Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Selab Se Peda Hone Walay Talkh Haqaiq Aur Hamari Tamash Beeni

Selab Se Peda Hone Walay Talkh Haqaiq Aur Hamari Tamash Beeni

جن ملکوں کو ذرا سی خوش حالی بھی نصیب ہوجائے وہاں میری عمر تک پہنچے لوگ روزمرہ زندگی کے جھنجٹوں سے آزاد ہوئے ان مشاغل میں مصروف ہوجاتے ہیں جو رزق کی تلاش میں ان سے چھوٹ گئے تھے۔ زیادہ خوش حال ملکوں کے بوڑھے افراد پنشن کی بدولت جمع ہوئی رقم کو وہ ملک دیکھنے میں خرچ کردیتے ہیں جنھیں دیکھنے کی حسرت بچپن سے دلوں میں پل رہی ہوتی ہے۔ ربّ کا صد شکر کہ میں ایسے کسی ملک میں پیدا نہیں ہوا۔ روز کی روٹی روز کمانے کو مجبور ہوں۔ اس مجبوری نے میرے ذہن کی توانائی برقرار رکھی ہوئی ہے۔ زندگی پر بوجھ ہونے کا جرم بھی محسوس نہیں ہوتا۔ لکھنے اور بولنے سے جو پیسے ملیں ان پر حکومت کو ٹیکس ادا کرنا مگر لازم ہے اور ستمبر کے ابتدائی دنوں میں ٹیکس ادائیگی کے کاغذات جمع کرنا شروع ہوجاتا ہوں۔

اس مشقت سے گزرتے ہوئے اگرچہ بارہا یہ سوچتا ہوں کہ میرے دیے ٹیکس سے اب تک میں نے اپنی ذات کے لیے حکومت سے وصول کچھ بھی نہیں کیا۔ صحافی بھی اب وہ شخص شمار ہوتا ہے جسے حکومت وقت کسی نوعیت کے تمغے سے نوازے۔ اس سے بھی عمر تمام صحافت کی نذر کردینے کے باوجود محروم ہی رہا۔ غالباً میرے لیے اپنے لکھے پر ٹیکس دینا اس لیے واجب ہے کیونکہ میں لاشعوری طورپر لکھنے کی روانی میں پڑھنے والوں کو کچھ سوچنے اور سوال اٹھانے کو اکساتا ہوں۔ ٹاپ-ڈائون (Top-Down) ماڈل کے تحت چلائے معاشروں میں انفرادی سوچ کو اُکسانا مگر جرم تصور ہوتا ہے۔ سرکار ایسے معاشرے میں مائی باپ، کہلاتی ہے۔ ماں والی شفقت شاذہی دکھاتی ہے۔ پدرانہ دبدبہ اگرچہ اس کی کلیدی سرشت ہے۔

اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے اطلاع یہ دینا ہے کہ گزرے جمعہ کی دوپہر نماز کے وقفے کے بعد کھلے بینک میں بیٹھا اپنے اکائونٹ کی تفصیل کا انتظار کررہا تھا۔ انتظار کے لمحات میں فون اٹھا کر ایکس، کے پلیٹ فارم پرگیا تو اطلاع ملی کہ تحریک انصاف کے قائد عمران خان صاحب کی ہمشیرہ پر اڈیالہ جیل کے قریب پریس سے گفتگو کے دوران انڈا اچھالا گیا ہے۔ مذکورہ واقعہ کی تفصیل پڑھتے ہی میں نے ایکس ہی پر خود کو ذہن ساز، تصور کرتے ہوئے ایک پیغام لکھ ڈالا۔ اردو صرف ہاتھ سے لکھ سکتا ہوں۔ اسے ٹائپ کرنا نہیں آتا۔ اس کمزوری کے سبب اپنے خیالات انگریزی ہی میں لکھنے کی عادت ہے۔ انگریزی ہی میں لہٰذا مذمتی پیغام لکھا۔ اسے لکھتے ہوئے اگر، مگر، چونکہ اور چنانچہ کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے کے بجائے واضح الفاظ میں یہ بھی لکھ ڈالا کہ سیاسی مخالفین پر انڈے اچھالنے کی روایت جلد از جلد ختم نہ ہوئی تو ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے جب کسی بھی سیاستدان سے دورپرے کا تعلق رکھنے والوں کے لیے بھی بلاخوف وخطر وطن کی گلیوں اور سڑکوں پر چلنا ناممکن ہوجائے گا۔

جو میرا فرض تھا اسے پورا کردیا تو ایکس کو جانچتے ہوئے احساس ہوا کہ عمران مخالف حلقے مذکورہ واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے مکافاتِ عمل، کا ذکر بھی کررہے ہیں۔ اس تناظر میں نواز شریف پر جوتا اور خواجہ آصف پر سیاہی اچھالنے کے علاوہ احسن اقبال پر چلائی گولی کا ذکر بھی ہورہا تھا۔ دلی کے ایک محاورے کے مطابق اگرچہ کی روٹی مگرچہ کی دال کے ساتھ کھائی جارہی تھی۔ اس رویے نے دل دکھادیا۔

اپنی کوتاہ فہمی پر بھی ملامت محسوس کی جو ابھی تک سمجھ نہیں پائی ہے کہ ہم بنیادی طورپر چسکا طلب، غیبت فروغ اور تماش بین معاشرہ ہیں جہاں مجھ جیسے عام آدمی کو اصول، کی بات کرتے ہوئے سوبار سوچنا چاہیے۔ فیصلہ کرلیا کہ اب اس موضوع پر ایک لفظ بھی نہیں لکھا جائے گا۔ دوسروں کے لکھے پیغامات غور سے پڑھنا مگر کالم لکھنے والے کی مجبوری ہے اور کالم ان دنوں سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ شیئر اور لائیکس بٹورنے کے لیے لکھے جاتے ہیں۔ اس کے لیے ٹھوس مواد نہیں شرطیہ مٹھے، نوعیت کے سودے، کی ضرورت ہوتی ہے جو ایکس کے پھیرے لگانے سے وافرمقدار میں مل جاتا ہے اور آپ کو کسی کتاب یا دیگر ذرائع سے سنجیدہ مواد ڈھونڈنے کی مشقت سے بھی آزاد کردیتا ہے۔

چٹ پٹے مواد کی تلاش میں ایکس، کی گلی کے طواف میں مصروف تھا تو مریم ریاض وٹوصاحبہ کے اسی پلیٹ فارم پر لکھے ایک پیغام پر نگاہ پڑگئی۔ محترمہ نے چند دن قبل مجھے قبر میں ٹانگیں لٹکانے کے باوجود جھوٹ، بولتے ہوئے پکڑا تھا۔ جمعہ کے روز مگر ان کے طیش کا نشانہ کوئی اور تھا۔ ان کا پیغام تھا: اچھا ڈرامہ لگا ہوا ہے اور آپ سب بے وقوف بنے جارہے ہیں۔ اس کے بعد انگریزی میں ارشاد تھا جس کا سادہ مطلب یہ تھا کہ نکتے سے نکتہ ملائیے اور نتائج اخذ کیجیے۔ چونکہ یہ پیغام ٹویٹ پر محترمہ علیمہ خان صاحبہ پر انڈا اچھالنے کے چند ہی لمحوں بعد نمودار ہوا اس لیے پڑھنے والوں کی کافی تعداد یہ سوچنے کو مائل ہوئی کہ محترمہ مریم ریاض وٹو صاحبہ بانی تحریک انصاف کی ہمشیرہ کے ساتھ پیش آئے واقعہ کو ڈرامہ، ٹھہرارہی ہیں۔

محترمہ مریم ریاض وٹو صاحبہ کی دریافت کے مطابق قبر میں ٹانگیں لٹک جانے کے باوجود جھوٹ بولنے کی عادت نہ چھوٹنے کے باوجود یہ بدنصیب کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہے گا کہ محترمہ نے ڈرامہ، کا ذکر کسی اور تناظر میں کیا ہوگا۔ عمران مخالف حلقوں کو مگر ایکس پر لکھا ان کا پیغام یہ عندیہ دیتا محسوس ہوا کہ خان صاحب کے خاندان میں بھابھی اور نند، کے مابین (سیاسی) وراثت کی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ اتفاقاً جمعہ ہی کی صبح بانی تحریک انصاف سے کئی برسوں سے ناراض ہوئے حفیظ اللہ نیازی جو ان کے کزن اور بہنوئی بھی ہیں کی ایک تحریر اردو کے ایک معاصر میں چھپی تھی۔ اس کالم میں حفیظ صاحب نے (جن کا بیٹا 9مئی کے واقعہ کی وجہ سے طویل عرصہ سے جیل میں ہے) عمران خان صاحب کی (سیاسی) وراثت کے معاملے کو تفصیل سے زیر بحث لاتے ہوئے اختتام پر یہ دعویٰ کیا کہ محترمہ علیمہ خان صاحبہ نے اپنے بھائی کی منشا یا اس کے برخلاف مذکورہ وراثت اپنے لیے اچک لی ہے۔

محترمہ مریم ریاض وٹو صاحبہ کی ہدایت کے مطابق عمران مخالف افراد نے اس کالم کو نکتہ سے نکتہ ملانے کے لیے استعمال کیا۔ دریں اثناء راولپنڈی پولیس کی جانب سے یہ بیان جاری ہوا کہ محترمہ علیمہ خان پر انڈا اچھالنے والی خواتین کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ وہ خیبرپختونخوا سے اڈیالہ جیل کے قریب آئی تھیں جہاں صوبائی حکومت کے چند ملازم وزیر اعلیٰ کے بے رحمانہ سلوک، کی دہائی مچارہے تھے۔ ان کی مبینہ طورپر خواہش تھی کہ علیمہ خان صاحبہ ان کی آوازبنیں۔ انھوں نے ملازمین کی فریاد سننے سے انکار کردیا تو ان خواتین نے احتجاجاً، ان پر انڈے اچھالے۔

عاشقانِ عمران مگر اس دعویٰ پرڈٹے ہوئے ہیں کہ عمران خان کی نڈر، بہن کو جو ہر ہفتے اڈیالہ جیل پہنچ کر اپنے بھائی سے ملنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں، خوفزدہ کرنے کے لیے حکومت نے ان پر انڈے پھینکوائے۔ انڈا پھینکنے والی خواتین کرائے کی احتجاجی، تھیں۔ ان کے لیے کرائے پر ایک گاڑی بھی لی گئی تھی۔ محترمہ علیمہ خان پر انڈا اچھل گیا تو پولیس نے نہایت مکاری سے کرائے پر لی گاڑی کو گھیرے میں لے کر انڈا اچھالنے والی خواتین کو محفوظ راستہ، فراہم کردیا۔ ان کی گرفتاری کا محض ڈرامہ رچایا جارہا ہے۔

محترمہ علیمہ خان کے ساتھ ہوئے واقعہ کے اب دو ورژن ہیں۔ اندھی نفرت وعقیدت میں آپ اس میں سے کسی ایک کو اپنا کر بے پناہ تخلیقی کہانیاں تشکیل دے سکتے ہیں۔ ان کہانیوں کو سوشل میڈیا پر بے پناہ لائیکس اور شیئر ملنا یقینی ہے۔ ایسے میں پرانی وضع کا یہ قلم گھسیٹ لکھے تو کیا لکھے؟ جمعہ کے روز ہوئے واقعہ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر چسکا فروشی اور فروغ غیبت کی غرض سے پیغامات کی بھرمار دیکھتے ہوئے کئی بارخود سے یہ سوال پوچھنے کو مجبور ہوا کہ چسکا اور غیبت سے لبریز جو کہانیاں میں سن رہا ہوں ان کے شور میں کس کو یاد رہے گا کہ وطن عزیز ان دنوں اپنی تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کررہا ہے۔

سیلاب نے ربیع اور خریف کے دوسیزنوں کی عادی زمین پر چاول، گنا اور کپاس کی نقد آور فصلیں، تقریباً تباہ کردی ہیں۔ ہم ہر صورت غذائی بحران کی جانب بڑھ رہے ہیں جس کا عندیہ ہفتہ کی صبح افراطِ زر کی شرح نے دے دیا ہے۔ طویل عرصے کے بعد کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں 5فیصد اضافہ رپورٹ ہوا اور میری رائے میں یہ صرف ابتداہے۔ تلخ حقائق پر توجہ دینے اور ان کا حل ڈھونڈنے کے بجائے ہم تماش بین چسکا اور غیبت سے لتھڑی کہانیاں سننے کو بے قرار ہیں۔ ربّ کریم ہم پر رحم کرے تو کیوں کرے؟

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran