Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Trump Ke Ladle Sergio Gor Ki Bharat Mein Bator Safeer Namzadgi

Trump Ke Ladle Sergio Gor Ki Bharat Mein Bator Safeer Namzadgi

بھارتی وزارت خارجہ سے حال ہی میں ریٹائر ہوئے "امریکہ شناس" افسران کی اکثریت "مودی کے گودی میڈیا" کے اینکروں کو یقین دلائے چلے جارہی ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے 38سالہ سرجیوگور کی بھارت میں بطور سفیر نامزدگی اچھے کی خبر ہے۔ مئی 2025ء کے ابتدائی ایام میں ہوئی پاک-بھارت جنگ کے دوران ٹرمپ کے اپنائے رویے نے مگر اینکروں کا دل توڑ رکھا ہے۔ وہ اس امر پر بھی بہت نالاں ہیں کہ ان کے ملک کو روس سے تیل خریدنے کی وجہ سے ٹرمپ انتظامیہ نے بھاری بھرکم جرمانے کی صورت امریکہ بھیجی بھارتی مصنوعات پر 50فی صد ٹیکس لاگو کردیا ہے۔

سرجیوگور کی بطور سفیر نامزدگی گودی میڈیا کو مذکورہ پس منظر کی بدولت پنجابی محاورے والا "موراوور" محسوس ہورہی ہے۔ کلیدی وجہ اس کی یہ بھی ہے کہ گورکو محض بھارت میں امریکہ کا سفیر ہی نامزد نہیں کیا گیا۔ اسے امریکی صدر نے جنوبی اور وسطی ایشیاء کے تمام ممالک سے معاملات طے کرنے کے لئے "خصوصی سفیر" بھی مقرر کردیا ہے۔ یوں بھارت کی "خصوصی حیثیت" ختم کرتے ہوئے اسے محض "جنوبی ایشیاء" کا ایک ملک تصور کیا گیا ہے جس کا ہمسایہ پاکستان بھی ہے اور پاکستان کے ساتھ اس کے معاملات ہمیشہ کشیدہ ہی رہے ہیں۔

بھارت کی طویل عرصے سے خواہش رہی ہے کہ دیگر ممالک خصوصاََ امریکہ بھارت کو پاکستان سے "جڑا" ملک تصور نہ کرے۔ اپنی آبادی اور معیشت کی وجہ سے "پرانی تہذیب کا یہ وارث" خصوصی توجہ کا حقدار ہے۔ "انڈو-پاک" کی اصطلاح اسے پاکستان جیسے "کم تر" ممالک کے برابر بنادیتی ہے۔ بھارت کو پاکستان کے ساتھ ملاکر دیکھنے سے یہ امکان بھی موجود رہتا ہے کہ امریکہ جیسے عالمی اثرورسوخ کے حامل ملک جنوبی ایشیاء کے دوازلی دشمنوں کے درمیان مصالحت کروانے کی کوشش کریں۔ ایسی کوشش ہو تو مسئلہ کشمیر بھی زندہ ہوجاتا ہے جسے مودی سرکار اپنے تئیں اگست 2019میں"حل" کرچکی ہے۔

پاکستان سے ہٹاکر بھارت کو دیکھنے کی تمنا بالآخر بش حکومت کے آخری دنوں میں بارآورثابت ہوئی۔ اس کے بعد آئی اوبامہ حکومت نے نہایت ہوشیاری سے "انڈو-پاک" کے بجائے "انڈو-پیسفک"کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کردی۔ مقصد اس کا بھارت سے کہیں زیادہ دنیا کو یہ پیغام دینا تھا کہ سردجنگ کے خاتمے کے بعد دنیا کی واحد سپرطاقت کی صورت میں اُبھرا امریکہ اب دفاعی اور اقتصادی اعتبار سے بھارت کو چین کے برابر لانا چاہ رہا ہے۔

ٹرمپ کا سابقہ دورِ صدارت مذکورہ سوچ کا بھرپور اظہار تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کے ملک جاکر عوامی اجتماعات سے خطاب کیا۔ ٹرمپ-مودی بھائی بھائی کا شور مچ گیا۔ اس دور کو ذہن میں رکھتے ہوئے بھارت کو قوی امید تھی کہ وائٹ ہائوس لوٹ آنے کے بعد ٹرمپ امریکہ-بھارت تعلقات کو توانا تر بنائے گا۔ ٹرمپ نے مگر بھارت کی نگاہ میں مئی کی پاک-بھارت جنگ کے دوران "بے وفائی" کا مظاہرہ کیا۔ اس کی امریکہ بھیجی مصنوعات پر 50فی صد ٹیکس بھارتی معیشت کو تقریباََجامد کرسکتا ہے۔ ایسے حالات میں سرجیوگور کی بطور سفیر نامزدگی کو اضطرابی ہذیان کیساتھ زیر بحث لایا جارہا ہے۔

یہاں تک لکھنے کے بعد ضروری ہے کہ سرجیوگور (Sergio Gor)کا تھوڑا تعارف بھی ہوجائے۔ جیسا کہ نام ہی سے عیاں ہے موصوف روسی نڑاد ہیں۔ ازبکستان کے تاریخی شہر تاشقند میں 1986ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کی والدہ مگر سوویت یونین ختم ہوجانے کے بعد مالٹا منتقل ہوگئیں۔ وہاں انہوں نے "اسرائیلی شہری" ہونے کا اعلان بھی کیا۔ کاروباری شخصیت ہیں اور بیٹے کو اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ بھجوادیا۔ امریکہ پہنچ کر گوربالآخر وہاں کی مشہور جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں داخل ہوا۔ اس کا پورا نام Sergey Gorokhovskyتھا۔ یونیورسٹی میں لیکن اس نے خود کو Gor Sergio کہلوانا پسند کیا۔

وہ جس دہائی میں واشنگٹن پہنچا اس کے دوران سردجنگ میں کمیونزم کی شکست کے بعد لبرل ازم عوام اور خصوصاََ تعلیمی اداروں میں بہت مقبول تھا۔ نوجوان گور نے مگر اندازہ لگالیا کہ بالآخر امریکہ اپنے "اصل" کو لوٹے گا۔ دور روس سوچ کی بدولت وہ قدامت پسند ری پبلکن پارٹی میں شامل ہوکر بتدریج اس تحریک کا حصہ بن گیا جو امریکہ کو "دوبارہ عظیم" بناناچاہتی ہے۔ Magaکے نام سے مشہور اس تحریک کا ٹرمپ کو حتمی نمائندہ سمجھاجاتا ہے۔

ٹرمپ کے "سنہرے مستقبل" کا ذہین گور نے جبلی طورپر ادراک کرتے ہوئے اس کے بیٹے ڈونلڈ جونیئر سے گہری دوستی گانٹھ لی۔ اس کے ساتھ مل کتابوں کی اشاعت کا ادارہ قائم کیا۔ مذکورہ ادارے نے امریکی صدر ٹرمپ کے والد کی "تاریخ" پر ایک کتاب لکھنے کے علاوہ اس کے خطوط کوبھی کتابی شکل دی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یوں گور ٹرمپ خاندان کو "تاریخ" میں اہم مقام دینے میں مصروف رہا۔ اس کی یہ ادا ٹرمپ کو بہت بھائی۔ صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی اس نے سرجیوگور کو اس ٹیم کا سربراہ بنادیا جو کسی امریکی سفیر کو اہم تین سرکاری ادارے میں اعلیٰ سطح پر تعینات کرنے سے قبل اس کی صدر ٹرمپ سے وفاداری کا "امتحان" لیتی تھی۔

صدر ٹرمپ کے ساتھ وفاداری کا امتحان لیتے ہوئے سرجیوگور کا Xکے مالک ایلان مسک سے بھی جھگڑا ہوگیا۔ ایلان کو فضا میں سیارے بھیجنے کے لئے امریکی ادارے "ناسا (NASA)" کی سرپرستی درکار ہوتی ہے۔ اسی باعث اس نے ایک شخص کو اس ادارے میں بطور ڈائریکٹر نامزدگی کے لئے ٹرمپ سے سفارش کی۔ سرجیوگور نے لیکن پوری لگن سے یہ دریافت کرلیا کہ جس شخص کی ایلان مسک نے سفارش کی ہے وہ سوشل میڈیا پر ٹرمپ کے خلاف واہی تباہی بکتا رہا ہے۔ اس دریافت کے بعد ایلان مسک کے نامزد کردہ شخص کا کام نہ ہوا۔ اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام ہوکر ایلان مسک نے سرجیوگور کو "سانپ" کا لقب دیا اور ٹرمپ سے بھی دوری اختیار کرلی۔

سرجیوگور مگر صدر ٹرمپ کا بہت لاڈلا ہے۔ Magaتحریک کے ایک طاقتور ترجمان سٹیوبینن کا دعویٰ ہے کہ گور کا شمار ان دویاتین افراد میں ہوتا ہے جو دن اور رات کے کسی بھی وقت ٹرمپ کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا کراس کے اندر داخل ہوسکتے ہیں۔ امریکی صدر تک اس کی رسائی قابل رشک حد تک غیر معمولی ہے۔ بھارت میں اس کی بطور امریکی سفیر نامزدگی کا مطلب یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اپنے ایک قریب ترین وفادار شخص کو اس عہدے پر فائز کرتے ہوئے صدر ٹرمپ مودی حکومت کے ساتھ مسلسل بگڑتے تعلقات کو بالآخر بہتر کرنے کی راہ ڈھونڈ رہا ہو۔ "گودی میڈیا" کے نمایاں افراد مگر ٹرمپ سے تپے ہوئے ہیں۔ وہ گور کی ٹرمپ سے قربت پر غور کرنے کو آمادہ ہی نہیں۔ اس بات کوبھی خاطر میں نہیں لارہے کہ 38سال کا یہ شخص کسی سفارتی تجربے کا ہرگز حامل نہیں۔ وہ مودی اور ٹرمپ کے مابین روایتی افسر شاہی سے ابھرے معاونین سے بالارہتے ہوئے "تجدید تعلقات" یقینی بناسکتا ہے۔

عام پاکستانی ہوتے ہوئے لیکن میں اس پہلو پر توجہ دینا ضروری سمجھا ہوں۔ اس کی بھارت میں بطور سفیر نامزدگی کے علاوہ جنوبی اور وسطی ایشیاء ممالک کے لئے بطور خصوصی سفیر تقرری مجھے یہ سوچنے کو بھی مجبور کررہی ہے کہ اس کے مذکورہ عہدے پر تقرری کے ہوتے ہوئے امریکہ پاکستان میں ایک طاقتور سفیر لگانے کی ضرورت محسوس کرے گا یا نہیں۔ پاکستان کیساتھ امریکہ نے بھارت میں مقیم سفیر ہی کے زیر نگرانی معاملات چلانے کا فیصلہ کرلیا تو "انڈو-پاک" تو ہوجائے گا مگر اس تناظر میں پالیسی سازی کا مرکز واشنگٹن نہیں نئی دلی بن جائے گا۔ ریاست پاکستان کے فیصلہ سازوں تک کسی بھی نوعیت کی رسائی کے بغیر میں امید ہی باندھ سکتا ہوں کہ ایسا نہ ہو۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran