Friday, 05 December 2025
  1. Home/
  2. Nusrat Javed/
  3. Usi Qatil Ke Hathon Shifa Ki Tawaqo

Usi Qatil Ke Hathon Shifa Ki Tawaqo

غالباََ پہلے بھی اس کالم میں ایک بار ذکر کرچکا ہوں۔ کالموں میں لکھی باتیں مگر لوگوں کو یاد نہیں رہتیں۔ نئے پڑھنے والوں کو بتانا بھی ضروری ہے۔ دہرانے میں لہٰذا کوئی ہرج نہیں۔ 1980ء کی دہائی کے آغاز میں اپنی وفات سے چند روز قبل اردو کے مشہور شاعر جناب فیض احمد فیض اسلام آباد تشریف لائے تھے۔ بیگم سرفراز اقبال کے گھر قیام پذیر ہوئے۔ انہیں دِی مسلم کے ایڈیٹر مشاہد حسین سید اور وہاں کے سٹاف سے ملوانے گارڈن کالج راولپنڈی کے ہر دل عزیز استاد خواجہ مسعود صاحب اس انگریزی اخبار کے دفتر لے آئے۔

فیض صاحب کو میں اس ملاقات سے کم از کم دس سال قبل سے جانتا تھا۔ اکثر ان کے لئے وہ کام کرنے میں بھی خوشی محسوس کرتا جو "چھوٹوں" سے کروائے جاتے ہیں۔ وہ مشاہد صاحب کے کمرے میں خواجہ صاحب کے ہمراہ بیٹھے تھے کہ مجھے بھی وہاں بلوالیا گیا۔ مشاہد صاحب کی تمنا تھی کہ اس کمرے میں جو گفتگو ہورہی ہے میں اس کی بنیاد پر کوئی کالم یارپورٹ لکھوں۔

فلسطین کی تحریک آزادی کے لئے وہ بہت کڑا وقت تھا۔ اردن سے جب فلسطینیوں کو زبردستی نکالا گیا تو لبنان ان کی دوسری پناہ گاہ ہوئی۔ لبنان کے شہر بیروت ہی سے فلسطینی رہ نما یاسر عرفات نے ایک ثقافتی رسالہ نکالنے کا فیصلہ کیا جو ان دنوں کی "تیسری دنیا" کہلاتے ممالک میں رائج ادبی رحجانات کو دنیا کے سامنے لاتا تھا۔ فیض صاحب اس رسالے کے مدیر تھے۔

لبنان میں بھی لیکن پی ایل او کا قیام مسیحی انتہا پسندوں کی تنظیم نے بتدریج مشکل سے مشکل تر بنانا شروع کردیا۔ حیران کن بات یہ بھی ہوئی کہ خود کو فلسطین کایک وتنہا محافظ وترجمان ثابت کرنے کو مصر شام کا صدر حافظ الاسد بھی فلسطینیوں کے خلاف متحرک ہوئی قوتوں کی سرپرستی فرمارہا تھا۔ فلسطینیوں کی صابرہ اور شطیلہ کے نام سے آباد وسیع وعریض بستیوں کو تباہ کرنے کے لئے اسرائیلی فوج بھی لبنان میں درآئی۔

بالآخر نام نہاد "عالمی برادری" نے فیصلہ یہ کیا کہ فلسطینیوں کو لبنان سے افریقہ کے ملک تیونس منتقل ہوجانا چاہیے۔ یاسر عرفات اپنی تنظیم کو بچانے کے لئے اس شرمناک شرط کو منظور کرنے پر آمادہ ہوگئے۔ میری ناقص رائے میں پی ایل او کی لبنان سے تیونس منتقلی فلسطینی تحریک کو کمزور تر بنانے کا اہم ترین سبب ہوئی۔ فیض احمد فیض بھی نہایت دیانت داری سے یہ حقیقت تسلیم کرتے تھے۔ یہ تسلیم کرنے کے باوجود وہ نہایت بے تابی سے یہ سوال بھی اٹھاتے کہ یاسر عرفات کے پاس تیونس جانے کی شرط ماننے کے سوا کونسا راستہ بچا تھا۔

پیر کی شام امریکی صدر کے غزہ میں"امن کی بحالی" کے لئے 20نکات منظر عام پر آئے ہیں۔ بین الاقوامی امور کا حقیر طالب علم ہوتے ہوئے میرے لئے اس کی کئی شقیں فلسطین کے حامیوں کیلئے انتہائی شرمناک محسوس ہوسکتی ہیں۔ شاید آتش اب بھی جوان ہوتا تو ڈٹ کر ان کی مذمت کرتا۔ بے تحاشہ ناخوش گوار تجربات سے گزرنے کے بعد مگر فیض صاحب کی طرح یہ سوال اٹھانے کو مجبور ہوں کہ مسلمانوں کے پاس ٹرمپ کے فارمولے کو تسلیم کرنے کے سوا کونسی راہ موجود ہے۔

