹرول پر مبذول کردی جائے گی۔