اکتوبر2023ء کے بعد اسرائیل نے جس وحشیانہ انداز میں غزہ پر گولہ باری کی ہے، نام نہاد "مسلم اُمہ" نے اس کی محض لفظی مذمت کی۔ اسرائیلی فضائیہ کو غزہ پر بمباری سے روکنے کے لئے کسی مسلمان ملک نے عملی مداخلت نہیں کی۔ مداخلت نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ حماس نے 23 اکتوبر کے روز اسرائیل میں گھس کر جو کارروائیاں کیں وہ کئی اعتبارسے ناقابل دفاع بھی تھیں۔ فلسطینیوں کے دلوں میں نسلوں سے ابلتا غصہ ہر حوالے سے برحق ہے۔

حماس نے اس غصے کو مگر ناقابل دفاع انداز میں اکتوبر2023ء میں ظاہر کیا۔ "حساب برابر" کرنے کی ضد میں لیکن اسرائیل بھی ساری حدود پار کرگیا۔ غزہ کی پٹی میں محصور بچوں اور خواتین کا حماس کی فیصلہ سازی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان کو مگر وحشیانہ بمباری کا تواتر سے نشانہ بنایا گیا۔ غزہ کی پٹی میں محصور عام شہریوں کو خوراک اور پانی جیسی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم رکھا گیا۔ صحت عامہ کا جو نظام غزہ میں بہت لگن سے تیار ہوا تھا اس سب کو بے دریغ انداز میں تباہ کردیا گیا۔ مسلمان ملک مگر اسرائیل کا ہاتھ روکنے میں ناکام رہے۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ 1967ء کی عرب-اسرائیل جنگ کے دوران میں آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ سکول جانے کے بجائے مجھ جیسے کئی دیوانے لاہور کے مال رو ڈ پر آجاتے اور "ناصر-یاسر الحبیب-فضل فضل تل ابیب"(مصر کے صدر ناصر اور پی ایل او کے سر براہ یاسرعرفات ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ ہم ان سے درخواست گزار ہیں کہ باہم مل کر تل ابیب جو اُن دنوں اسرائیل کا دارالحکومت تھا کا رخ کریں)۔ ایسے جلوس پاکستان ہی نہیں دنیا کے کئی اورممالک میں بھی عرب-اسرائیل جنگ بندی تک جاری رہے۔ غزہ پر وحشیانہ بمباری کے دوران مسلم ممالک میں ویسی ہل چل نظر نہیں آئی۔ فقط مذمتی بیانات اور سربراہان مملکت کی آنیاں جانیاں رہیں۔

اس لاتعلقی کے ہوتے ہوئے مسلم دنیا کے پاس امریکی صدر ٹرمپ کے پیش کردہ "امن فارمولے" کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی راستہ ہی نظر نہیں آرہا۔ عملیت پسندی کا تقاضہ ہے کہ "کڑوے گھونٹ" کو پی لیا جائے۔ امریکی صدر نے کیمروں کے روبرو یہ حقیقت تسلیم کی ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل نے روز اوّل سے موصوف کو ایسا فارمولا سوچنے کو کہا ہے۔ اسی فارمولے کو تسلیم کرنے کا سب سے بڑا فائدہ غزہ کی پٹی میں محصور ہوئے عام شہریوں، خصوصاََ بچوں اور عورتوں کا تحفظ ہے۔ دور رس نقطہ نظرسے یہ بات بھی اطمینان بخش ہے کہ امریکہ اسرائیل کو فلسطین لیگل اتھارٹی کے زیر نگین دریائے اردن کے مغربی علاقوں کو ہڑپ کرنے سے روکے گا۔ وہاں اسرائیلی آبادکاروں کی زور زبردستی سے بسائی بستیوں کی تعمیر بھی ناممکن ہوجائے گی۔

وقتی طورپر تکلیف دہ اگرچہ یہ حقیقت بھی ہے کہ غزہ کی پٹی آئندہ کئی برسوں تک ارض فلسطین سے جدا ایک خطہ ہوگی جسے امریکی صدر کی قیادت میں قائم ہوا ایک بورڈ چلائے گا۔ اس بورڈ کا سی ای او برطانیہ کا سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر ہوگا۔ برطانیہ ہی نے کشمیر کی طرح اسرائیل اور فلسطین کا قضیہ کھڑا کیا تھا۔ "اسی قاتل" کے ہاتھوں شفا کی توقع جی کو تکلیف تو بہت پہنچاتی ہے۔ بات مگر وہی فیض صاحب والی کہ کمزور قوتوں کے پاس جبر کی صورت نازل ہوئیں شرطوں کے انکار کا متبادل کیا ہے؟ دُکھی دل کے ساتھ جو مل رہا ہے اسی پر گزارہ کرنے کو مجبور ہیں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran